سرور کائنات ،خاتم الرسل،سید
الاولین و الآخرین صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ،قرآن مجید میں
فرمایا گیا ہے
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ
اے محمد رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم)!
ہم نے آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر بھیجاہے۔“
یہ قرآنی اعلان جو محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے متعلق کیا گیا ہے
بے نظیر و بے مثال ہے۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سیّد ابو الحسن علی حسنی ندوی ”رحمت“ کی تشریح کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
”رحمت“کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ کسی جاں بلب مریض کی جان بچالی جائے،ایک
بچہ دم توڑرہا ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عنقریب آخری ہچکی لے گا ،ماں رورہی
ہے کہ میرا لال دنیا سے رخصت ہورہا ہے،اس سے کچھ نہیں ہو سکتا ،کہ اچانک
ایک طبیب حاذق فرشتہ رحمت بن کر پہنچتا ہے اور کہتا ہے:گھبرانے کی کوئی بات
نہیں،وہ دوا کا ایک قطرہ بچہ کے حلق میں ٹپکاتا ہے،وہ آنکھیں کھول دیتا
ہے،سب اس کو خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ کہیں گے اور دوسری ساری رحمتیں اس
”رحمت“کے سامنے مات ہو جائیں گی۔
”رحمت “کا آخری مظہر یہ ہے کہ پوری انسانیت کو ہلاکت سے بچایا
جائے،پھرہلاکت اورخطرہ خطرہ میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے،ایک عارضی ہلاکت
اور تھوڑی دیر کا خطرہ ہے،ایک ابدی ہلاکت اور دائمی خطرہ ہے، خدا کے
پیغمبرانسانوں کے ساتھ ”رحمت“ کا جو معاملہ کرتے ہیں،وہ دوسری رحمتوں پر
قیاس نہیں کیا جاسکتا۔“
چھٹی صدی مسیحی میں پوری نوع انسانی خود کشی پر آمادہ و کمر بستہ تھی،جیسے
خود کشی کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے،ساری دنیا میں خود کشی کی تیاری ہو رہی
ہے، اللہ تعالی ٰنے قرآن شریف میں اس منظر اور صورت حال کی جو تصویر کھینچی
ہے،اس سے بہتر کوئی بڑے سے بڑا مصور،ادیب و مورخ تصویر نہیں کھینچ سکتا،وہ
فرماتا ہے
وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْکُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ
بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ
عَلَیَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا )
دورِجاہلیت، جس میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی،مسئلہ
کسی ایک قوم کے بگاڑ کایا چند متعینہ بُرائیوں کا نہیں تھا ،مسئلہ یہ تھا
کہ عرب کے کچھ سنگ دل اور قسی القلب لوگ اپنی معصوم بچیوں کو جھوٹی شرم اور
ننگ و عار سے بچنے کے لیے ایک خود ساختہ تخیل اور ایک ظالمانہ روایت کی بنا
پر اپنے ہاتھوں زمین میں زندہ دفن کردینا چاہتے تھے،
اس وقت کی صورت حال کی تمثیل حضورِاکرم ا نے اس طرح فرمائی ہے:
”میری اس د عوت وہدایت کی مثال جس کے ساتھ مجھے دنیا میں بھیجا گیا ہے،ایسی
ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی ،جب اس کی روشنی گردو پیش میں پھیلی تو وہ
پروانے اور کیڑے جو آگ پر گرا کرتے ہیں ،ہر طرف سے امنڈ کر اس میں کودنے
لگے ،اسی طرح سے تم آگ میں گرنا اور کودنا چاہتے ہو اور میں تمہاری کمر پکڑ
پکڑ کر تم کو اس سے بچاتا اور علیحدہ کرتا ہوں۔“ (صحیح بخاری،مشکوٰة:28/1)
جا ہلیت میں تمدن صرف بگڑا ہی نہیں تھا ،متعفن ہو گیا تھا ،اس میں کیڑے
پڑگئے تھے،انسان نوع انسانی کا شکاری بن گیا تھا، اس کو کسی انسان کی جان
کنی ،کسی زخمی کی تڑپ اور کسی مصیبت زدہ کی کراہ میں وہ مزا آنے لگا تھا جو
جام وسُبُو میں اور دنیاکے لذیذ سے لذیذ کھانے اور خوش نما منظر میں نہیں
آتا تھا۔یو رپین مورخین لکھتے ہیں:
”اہل روما کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ،فرحت افزا اور مست کردینے والا نظارہ
وہ ہوتا تھا جب باہم شمشیر زنی یا خوں خوار جانوروں کی لڑائی میں ہزیمت
خوردہ اور مجروح جان کنی کی تکلیف میں مبتلا ہوتا اور موت کے کرب میں آخری
ہچکی لیتا ،اس وقت روما کے خوش باش اور زندہ دل تماشائی اس خوش کن منظر کو
دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑتے اور پولیس کو بھی ان کو کنٹرول میں
رکھنا ممکن نہ ہوتا۔“(ملاحظہ ہو کتاب”تاریخ اخلاق یورپ“)
اس حالت میں جب کہ پوری انسانیت جاں بلب تھی،خدا نے محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ،ارشاد ہوا
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد دنیا کی رت بدل گئی،انسانوں کے مزاج
بدل گئے ،دلوں میں خدا کی محبت کا شعلہ بھڑکا،خدا طلبی کا ذوق عام
ہوا،انسانوں کو ایک نئی دھن (خدا کو راضی کرنے اور خدا کی مخلوق کو خدا سے
ملانے اور اس کو نفع پہنچانے کی)لگ گئی،جس طرح بہار یا برسات کے موسم میں
زمین میں روئیدگی،سوکھی ٹہنیوں اور پتیوں میں شادابی اور ہریالی پیداہو
جاتی ہے،نئی نئی کونپلیں نکلنے لگتی ہیں اور درودیوار پر سبزہ اگنے لگتا
ہے،اسی طرح بعثت محمدی کے بعد قلوب میں نئی حرارت ،دماغوں میں نیا جذبہ اور
سروں میں نیا سودا سما گیا،کروڑوں انسان اپنی حقیقی منزل کی تلاش اور اس پر
پہنچنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ،ہر ملک اور قومیں، طبیعتوں میں یہی نشہ اور
ہر طبقے میں میدان میں، ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا یہی جذبہ موج زن نظر
آتا ہے،عرب و عجم،مصر و شام ،ترکستان اور ایران ،عراق وخراسان،شمالی افریقا
اور اسپین اور بالآخر ہمارا ملک ہندوستان اور جزائر شرق الہند سب اسی
صہبائے محبت کے متوالے اور اسی مقصد کے دیوانے نظر آتے ہیں ،ایسا معلوم
ہوتا ہے کہ جیسے انسانیت صدیوں کی نیند سوتے سوتے بیدار ہوگئی،آپ تاریخ اور
تذکرہ کی کتابیں پڑھیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ خدا طلبی اور خدا شناسی کے
سوا کوئی کام ہی نہ تھا،شہر شہر ،قصبہ قصبہ ،گاوٴں گاوٴں،بڑی تعداد میں
ایسے خدامست ،عالی ہمت ،عارف کامل، داعئی حق اور خادم خلق،انسان دوست،ایثار
پیشہ انسان نظرآتے ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کریں،انہوں نے دلوں کی سرد
انگیٹھیاں سلگائیں عشق الٰہی کا شعلہ بھڑ کا دیا،علوم وفنون کے دریا بہا
دیے ،علم ومعرفت اور محبت کی جوت لگادی اور جہا لت و وحشت،ظلم و عداوت سے
نفرت پیدا کردی ،مساوات کا سبق پڑھایا ،دکھوں کے مارے اور سماج کے ستائے ہو
ئے انسانوں کو گلے لگایا،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بارش کے قطروں کی طرح ہر
چپہ زمین پر ان کا نزول ہوا اور اس کا شمار ناممکن ہے۔
آپ ان کی کثرت کے علاوہ ان کی کیفیت کو دیکھیے ،ان کی ذہنی پرواز، ان کی
روح کی لطافت اور ذکاوت اور ان کے ذوق سلیم کے واقعات پڑھیے،انسانوں کے لیے
کس طرح ان کادل روتا اور ان کے غم میں گھلتااور کس طرح ان کی روح سلگتی
تھی،انسانوں کو خطرہ میں ڈالتے اور اپنی اولاد اور متعلقین کو آزمائش میں
مبتلا کرتے تھے،ان کے حاکموں کو اپنی ذمہ داری کا کس قدر احساس اور محکوموں
میں اطاعت و تعاون کا کس قدر جذبہ تھا،ان کے ذوق عبادت ،ان کی قوت دعا،ان
کے زہدو فقر،جذبہٴ خدمت اور مکارم اخلاق کے واقعات پڑھیے،نفس کے ساتھ ان کا
انصاف ،اپنا احتساب ،کمزوروں پر شفقت،دوست پروری،دشمن نوازی اور ہمدردیٴ
خلائق کے نمونے دیکھیے،بعض اوقات شاعروں اور ادیبوں کی قوت متخیلہ بھی ان
بلندیوں تک نہیں پہنچی،جہاں وہ اپنے جسم وعمل کے ساتھ پہنچے ،اگر تاریخ کی
مستند اور متواتر شہادت نہ ہوتی تو یہ واقعات، قصے کہانیاں اور افسانے
معلوم ہوتے۔یہ انقلاب عظیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم
معجزہ اور آپ کی ”رحمتہ للعالمینی“کا کرشمہ ہے۔ |