اور پانی مرگیا
(M. Ibrahim Khan, Karachi)
دریاؤں کی سرزمین پر پانی ناپید
سا ہوچلا ہے۔ دریا بہتے رہتے ہیں۔ پانی دکھائی تو دیتا ہے مگر ملتا نہیں یا
ہاتھ نہیں آتا۔ پکنک منانے، کشتیاں چلانے اور ڈوب مرنے کے لیے پانی کی کمی
نہیں۔ ہاں، پینے کے صاف پانی کا معاملہ ہو تو قِلّت عِفریت کی طرح مُنہ
کھول کر سامنے آجاتی ہے۔ دوسرے بہت سے شعبوں کی طرح اب مملکتِ خدا داد کے
باشندوں اور پانی کے درمیان بھی ٹھیکیدار آگئے ہیں۔ پانی بُنیادی شے ہے جس
کے بغیر سُکون سے جینا تو کیا، جینا ہی ناممکن ہے۔ قُدرت کا یہ رقیق راز وہ
بھی جان گئے ہیں جو اپنے تئیں اِس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک گردانتے ہیں۔
پانی کو برسنے کی اجازت ہے اور بہنے سے بھی کوئی روک نہیں رہا۔ ٹھہرنے پر
البتہ پابندی ہے۔ پانی کے بحران کو دائمی حیثیت دینے پر مامور چند شخصیات
کو کہیں سے اٹل اشارا مل چکا ہے کہ پانی کو کہیں ٹھہرنے کا، سُکون کا سانس
لینے کا موقع نہ دیا جائے۔ اُنہیں باور کرادیا گیا ہے کہ پانی ٹھہر گیا تو
اُن کے ایجنڈے کا جانا ٹھہر جائے گا۔ موسلا دھار بارش سے دریا بھرتے ہیں تو
بھر جائیں مگر زیادہ دیر بھرے نہ رہیں۔ پانی کا نصیب پہاڑ سے اُترنا اور
سمندر میں جا گرنا ہے۔ یعنی یہ قُدرتی عمل ہے جس کی راہ میں کسی ڈیم کی
دیوار حائل نہیں ہونی چاہیے! دُنیا والوں کو سمندر کیوں عطا ہوا ہے، ہمیں
معلوم نہیں۔ ہم تو اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے حصے کا سمندر شاید صرف
اِس لیے ہے کہ ہمارے دریاؤں کے پانی کو اپنے اندر سمولے! سمندر جیسی نعمت
کا بھی اِس سے اچھا ’’مصرف‘‘ ہم اب تک سوچ نہیں سکے۔ کوئی چاہے تو سمندر کو
ڈیم تصور کرکے خوش ہولے!
ایک مشہور فلمی گانے کا مُکھڑا آپ نے بھی سُنا ہوگا ع
پانی رے پانی! تیرا رنگ کیسا؟
ہم تو اب اِس پوزیشن میں بھی نہیں رہے کہ پانی سے اُس کا رنگ پوچھ ہی سکیں۔
پانی کہیں ٹھہرے اور ہاتھ آئے تو اُس سے کچھ بَتیائیں، پوچھیں کہ اِتنا کم
کم کیوں برستے ہو؟ مگر کیا پوچھیں؟ یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اگر اُس نے
کوئی سوال داغ دیا تو کہیں ہم شرم سے پانی پانی نہ ہوجائیں!
گئے زمانوں میں لوگ پانی کی قدر نہیں کرتے تھے۔ قُدرت کے اِس عظیم ترین اور
کوئی قیمت ادا کئے بغیر ملنے والے خزانے کو درخورِ اعتناء سمجھنے کا رواج
نہ تھا۔ یہ بات قُدرت کو پسند نہ آئی۔ اُس کے اصول سب کے لیے ہیں اور اٹل
ہیں۔ کوئی اگر قدر ناشناس ہو تو قُدرت بھی جوابی کارروائی میں دیر نہیں
لگاتی۔ قُدرت بھلا یہ بات کیسے برداشت کرلیتی کہ اُس کی طرف سے انتہائی
وافر مقدار میں عطا کئے جانے والے پانی کو گھاس نہ ڈالی جائے؟ قُدرت جب
انتقام لینے پر آتی ہے تو عجیب ہی ڈھنگ اختیار کرتی ہے۔ دُنیا کیوں نہ ہنسے؟
جس سرزمین پر دریاؤں کا ڈھیر لگا ہے اور بارشیں بھی خوب ہوتی ہیں وہیں پانی
کا بُحران ہے! یعنی گھر میں کنواں ہے اور لوگ پانی کی تلاش میں مارے مارے
پھرتے ہیں۔ پیاس بُجھانے جتنا پانی حاصل کرنے کے لیے بھی پِتّہ پانی کرنا
پڑتا ہے!
پاکستان کو بہت سے معاملات میں انفرادیت قائم کرنے کا موقع ملا ہے۔ بُنیادی
سہولتوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ پاکستان کا شمار اُن چند ممالک میں
کیا جاسکتا ہے جنہوں نے قُدرت کی طرف سے یکسر مُفت ملنے والی بُنیادی اشیاء
کو بھی مال تجارت میں بدل ڈالا ہے۔ ہمیں اندازہ نہیں کہ ڈھائی تین ماہ سے
وفاقی دارالحکومت میں کاہے کا غلغلہ بلند کیا جارہا ہے۔ عمران خان کون سا
نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کون سا انقلاب برپا
کرنے کے مُوڈ میں ہیں۔ یہ دونوں کام تو بہت پہلے ہی پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے
ہیں۔ بُنیادی سہولتوں کو تجارتی اشیاء و خدمات میں تبدیل کرکے ہم ’’انقلاب‘‘
کب کا برپا کرچکے ہیں۔ اور یہی ’’نیا پاکستان‘‘ ہے!
زندگی ہم سے ہر معاملے میں بھرپور سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ حد یہ ہے کہ
ڈھنگ سے اور تمام تقاضوں کو نبھاتے ہوئے ہنس بھی وہی سکتا ہے جو انتہائی
سنجیدہ ہو! دُنیا کا عجیب حال ہے۔ بہت سے بُنیادی سوالوں پر غور کرتے کرتے
دُنیا والے حواس سے بیگانہ ہوچلے ہیں۔ ہمارے بزرجمہروں نے غور کیا تو
اندازہ ہوا کہ یہ کیفیت اِس لیے وارد ہوئی کہ اہل جہاں بُنیادی سہولتوں کی
فراہمی کے جھنجھٹ سے نپٹ چکے ہیں۔ وہ فکر کی گہرائیوں میں اِس لیے جا گِرے
ہیں کہ اُن کی حکومتوں نے بہت سے انتہائی مُفید اور روزمرہ قسم کے جھنجھٹ
ختم کر ڈالے ہیں۔ ہماری حکومتوں کا احسان اور کمال یہ ہے کہ اُنہوں نے ہمیں
کائنات کے عمیق سوالوں کی نذر ہونے سے بچالیا ہے۔ حُکمرانوں کی مہربانی ہے
کہ ہمارا بیشتر وقت بُنیادی سہولتوں کا حصول یقینی بنانے پر صرف ہوتا ہے۔
انتظامی مشینری کا چمتکار یہ ہے کہ ہم یہ کام اب عبادت کے درجے میں رکھ کر
کرتے ہیں!
عملی زندگی میں تعلق خواہ کسی شعبے سے ہو اور کسی بھی منصب پر خدمات انجام
دی جارہی ہوں، اب گھر کے استعمال کے لیے پانی کا حصول ہر پاکستانی کے لیے
اولین فرضِ منصبی کا درجہ حاصل پاچکا ہے!
صبح آنکھ کھلتی ہے تو ذہن میں سب سے پہلے پانی کی گھنٹی بجتی ہے۔ رات بھر
جو خواب دیکھے تھے وہ پانی کے حُصول کی فکر میں بہہ جاتے ہیں! پہلے تو
علاقے کی دکانوں کا سروے کرکے فلٹر کیا ہوا یعنی پینے کا پانی لانا پڑتا
ہے۔ اِس کے بعد دیگر اُمور کی انجام دہی کے لیے درکار پانی کا بندوبست کرنا
پڑتا ہے۔ یہ ہے پانی کی خاصیت۔ جب لوگ متوجہ نہیں ہوتے تو یہ سب کی پوری
توجہ بہا لے جاتا ہے! ایک بار پانی سے بے اعتنائی برت کر دیکھیے، ایسی جگہ
لے جاکر مارے گا کہ دُور دُور پانی نہ ملے گا! بھرے بھرے بادلوں کو تکتے
تکتے آنکھوں کا پانی خشک ہوتا ہے تو ہوجائے، پانی برسنے کا نام نہ لے گا۔
ہم نے پانی کی ایسی اور اِتنی ناقدری کی ہے کہ اب بہت سے علاقے برسوں بارش
کو ترستے ہیں۔ اور مَنّتوں مُرادوں سے بارش ہوتی بھی ہے تو بہ قدرِ اشکِ
بلبل! اطہرؔ نفیس مرحوم نے ایسی ہی کیفیت کے لیے کہا تھا ع
دیکھیے میری پذیرائی کو اب آتا ہے کون
لمحہ بھر کو وقت کی دہلیر پر آیا ہوں میں
خواجہ حسن نظامی مرحوم نے ایک بار لکھا تھا کہ جب اوس پڑتی ہے تو ہاتھی
بھیگ جاتا ہے مگر چڑیا کی پیاس نہیں بُجھتی۔ پانی کی بات کیجیے تو اہل وطن
کا حال بھی چڑیا کا سا ہے۔ موسلا دھار بارش سے مُلک کے بیشتر حصے ہاتھی کی
طرح بھیگ جاتے ہیں مگر ہم اِنسان چڑیا کی طرح ہونٹوں پر زبان پھیرتے رہ
جاتے ہیں!
پانی کے معاملے میں جو حال پورے ملک کا ہے وہی کراچی کا بھی ہے۔ بہت سے
دیہی علاقوں میں لوگوں کو پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے میلوں سفر کرنا
پڑتا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں میلوں کی مسافت کو جیب ڈھیلی کرکے ختم کیا
جاتا ہے۔ پیاس بُجھانی ہے تو متعلقہ مشینری کی طمع کے الاؤ پر پانی ڈالیے!
کراچی میں جو لوگ پانی کے نظم و نسق پر مامور ہیں اُن کی آنکھوں کا پانی
ایسا مرا ہے کہ زندہ ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کچھ بھی کہیے، کچھ اثر نہیں
ہوتا۔ پتھر کو بھی اگر لعنت ملامت کیجیے تو شاید شرم سے پانی پانی ہوجائے
مگر ’’اربابِ آب‘‘ کی ’’ہمت‘‘ کو سلام ہے کہ اُن کی پیشانی پر ندامت کا ایک
قطرہ نمودار نہیں ہوتا! یہ ایسی ’’اولو العزمی‘‘ ہے کہ اگر سرحد پر ہمارا
دُشمن دیکھ لے تو شرمسار اور خوفزدہ ہوکر دُم دباتے ہوئے بھاگ نکلے! |
|