پاکستان اب وہ پہلے والا نہیں
رہا
وزیر اعظم پاکستان نے گزشتہ دنوں کہا کہـ پاکستان اب پہلے والا نہیں رہا
بدل گیا ہے۔ نا معلوم انھوں نے یہ اپنے سفارتی دوروں میں کامیابی کی بنیاد
پر ، اپنی ایک چوتھائی مدت کی کارکردگی کی بنیاد پر پیغام دینا اور تاثر
تبدیل کرنے کی خا طر یا اپنے سیاسی حریفین کے ایسے سوالوں کے جواب میں کہا
ہو کہ ہمارا مقصد بھی وہی تبدیلی ہی ہے جو آپ چاہتے ہیں آیئے مل کر کام
کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ مقصد کچھ بھی ہو یقینا اس کے اثرات مثبت ہونگے
بشرطیکہ ہم مخلص ہوں اپنے مقاصد کے ساتھ تو ۔ اب ہم موجودہ اندرونی اور
بیرونی حالات کا جائزہ لیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ حالات پہلے سے سازگار
ہیں اور ان میں سے بہت سارے ان کی پالیسوں کی وجہ سے ہیں جیسے کہ دہشت گردی
کے خلاف اپریشن اور دوسرے ترقیاتی پروگرام اور اسی طرح سے سیاسی دباؤ میں
مضبوط اعصابی اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا اور اسی طرح دوسری اپوزیشن
سیاسی جماعتوں کا جمھوری رویہ بھی یقیناقابل تحسین ہے جس کو عالمی سطح
پربھی پزیرائی ملی ہے اور ان کا اشارہ اس طرف بھی یقینا ہوگا۔عالمی میڈیا
نے بھی پاکستان کے متعلق حالات کے متعلق تبصرہ کرتے ہے کہا ہے کہ پاکستان
اب پہلے والا نہیں رہا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی پاکستان کے بد عنوانی کے
گراف میں کافی بہتری کی نوید سنائی ہے۔ اور کچھ عالمی تبدیلیوں اور بہتریوں
کی وجہ سے بھی ان کو سازگار ماحول ملا مثلا عالمی سطح پر پاکستان میں
انوسٹمنٹ پر اعتماد اور دلچسپی جس کی دوسری وجوہات کے ساتھ ساتھ ان کی
پالیسیوں پر اعتماد بھی بہت بڑی وجہ ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں عالمی سطح پر
کمی بھی شامل ہے۔ اور اگر عالمی سطح پر ساز گار ماحول ملا ہے تو اس کا
فائدہ اٹھانے میں بھی یقینا انکی زیرک بینی اور محنت کو نظر انداز نہیں کیا
جاسکتا۔ اگر چہ یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھا بزنس مین یا اچھا کھلاڑی اچھا
سیاستدان بھی ہو مگر پھر بھی ان کی کامیابیوں کے پیچھے ان کی محنت اور
صلاحیتوں سے انکاربھی تو نہیں کیا جاسکتا۔
بہرحال حالات کی سازگاری اپنی جگہ مگر اس سے بھی نظر نہیں چرائی جاسکتی کہ
ڈی چوک والوں کی کوششوں کے اثرات بھی شامل ہونگے ۔ یو ں ہی لے لیجیے۔ یہ تو
چلتی ہے تجھے اور اونچا اڑانے کے لیے۔ اور یہ ہوائیں ابھی رکی نہیں ہیں اور
آپ کی اڑان میں اور مددگار بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔وہاں پر اب ڈی پلان بھی
سوچاجا رہا ہے اور آپ کو بھی بدلتے پاکستان کی خوش فہمی اور گھمنڈ میں نہیں
رہنا چاہیے بلکہ انصاف کے تقاضے بھی پورے ہونے چاہیں اور اس ضمن میں جو
اقدامات اگر شروع کیے گئے ہیں تو عمل کو جلد ممکن بنائیں یا جو شروع نہیں
ہوئے ان کو بھی شروع ہونا چاہیے۔ ابھی سوالیہ نشانات بھی کافی باقی ہیں اور
اگر آپ ان کے جوابات بھی دے دیں تو مخالفین کی صفوں میں بھی معترف مل سکتے
ہیں۔ فرگوسن اور نیویارک کے واقعات آپ کے سامنے ہیں کیا ماڈل ٹاؤن کے
انسانی المیے کی حقیقت سامنے نہیں آنی چاہیے؟۔ انصاف سے کوئی بھی بالا تر
نہیں ہوتا اور اگر سمجھنا شروع کر دیا جائے اور اپنے آپ کو زیادہ محفوظ
سمجھنا شروع کر دیا جائے تو یہ تو ماضی کو بھول جانے کے مترادف ہوگا۔
نابینوں پر لاٹھیاں برسانا کہاں تبدیلی کا مظہر ہو سکتا ہے۔ ہمارے رویے تو
اپنی جگہ مگر انصاف اگر ہو تو اس کے ثمر بھی تو نظر آجاتے ہیں۔
اگر ان کے اس جملے کو ان کے مستقبل کا خواب بھی کہا جائے تو بھی بہت اہمیت
کا حامل ہے چونکہ الفاظ اور اعمال ہمیشہ ذہنی کیفیت اور ذہنی کیفیت کے عکاس
ہوتے ہیں۔ اگر ان کا خواب بھی اعلی ہو اور ساتھ ساتھ تبدیلی کے نشانات بھی
ہوں تو یقینا وہ اپنے منشور اور ترقیاتی وعدوں پر مخلص نظر آتے ہیں اور
ایسے حالات میں چاہیے کہ سیاسی مخالفین جن کو ان کی پالیسیوں سے اختلاف ہے
وہ بھی ان کو سازگار ماحول میں مدد دیں تاکہ وہ اور زیادہ توجہ اور محنت سے
کام کریں۔ خواب کا دیکھنا بھی ان صلاحیتوں میں سے ہے جو ہر کامیاب آدمی میں
پائی جاتی ہیں مگر فرق یہ ہے کہ خواب تو تمام لوگ ہی دیکھتے ہیں مگر جو
اپنے خوابوں کے بناے ہوے محل کے نیچے مضبوط بنیادیں بنا لیتے ہیں وہ کامیاب
کہلاتے ہیں اور جو اپنے خواب کو محض ہوا میں ہی معلق رکھتے ہیں اور اپنے
عمل اور ارادوں کو عملی جامہ نہیں پہنچاتے ان کے خواب خواب ہی رہ جاتے ہیں۔
اور جو جو لوگ ان کے عوامل اور ارادوں میں حوصلہ افزائی اور مدد کرتے ہیں
ان کا یہ مثبت عمل بھی قابل تحسین ہوتا ہے اور آنے والے وقت میں کریڈٹ ان
کو بھی ضرور ملتا ہے۔ اگر پھل اور پھول لگیں تو ان سے استفادہ تو ہر کوئی
ہوتاہے بات ہے سوچنے اور سمجھنے کی۔ اچھی خبریں تو ویسے بھی سب کو اچھی
لگتی ہیں مگر سوالیہ نشان کو فضول سمجھنے کی پاکستانی روایات تو پرانی ہیں۔
چودھری نثار نے کہا نواز شریف حکومت کرنے نہیں کاربار کرنے آئے ہیں۔پرویز
خٹک۔
کیا بات ہے۔ پرویز خٹک صاحب نے آخر چار مہینوں کے بعد سنسنی خیزراز کی
باتیں اگلنا شروع کر دیں۔ اب پتا نہیں وہ اس سے چودھری نثار کے ساتھ اپنے
تعلقات ثابت کرنا چاہتے ہیں یا خرابی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ آگے جاکر
یہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے کہا تھا کہ دھرنا دیں تاکہ حکومت پریشر میں
رہے لیکن پریشر کا مطلب حکومت گرانا تو نہیں لیا جاسکتا اور آپ بھی ماشاء
اﷲ کتنے منجھے ہو ئے او ر فیڈریشن کے لیے جزبہ خلوص رکھنے والے سیاستدان
ہیں کہ آپ نے حکم کے بجا لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ ٖضرورت سے بھی
بڑھ کر عمل کر ڈالا۔ یا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ چوہدری نثار کا مسلم
لیگ کے ساتھ جزبہ وفاداری میں شک کر رہے ہوں۔ بہرحال اس کی صحیح تشریح یا
وضاحت تو وہ خود ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن یہاں تک بزنس کی بات ہے تو ماڈرن
ڈیفینیشن کے مطابق غیر منافعانہ (Non Profit business)کاروبار بھی تو کیا
جاسکتا ہے اور اگر آپ کا مقصد منافع بخش بزنس ہے تو آپ ہی بہتر وضاحت کر
سکتے ہیں ویسے کروڑوں روپیہ لگا کر الیکشن لڑنا اور پھر اپنے اساسے بھی
صحیح ظاہر نہ کرنا یہ سب واقعی اگر سیاستدان جزبہ خدمت سے کرتے ہوتے تو
پاکستان کا یہی حال ہوتا اور اگر اتنا خرچا کرکے بزنس نہ بھی کرنا ہو تو اس
سارے خرچے کا ریٹرن تو ان کا حق بنتا ہی ہے۔ ویسے بھی شاید پرویز خٹک ہی
ایک ایسے سیاستدان ہوں جن کو یہ پتا نہ ہو کہ پاکستانی سیاستدان کون سا
بزنس زیادہ کرنا پسند کرتے ہیں غیر منافع(Non Profit business) یا منافع
بخش(Profitable (business)۔ویسے خان صاحب آپ پہلے پٹھان دیکھے ہیں جو اپنے
رازداں دوستوں کے راز فاش کر رہے ہیں کیونکہ انھوں نے تو شروع میں ہی واضح
کر دیا تھا کہ ان کو دوستی بھی نبھانی ہے اور فرائض بھی یا یہ بتانا چاہتے
ہیں کہ اگست کے بعد کوئی رابطہ نہ ہے اور اب وہ پہلے والی دوستی نہیں رہی
یا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ اسے کوئی راز کی بات تو نہ سمجھتے ہوں مگر
پہلے بتانا بھول گئے ہیں۔ شاید یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ جاوید ہاشمی
والے انکشافات کے بعد یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ ایسی بات نہیں ہے کہ ہمارے
ساتھ ہی ہاتھ ہو گیا ہے بلکہ آپ کی صفوں میں ایسے لوگ بھی ہیں ۔ جو بھی ہے
دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔ خیر یہ سب اندازے ہی ہیں اصل وضاحت تو خان صاحب
خود ہی کر سکتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر دھرنا ختم ہوگیا تو میرا وقت کیسے گزرے گا۔ عمران خان
ہو سکتا ہے خان صاحب نے ازراہ مذاق ہی کہا ہو اور غالبا ہوگا بھی ایسے ہی
مگر کہتے ہیں کہ مذاق میں بھی ففٹی ففٹی تو سچ ہوتا ہے اور اگر پورا سچ ہو
تو وہ خان صاحب خود ہی اچھی وضاحت کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر انھوں نے سنجیدگی
سے کہا ہے تو پھر معاملہ واقعی تشویشناک ہے کہ ایک اتنی بڑی سیاسی جماعت کا
لیڈر اپنے آپ کو اتنا فارغ سمجھتا ہے ۔ ایک نیا پاکستان بنانے جارہے ہیں
اور ان کے پاس وقت اتنا ہے کہ وہ اس کے صرف کے متعلق پریشان ہیں کہ کیسے
گزاریں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ نیا پاکستان بنانا کوئی اتنا بڑا اور مشکل کام
ہی نہ سمجھتے ہوں یا ہو سکتا ہے کہ بغیر سوز اور ترنم کے ان کی تخلیقی
صلاحیتیں اچھے طریقے سے کام ہی نہ کرتی ہوں ۔ خیر اگر ان کے حواس اتنے ہی
عادی ہو چکے ہوں تو یہ سب کچھ تو تنہائی میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے وہ
جب سوچ و بچار کرکر کے تھک جاتے ہوں تو انٹرٹینمنٹ کے لیے دھرنوں اور
جلوسوں میں جاتے ہوں یا ان جلسوں اور جلوسوں کے اتنے اڈکٹ ہو چکے ہیں کہ
عادت پوری کرنے آتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے اتنابڑا بیڑا اٹھایا ہوا ہو وہ
تو ہر وقت فکر مند رہتے ہیں۔ دنیا کے باقی ملکوں کے قائد تو پڑھنے اور
سوچنے کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ سٹڈی کے لیے ٹائم نکالنا ان کے لیے انتہائی
اہم ہوتا ہے اور عوام بھی اپنے قائدین کا اتنے غور سے جائزہ لیتے ہیں کہ آج
کل وہ کس رائٹر کو پڑھ رہے ہیں اور ان کی سوچوں پر کس کی تحریروں کا اثر
ہے۔ خیر ہو سکتا ہے کہ وہ دھرنے کے مجمع کو پڑھتے ہوں کہ ان کی خواہشات کیا
ہیں ۔ یہ تو خیر جمھوریت کی اصل روح ہے کہ عوام کیا چاہتی ہے۔ مگر عوام تو
وہ بھی ہے جو دھرنوں میں نہیں آتی یا جنھوں نے دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیے
ہیں ۔ ہو سکتا ہے اس عوام کو وہ سمجھدار اور اس قابل نہ سمجھتے ہوں اور اسی
لیے وہ ان کے مینڈٹ کا احترام بھی نہیں کرتے ورنہ اپنے پارلیمنٹیرین کو بھی
کہتے کہ تم پارلیمنٹ کے اندر جا کر اپنی ذمہ داریا ں سنبھالو اور میں دھرنا
کے شرکاء کے ساتھ باہر بیٹھ کر پریشر ڈویلپ کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ
اگر وہ اس طرح کرتے تو آج تک مسئلہ بھی حل ہو چکا ہوتا اور ان کی مقبولیت
کے لیے انکو سیاست گردی کا سہارا بھی نہ لینا پڑتا۔ خیر صیحیح وضاحت تو وہ
خود ہی کر سکتے ہیں۔
یہ تو سب خدشات ، غالب گماں یا سچ کی تلاش تھی آئیے تھوڑی سی سنجیدگی سے
بھی بات کرتے ہیں۔ جب بہت زیادہ پزیرائی ملتی ہے اور آدمی اپنے آپ کو
بلندیوں پر دیکھنے لگتا ہے تو بعض دفعہ حقیقتں اوجھل ہو جاتی ہیں یا آدمی
ان سے نظر چرا لیتا ہے۔ یا بعض دفعہ ارد گرد موجود محبت کرنے والوں کے ہجو
م کی فرط محبت میں اتتے محو ہو جاتے ہیں یا خوشامدی اتنے ہو جاتے ہیں کہ
صحیح سمتوں سے توجہ ہٹ جاتی ہے انکو تو محسوس نہیں ہوتا مگر دوسروں کو ایسے
لگتا ہے کہ اپنے مطالبات اور مقاصد سے ہٹ گئے ہیں یا مخلص نہیں ہیں۔ کبھی
کبھی حقیقت بھی کھل جاتی ہے جیسے حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ اختیارات اور مال و
دولت اور اقتدار ملنے سے آدم بدل نہیں جاتا بلکہ اس کی حقیقت کھل جاتی ہے۔
اگر آپ کو نا گوار نہ گزرے تو چند سوالیہ نشانات ایسے ہیں جن کا جواب ملنا
باقی ہے یا انہیں مخلصانہ تجویزیں ہی سمجھیں تو یہ آپ کو اور بلندی پر جانے
میں ممدو معاون ہوگا۔ مقبولیت صرف اپنے مداحوں میں ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ
وہ لوگ جو غیر جانبدار اور مخالف ہوں ان کے دلوں میں بھی گھر کرنے کا نام
ہی اصل مقبولیت ہوتا ہے۔ حقیقت تو ایک خوشبو کی طرح ہوتی ہے جو ہر کوئی
محسوس کر لیتا ہے ۔ اگر سب سیاستدانوں کا حقیقی مقصد عوامی خدمت اور
پاکستان کو بدلنا ہی ہے تو پھر جنگ چھوڑیں اور مل جل کر اپنے مشن کو لے کر
آگے چلتے ہیں ۔ آئیے عہد کریں کہ اپنے رویوں کو ٹھیک کرنا ہے۔ جب رویے ٹھیک
نہیں رہتے تو سیاست ، سیاست نہیں رہتی بلکہ سیاست گردی بن جاتی ہے ، صحافت
، صحافت نہیں رہتی بلکہ صحافت گردی بن جاتی ہے اور اپنی اہمیت کھو جاتی
ہیں۔ |