ٹیپو سلطان٬ ایک غیرتمند حکمران اور چند حقائق

“ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“ شیرِ میسور ٹیپو سلطان کے یہ الفاظ آج بھی تمام دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہیں اور ٹیپو سلطان کی پوری زندگی انہیں الفاظ کا مجموعہ ہے- وہ ایک ایسا مسلمان حکمران تھا جس نے نہ صرف بہادری کے ساتھ انگریزوں کا مقابلہ کیا بلکہ انگریز فوج کو جنوبی ہندوستان کو پیچھے دھکیلنے میں کلیدی کردار ادا کیا- وہ ان چند حکمرانوں میں سے ایک تھا جس میں انگریز حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کا حوصلہ تھا-

انگریز ان کو ٹیپو صاحب کے نام سے یاد کرتے تھے- بلاشبہ ٹیپو سلطان نے غیر ملکی افواج کو پہلی اور دوسری اینگلو میسور جنگ میں نہ صرف شکست دی بلکہ مدراس اور مینگلور معاہدے میں اپنی شرائط بھی منوائی-
 

image


میسور کا عظیم حکمران ٹیپو سلطان:
حیدر علی کی وفات کے بعد میسور کے نئے حکمران کا تاج ٹیپو سلطان کے سر پر سجا- یہ وہ حکمران تھا جس نے اپنے والد کی قیادت میں پہلی اور دوسری (اینگلو میسور) جنگ لڑی- وہ یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ انگریز افواج سلطنتِ میسور کی آزادی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں- اس خدشے کے پیشِ نظر اس نے جنگی ساز و سامان کو جدید بنانے پر توجہ دی٬ خصوصاً میسورین راکٹ جو کہ اس کے والد نے انگریزوں کے خلاف استعمال کیا تھا اور اس میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی-

میسور کے مشہور راکٹ:
میسور کے راکٹ لوہے کے خول میں تلواروں سے لیس ہوا کرتے تھے- یہ راکٹ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے سے قبل کئی کلومیٹر تک ہوا میں رہ سکتے تھے اور دشمن پر تلواروں سمیت حملہ آور ہوتے تھے- یورپ میں بھی راکٹ موجود تھے لیکن میسور راکٹ اپنی تباہ کن اور دور تک مار کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے انتہائی مقبول تھے- حیدر علی کے میسور راکٹ بلاشبہ وہ جدید راکٹ تھا جو انگریزوں نے پہلے نہیں دیکھے تھے- ٹیپو سلطان نے “ فاتح المجاہدین “ کے نام سے ایک جنگی دستاویز تحریر کی جس میں راکٹ کی کارکردگی کے بارے میں تفصلات درج تھیں- اس کی بنیادی وجہ آئرن ٹیوبس تھیں جو کہ راکٹ کو مضبوطی سے پکڑنے کی صلاحیت رکھتی تھیں- ان راکٹ میں اتنی طاقت تھی کہ یہ دو کلومیٹر تک باآسانی نشانہ لگاسکتے تھے-
 

image

Congreve راکٹ کے مؤجد:
سنہ 1801 میں کئی میسور راکٹ کرنل ولیم Congreve نے رائل آرسنل لیب کو لنگسٹن تحقیق کے لیے بجھوائے- تقریباً 4 سال بعد سنہ 1805 میں رائل آرسنل لیب نے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی ترتیب دی ہوئی ٹیکنالوجی کی طرز پر پہلا Congreve راکٹ تیار کرلیا- ان Congreve راکٹ نے انگریز فوج کی 1812 کی جنگ اور Napoleonic جنگوں میں بے انتہا مدد کی تھی- اس وقت یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ سنہ 1814 میں ہونے والی بالٹی مور کی جنگ انہی راکٹ کی وجہ سے جیتی گئی تھی- لہٰذا Congreve راکٹ کی ٹیکنالوجی کے پیچھے کرنل ولیم کا کوئی کمال نہیں تھا٬ یہ اور کچھ نہیں بلکہ میسور راکٹ کی ہی ایک نئی شکل تھی جو کہ حیدر علی نے ایجاد کیے تھے اور ٹیپو سلطان نے راکٹ آرٹلری میں استعمال کیے تھے-

دلخراش منظر:
ٹیپو سلطان اس وقت کھانا نوش کر رہے تھے جب انہیں ایک شور سنائی دیا- خطرے کو محسوس کرتے ہوئے وہ ایک بے خوف شیر کی طرح باہر گیا- باہر جو کچھ ٹیپو سلطان نے دیکھا وہ ایک دل دہلا دینے والا منظر تھا- انگریز فوج قلعے میں داخل ہوچکی تھی جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ وہ اور اس کی فوج غداری کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں- میسور کا یہ شیر اگر چاہتا تو اپنے خاندان کے ہمراہ خفیہ راستوں سے بھاگ کر اپنی جان بچا سکتا تھا- مگر اس نے ایسا کچھ بھی کرنے کو ترجیح نہیں دی- انگریزوں کی جانب سے ٹیپو سلطان کو معاہدے کی پیش بھی کی گئی تھی لیکن اس وقت ٹیپو سلطان نے جو الفاظ ادا کیے وہ ہمیشہ کے لیے بہادری کے زندہ مثال بن گئے- اس وقت ٹیپو سلطان نے جو تاریخی الفاظ ادا کیے وہ یہ تھے کہ “ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“-
 

image

ٹیپو سلطان کی وفات:
Srirangapatnam ایک جزیرہ نما قلعہ تھا اور 18ویں صدی میں میسور کا دارالخلافہ تھا- یہ ایک نہایت منظم اور قابلِ رشک تجارتی راستوں سے آراستہ ایک مقام تھا جس سے انگریزوں کو شدید خطرات لاحق تھے- اس کے علاوہ میسور کی فوج انگریز کی فوج سے کئی زیادہ بہتر تھی- اس وجہ سے مسلسل 4 سال تک جنگیں ہوتی رہیں- پہلی اور دوسری جنگ میسور کی حکومت نے جیتی٬ جبکہ تیسری جنگ کے نتائج برے ثابت ہوئے- ٹیپو کے دو فرزند انگریز فوج کے قبضے میں چلے گئے- بالآخر چوتھی جنگ میں شیرِ میسور ٹیپو سلطان نے 1799 میں Srirangapatnam کے مقام پر جامِ شہادت نوش کیا-

ٹیپو سلطان کی تلوار:
ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد اس کی تلوار اور انگوٹھی انگریزوں نے مالِ غنیمت کے طور پر پر رکھ لی- یہ دونوں نشانیاں سنہ 2004 تک برطانوی میوزیم میں رکھی گئی تھیں- اس کے بعد وجے مالیا نامی شخص نے نیلامی میں ٹیپو سلطان کی تلوار خرید لی- ٹیپو سلطان کی پہلی تلواروں میں سے ایک تلوار جو وہ جنگوں کے دوران کھو چکے تھے مانچسٹر اسکوائر لندن میں رکھی گئی تھی-
 

image

دھوکہ دہی اور غداری وہ زخم ہیں جو قوم کو تباہ کردیتے ہیں- اگر ٹیپو سلطان کے ساتھ میر جعفر اور میر صادق نے غداری نہیں کی ہوتی تو آج ہندوستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا- زرا سوچیے ایسے کتنے ہی میر جعفر اور میر صادق ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور وہ کس حد تک مسلم امہ کو تباہ کرسکتے ہیں؟
YOU MAY ALSO LIKE:

“It is better to live one day as a Tiger than a hundred years as a Jackal” Tipu Sultan, prominently known as Sher-e-Mysore (Tiger of Mysore) is also given the sobriquet of Sher-e-Hind and Sher-e-Mashriq (Tiger of the East). A legendary ruler, he not only opposed British rule in South India but also played a major role in keeping the British forces away from South India.