نابینا افراد پر تشدد اور مریم نواز کا ٹویٹ
(Ahmed Raza Mian, Lahore)
پنجاب پولیس کے بے حس اور
بے رحم گلو بٹوں کی طرف سے اپنا حق مانگنے والے معذوراور بے بس نابینا
افراد پر اندھا دھند تشدد کرنے پر محترمہ مریم نواز نے زخمی افراد کے زخموں
پر مرحم رکھنے کے لیے سوشل میڈیا پر اپنا ایک تاریخی بیان جاری کیا
ہے۔انہوں نے فرمایا ہے کہ "مجھے افسوس ہے کہ اس پر مذمت موقع پر نہ تو میاں
نواز شریف صاحب (پاپا) ملک میں موجود ہیں اورنہ ہی میاں شہباز شریف صاحب (انکل)
۔ اگر پاپا اور انکل یہاں ہوتے تو یہ افسوس ناک واقع کبھی پیش نہ آتا" ۔
یعنی اگر یہ دونوں صاحبان وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب ملک میں
موجود ہوتے تو پولیس کی کیا جرات تھی کہ وہ نابینا افراد پر صر ف ڈندے ہی
برساتی۔ آنسو گیس اور گولیاں برساکر اپنی بہادری اور غیرت کا ثبوت دیا جا
سکتا تھا۔ کوئی پانچ سات بندوں کو پھڑکا بھی دیا جاتا تو کیا فرق پڑتا۔ تھے
تو وہ نابینا ہی۔ اس ملک اور قوم پر بوجھ۔ اُس کے بعد ہلاک شدگان کے
لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپیہ اور زخمیوں کے لیے دو دو لاکھ روپے کا
اعلان کیا جاتا۔ اور میڈیا پر ایک مذمتی بیانات دے کر سیاست چمکائی جاتی۔
میاں نواز شریف صاحب اس کو تاریخ کا سب سے بڑا واقع قرار دیتے ۔ اور میاں
شہباز شریف صاحب اپنی انگلی ہلا ہلا کر پر جوش انداز میں خطاب فرماتے۔ اس
واقعے میں ملوث ذمہ داران کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنے کا وعدہ فرماتے۔
یہ ویڈیو وقفے وقفے سے پورے میڈیا پر چلائی جاتی۔ غریب دوست حکومت کی اس
بروقت کاروائی سے حکومت کا امیج پہلے سے بھی زیادہ بہتر ہو جاتا۔ موقع پر
ہی انصاف دینے کی ایک اور مثال قائم کر دی جاتی۔لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ
پاپا اور انکل دونوں ہی ملک سے باہر ہیں۔اور جب پاپا اور انکل ملک سے باہر
چلے جاتے ہیں تو قانون اندھا ہو جاتا ہے اور انصاف بھی اس ملک سے رخصت ہو
جاتا ہے۔
محترمہ مریم نواز صاحبہ۔۔۔ !آپ سچ فرما رہی ہیں۔ اس ملک میں اُس وقت تک
چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی جب تک میاں نواز شریف صاحب اور میاں شہباز شریف
صاحب اس ملک میں موجود ہوتے ہیں۔محترمہ ۔۔۔!آپ انکل اُس وقت لاہور بلکہ
ماڈل ٹاؤن میں ہی موجود تھے-
جب منہاج القرآن پر چڑھائی کر کے اسی پنجاب پولیس نے پورا دن نہتے لوگوں پر
لاٹھیاں اورگولیاں برسا کر اپنا فرض ادا کیا تھا۔ چودہ لوگوں کو قتل کر دیا
گیا تھا اور اَسی سے زیادہ لوگوں کو زخمی کر دیا گیا تھا۔ اور میاں شہباز
شریف صاحب نے بڑے بھولے پن سے یہ کہہ دیا تھا کہ اُنہیں اس واقعے کا علم
بہت دیر کے بعد ہوا تھا۔ہمدردی دکھانے کے لیے اُن مقتولین کے لواحقین کو
پیسوں کی آفر کی گئی تھی۔اس کے علاوہ چھوٹے میاں صاحب نے الزامات ثابت ہونے
پر فوراً مستعفی ہونے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ موصوف کے اس بیان کو میڈیا کی
زینت بناتے ہوئے متعدد بار تمام ٹی وی چینل پر چلایا گیا تھا۔ محترمہ۔۔۔!
آپ کو یاد ہو گا جب آپ کے پاپا اور انکل کہ نئی نئی حکومت آئی تھی اور فیصل
آباد میں لوڈشیڈنگ سے ستائے ہوئے لوگوں نے احتجاج کیا تھا۔ اُس وقت بھی یہی
پولیس تھی جس نے احتجاج کرنے والوں کو اُن کی اوقات یاد دلا دی تھی۔ لوگوں
کو اُن کے گھروں سے باہر نکال کر اُن پر تشدد کیا تھا۔ بچوں ، عورتوں اور
نوجوانوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے آپ کے
انکل اُس وقت بھی ملک میں ہی موجود تھے۔
حکومتیں جب بھی اقتدار میں آتی ہیں اُن کا کوئی نہ کوئی ایجنڈا ہوتا ہے۔
اُن کا ایک منشور ہوتا ہے۔جسے الیکشن کے وقت خوب استعما ل کیا جاتا ہے۔
بھولی بھالی عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ بڑے
بڑے وعدے کیے جاتے ہیں۔روٹی ، کپڑا اور مکان کا وعدہ۔ انصاف دلانے کا وعدہ۔
نوکریاں عام کرنے کا وعدہ۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ۔مہنگائی سے جان
چھڑانے کا وعدہ۔نیاپاکستان بنانے کا وعدہ۔لیکن اقتدار اس کے بالکل برعکس
ہوتا ہے۔ عوام سے کیے گئے وعدوں سے زیادہ مفادات عزیز ہوتے ہیں۔زرداری صاحب
کی حکومت ہو، میاں نواز شریف صاحب کا اقتدار ہو یا عمران خان صاحب کی متوقع
آمد۔ سب سیاست دان ہیں اور سیاست میں کیے گئے وعدے ان سیاست دانوں کے لیے
کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔پاپا اور انکل ملک کے اندر موجود ہوں یا ملک سے
باہر۔ اپنا حق مانگنے والوں پر دھکے، لاٹھیاں، آنسو گیس اور گولیاں ہی
برسائی جاتی ہیں۔ حق مانگنے والے بینا ہوں یا نابینا ، تندرست ہوں یا
بیمار، نارمل ہوں یا ابنارمل سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کر کے اُس برابری
اور انصاف کی مثال قائم کی جاتی ہے جس کا انتخابات سے پہلے وعدہ کیا جاتا
ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمہوریت
میں ہر کسی کو اپنا حق مانگنے کا حق ہے۔لیکن لاہور میں ڈیوس روڈ پر پریس
کلب کے سامنے اپنا حق مانگنے والے نابینا لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ جس
جمہوری ملک میں وہ بستے ہیں وہاں بادشاہوں کا راج ہے۔ اور ان بادشاہوں سے
کسی بھی قسم کا حق مانگنا بہت بڑا جرم ہے اور اس جرم کی سزا وہ اچھی طرح
جان چکے ہیں۔ اگر کسی پڑھے لکھے اور قابل شہری کا اپنی حکومت سے نوکری
مانگنا جرم ہے تو اس جرم کی سزا کو تعزیرات پاکستان کے تحت واضح کیا جائے ۔
اگر یہ ظلم آنکھوں والے افراد پر کیا جاتا تو یہ بات سمجھ میں آسکتی تھی کہ
شاید اُنہوں نے پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی کی ہو۔ روکے جانے پر مزاحمت کی
ہو۔پتھراؤ کیا ہو۔ یا اُن کی طرف سے کسی قسم کی دہشت گردی کا خطرہ ہو۔ وہ
تو نابینا لوگ تھے۔ دوسروں کے سہاروں پر چلنے والے۔ وہ کوئی بے کار قسم کے
لوگ نہیں تھے۔ وہ تعلیم یافتہ لوگ تھے اور اپنی قابلیت کے مطابق نوکریاں
مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے۔ تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بن سکیں۔ لیکن
اُن جرات مند افراد کی حوصلہ افزائی کی بجائے اُن پر ظلم کر کے پولیس نے
ثابت کر دیا کہ وہ صرف طاقت ور اور مقتدر افراد کی محافظ ہے۔ |
|