بیگم نسیم ولی خان، الطاف حسین اور عوام

کراچی میں محترمہ بیگم نسیم ولی خان ، متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو تشریف لائیں ، ان کے ہمراہ دیگر رہنما بھی تھے۔اس حوالے سے کچھ لکھنے سے بیشتر تیز سال قبل کی ذاتی یادداشت دوہرانا ضروری سمجھتا ہوں 2011ء کا سال کراچی میں بے گناہ انسانوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہلاکتوں کا بڑا بھیانک دور گذرا ہے۔ایسے یاد کرکے آج بھی جسم میں کرنٹ دوڑ جاتا ہے اور دماغ ماؤف ہوجاتا ہے ، گیارہ اگست 2011کا قیامت کا دن کبھی بھلائے نہیں بھول سکتا کہ ہر ایک منٹ بعد بے گناہ پختون کی شہادت کی خبر آتی جس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق بھی نہیں ہوتا تھا ، ریڑی والا ہو ، موچی ہو ، ٹیکسی والا ہو ، گولہ گنڈے فروخت کرنے ولا ہو یا پھر محنت کش ، ناظم آباد کے پل کے نیچے سونے والے باجوڑی ہوں یا بسوں میں اغوا کرکے بے گناہ پختونوں کو جس بے دردری سے شہید کیا جارہا تھا اور حکومت اس قدر بے حس ہوچکی تھی کہ سوائے رونے کے اور کچھ نہیں کرسکتا تھا ۔ کرائم رپورٹر گواہ ہیں کہ وہ رو پڑتے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ، ان کا کیا قصور ہے ؟۔ کراچی کی سڑکیں خون سے لبریز ہوچکی تھیں اور کوئی ان دہشت گردوں کو روکنے والا نہیں تھا ۔آج تک ایک بھی قاتل نہیں پکڑا گیا۔2012ء میں ولی باغ میں بیگم نسیم ولی خان جیسے ہم سب مور بی بی کہتے ہیں ، میں نے ان سے خیریت کے بعد ایک درخواست کی کہ مورر بی بی ، ولی بابا کراچی آئے اور الطاف حسین سے اس وقت ہاتھ ملایا جب کوئی بھی ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا ، ان کی آمد کے بعد سالوں سال کراچی میں امن رہا اور قومیتوں کے درمیان غلط فہمیوں کو ختم کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا ، مور بی بی آپ کراچی آجائیں ، پختونوں کے جنازوں پر دعا کے لئے بھی کوئی نام نہاد رہنما جانے کو تیار نہیں ، مور بی بی رو پڑی کہ بیٹا ، میں یرغمال ہوں ، مجھے کسی سے ملنے نہیں دیا جاتا ، میری جسمانی حالت ایسی ہے کہ میں طویل سفر بھی نہیں کرسکتی ،مجھے ان کی رندھی آواز آج بھی اپنے کانوں میں گونجتی نظر آتی ہے ، پھر میں نے دوسری جماعت کو تحریری طور پر ایک پرپوزل دیکر ولی خان باغ میں ان سے ملاقات کیلئے کہا تو انھوں نے اس پرپوزل کو پھاڑ دیا کہ ہم اس وقت تیار نہیں ،" فلاں شخص" ناراض ہوجائے گا اور بڑی مشکلات پیدا ہوجائیں گی ، پھر مجھے سخت تنبہہ کی آپ ان معاملات سے دور رہیں۔میں کسی کشیدگی سے بچنے کیلئے ان شخصیات کا نام نہیں لے رہا لیکن سمجھ دار کے لئے اشارہ کافی ہے۔ان کے پاس بیگم نسیم ولی خان مور بیبی کا فون نمبر بھی نہیں تھا ، موبائل فون کی مور بی بی کو جازت نہیں تھی ان کے ولی باغ کا نمبر میں نے انھیں فراہم کیا کہ ایک مرتبہ بات تو کرلیں ، لیکن مجھے جواب دیا گیا کہ اگر میڈیا میں یہ بات آگئی تو کون ذمے داری قبول کرے گا ۔ مور بی بی نے مجھے دعائیں دیں کہ کسی نے تو انھیں یاد کیا ، پھر انکے خاندانی معاملات ہوں یا کچھ اور ، اس سے مجھے غرض نہیں ہے کیونکہ میرا بنیادی مقصد کراچی میں امن اور غلط فہیموں کا خاتمہ کرانا مقصود تھا۔انتقامی سیاست اور عمل ردعمل کی اس سیاست میں صرف بے گناہ انسان شہید ہو رہے تھے ۔ ایم کیو ایم اور اتے این پی کی اعلی قیادت مل بیٹھتی لیکن نیچے کارکنان تک ان کا امن پیغام نہیں پہنچ رہا تھا معمولی سا واقعہ بھی کراچی میں آگ لگا دیتا ، کٹی پہاڑی میں چار دن تک جنگ چلتی رہی لیکن حکومت خاموش رہی ، اس دوران میں بھی تین مرتبہ فائرنگ کی زد میں بال بال بچا ، میرے ساتھ ایکسپریس کے موجودہ بیورو چیف اسلم خان بھی تھے جب ایل ایم جی سے ہم پر فائرنگ ہوئی ، پھر ایک مرتبہ جیو نیوز کے ظل حیدر ساتھ تھے کہ فون آنے پر سر نیچے کرنے کی وجہ اسپینر سے چلائی جانے والی گولیوں سے جا بچی لیکن ایک معصوم بچی گولی لگنے سے شہید ہوگئی۔مور بی بی ، نائن زیرو آئیں اس پر اپنا تبصرہ دینے کے بجائے میں نے اس بار سوشل میڈیا میں مختلف جماعتوں اور شخصیات کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ آپ اس ملاقات کو کیا سمجھتے ہیں ، جذباتی اور مدلل جوابات کی بڑی تعداد میں تبصرے ملے ۔ مور بی بی سے ملاقات نہیں کرسکا کیونکہ میرا دل ٹوٹا ہوا تھا کہ اگر وہ دو سال قبل آجاتیں تو شاید ہزاروں بے گناہ قتل ہونے سے بچ جاتے ، لیکن ان کا احترام سر آنکھوں پر ، ان کی عزت دل میں ہے ، لیکن میں تھوڑا سا نہیں بہت جذباتی واقع ہوا ہوں اس لئے میں اے این پی کی دھڑے بازی سے دور رہنے اور مزید کوئی غلط فہمیاں پیدا ہونے سے خود کو بچانے کے لئے ملاقات سے اعتراض برتا، پختون تھنکرز فورم کے چیئرمین قاسم جان سے رابطہ کرکے تصدیق کی کہ کیا مور بی بی ، اپنی جماعت سندھ میں منظم کرنے کے لئے تنظیم سازسی کر رہی ہیں تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی۔اسی سلسلے میں مور بی بی نے کراچی سندھ بار کونسل اور قومی عوامی تحریک کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کیں جس کی تفصیلات اخبارات میں آچکی ہے۔ میں کچھ تبصرے اپنے اس کالم میں دینا چاہوں گا کہ عوام مور بی بی کی نائن زیرو آمد اور الطاف حسین سے فون پر گفتگو پر کیا رائے رکھتی ہے۔ کسی کا ان تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔بس رائے عامہ اور عوام کی دل کی آواز ہے۔تصدیق کرنے کیلئے میرے فیس بک کی وال پر تمام تبصرے موجود ہیں۔میرے سوال پر جتنے تبصرے ملے ان کا جواب میں نے نہیں خود احباب نے ہی دئیے۔طاہر خٹک مجھے کہتے ہیں کہ" الطاف حسین کتنی بار بار باچا خان مرکز پشاور گئے ہیں ، تمھیں کیا لگتا ہے کہ اگر ہمیں کراچی میں رہنا ہے تو ایم کیو ایم کے غلام بن کر رہیں ".سان بنگش کہتے ہیں کہ ــ"مور بی بی کو جانے کی کیا ضرورت تھی ، میں ان کے نائن زیرو جانے پر shockedہوں ۔"شیر آفریدی کہتے ہیں کہ سیاسی قائدین کے درمیان رابطے بالکل ہونے چاہیں جو آپس کے مسائل اور خلش کے تدارک اور اس کے حل کیلئے بہتر قدم ہے۔"عبد الواحد لکھتے ہیں کہ یہ ایک بہت ہی احسن قدم ہے اور میں ایسے درست سمجھتا ہوں۔"عبد اﷲ شاہ بغدادی کہتے ہیں کہ مور بی بی نے ایک اچھا قدم اٹھاکر بہادر سیاست دان ہونے کا ثبوت دیا۔"جمیل احمد کہتے ہیں کہ 90جانا اچھا عمل ہے۔دوست محمد کہتے ہیں کہ’ ایشوز ہمیشہ بات چیت سے ختم ہونگے تصادم کسی مسئلے کا حل نہیں‘۔وحید خان آفریدی کہتے ہیں’ نائن زیرو جانا مور بی بی کی نظر میں ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن یہ انھوں نے ٹھیک نہیں کیا"امجد آفریدی کہتے ہیں کہ’ یہ ان لوگوں کی چال ہے جن سے اس دن ایم کیو ایم کا وفد جو اسلام آباد کے پی ہاوس میں ملا تھا اے این پی والوں کے ساتھ ان سے برداشت نہیں ہورہا ‘۔اسیر دوست کہتے ہیں کہ’ مور بی بی کو پختونوں کا بہت عرصے بعد خیال آیا اس وقت مور بی بی کہاں تھی جب کراچی میں پختونوں کا قتل ہو رہا تھا۔"عطااﷲ یوسف زئی ، ’اسفندیار ہمارا لیڈر ہے‘۔حاجی قیسر باوانی ، مہاجر پختون بھائی بھائی کا نعرہ لگاتے ہیں۔احسان اﷲ خان ، مور بی بی کے جانے سے اے این پی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔زین العابدین سوال کرتے ہیں ’کہ ایم کیو ایم والے پشاور باچا خان مرکز کیوں نہیں جاتے۔"ذکریا خان مسعود کہتے ہیں کہ’ مہاجر اور پختون کے تعلقات ہونے چاہیے تاکہ پختون مہاجر فسادات کی نوبت نہ آئے۔ظفر خان خٹک کہتے ہیں کہـ’ اگر پختون مہاجر کے درمیان غلط فہیماں دور کرنے گئی ہیں تو اچھی بات ہے۔ضیا الرحمن لکھتے ہیں کہـ جب ایم کیو ایم کے لیڈر اے این پی لیڈرز کے بچوں کی شادیوں میں مل سکتے ہیں تو مور بی بی کے نائن زیرو جانے میں کیا ہرج ہے دونوں جماعتوں کو ایک دورے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہوگا۔یہ سیاسی عمل ہے‘۔ نسیم افغان کہتے ہیں کہ کراچی کی بد امنی کا سبب مینڈیٹ سے نہیں بلکہ وسائل کی جنگ ہے ڈرگ مافیا ،لینڈ مافیا ، اور دیگر مافیا اپنے حساب سے ماحول خراب اور ہدف بناتے ہیں’۔جمال یوسف زئی کہتے ہیں کہ’ شاہی سید اور یونس خان بونیری امن کی بات کرتے ہیں ہمیشہ شاہی سید سید اور یونس بونیری کراچی میں پختون کا نمائندہ رہے گا‘۔احمد احمدے کہتے ہیں کہ اے این پی نے ایم کیو ایم کو قبر میں ڈال دیا تھا لیکن بی بی ان سے مٹی ہٹاکر ان کو زندہ کر نے کی کوشش کر رہی ہے۔بہت بڑی تعداد ہے جنھوں نے تبصرے کئے ان سب کو نقل کرنا ممکن نہیں لیکن ایک بات قابل توجہ ضرور ہے کہ مہاجر طبقے نے بہت کم تبصرے کئے ورنہ ان کو بھی من و عن نقل کرتا اور اپنی رائے دینے سے گریز کیا جو میرے لئے حیرانی کی بات ہے ، مثبت رویوں سے ہی پر امن ماحول اورغلط فہیمیاں دور ہونگی www.facebook.com/qadir.afghanیہ میری سوشل ویب سائٹ ہے مزید ریمارکس اس پر دیں اور جو رہ گئے ہیں انھیں پڑھیں کیونکہ مثبت رائے عامہ اچھا عمل ثابت ہوگا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744686 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.