مہاجر آبی پرندے اور بے رحم شکاری۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان بہت سے دریاوں،نہروں،جھیلوں،آبگاہوں‘ آبگینوں اور آبی گزرگاہوں کا خوبصورت مرقع ہے۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں آنیوالے ان خوبصورت مہاجر آبی پرندگان میں کثیر اقسام کی مرغابیاں‘ مگھ‘ قاز‘ کونجیں‘ حواصل‘ لم ‘ آبگینوں اور آبی گزرگاہوں کے مضافاتی دلدلی علاقوں کو اپنا مسکن بناتے ہیں اور قریباً چھ ماہ یہاں قیام کے بعد موسم گرما کے آغاز سے قبل ہی اپنے حقیقی مساکن کو لوٹ جاتے ہیں جہاں انہیں اپنے فطری افزائش نسل کے مدارج سے گزرنا ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کے کئی علاقوں میں قحط سالی‘ جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ‘ ویٹ لینڈز کے سکڑنے‘ انسانی آبادی اور صنعتی پھیلاؤ‘ زراعت میں توسیع‘ فصلات میں کیڑے مار ادویات کے استعمال‘ آتشیں اسلحہ کے استعمال اور بے تحاشا شکار کے رجحان کی بدولت گزشتہ چند سالوں سے مہمان آبی پرندوں کی آبادی میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے اور مزید یہ کہ شکار کے غیر دانشمندانہ استعمال کی وجہ سے جانور‘ پرندگان کی کئی اقسام جن میں خصوصاً تیتر‘ بٹیر‘ مرغابیاں‘ مگھ‘ نڑی‘ بگلے‘ کبوتر‘ فاختائیں‘ تلیر‘ چڑیاں‘ خرگوش‘ پاڑہ ہرن‘ چنکارہ اور اڑیال ہنٹنگ پریشر میں ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے ہمسایہ ملک سے کچھ جنگلی جانور‘ پرندے جن میں سامبر‘ گلدار‘ فشنگ‘ کیٹ‘ لوڑم‘ بھیڑیا‘ بندر‘ تلوار‘ اور بھکھڑ شامل ہیں ہجرت کر کے پاکستانی علاقوں میں داخل ہوئے ہیں۔آبی و جنگلی حیات کی متعدد اقسام ناپید یا کم ہو رہی ہیں۔ اس کا سبب انسانی مخلوق کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کچھ ماحولیاتی عوامل بھی اس کی وجہ بن رہے ہیں۔ پھلدار پودوں‘ پھولوں کی اقسام‘ جڑی بوٹیوں اور چراگاہوں کا خاتمہ نیک شگون نہیں۔ زرعی اراضی پر کنکریٹ کی فصلیں اگانے سے غذائی قلت کا ہی سامنا ہو گا۔ جنگلات کے کٹاؤ ،Over Grazing ‘ زمینی کٹاؤ‘ لینڈ سلائیڈنگ‘ بے تحاشا شکار اور مچھلیوں کو مختلف زہریلے مادے استعمال کر کے مارنے کے سبب ’’بائیو ڈائیورسٹی‘‘ شدید خطرات سے دو چار ہیں۔ حیوانات و نباتات کی حفاظت اور بڑھوتری بھی فرائض میں شامل ہے۔ انسانی حرکات سے پیش آنے والے خطرات میں آبادی کا بے تحاشہ بڑھنا سب سے بڑا سبب ہے۔ آبادی کا دباؤ وسائل کے بے دریغ خاتمے کی بنیاد ہے۔ آبادی بڑھے گی تو ضروریات میں بھی اضافہ ہو گا اور اگر وسائل کم ہوئے تو مشکلات مزید بڑھیں گی اور انسانی معیار زندگی گر جائے گا۔ معاشی ترقی کے سفر میں پہلے ہی ’’عدم مساوات‘‘ جابجا نظر آتی ہے۔ غریب کا قدرتی وسائل پر انحصار زیادہ ہو رہا ہے۔ آج بھی جہاں گیس کی سہولت نہیں وہاں درختوں کی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔ ہمیں اس ضمن میں قدرتی وسائل کا پائیدار استعمال سیکھنا ہو گا۔ اگر قدرتی وسائل ختم ہو گئے تو غیروں کی محتاجی یقینی ہو جائے گی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ایندھن کی ضروریات‘ گوشت‘ دالیں‘ دودھ سمیت دیگر اشیاء ضروریہ کی فراہمی ناممکن ہو کر رہ جائے گی۔ شجرکاری نہ ہو گی تو درخت کہاں سے آئیں گے‘ درخت نہیں ہوں گے تو ماحول پر برا اثر پڑے گا۔ زمینی کٹاؤ بڑھے گا۔ دریاؤں کے کنارے زرعی اراضی‘ پھلدار پودے‘ جنگلات بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ ان دریاؤں میں مچھلیوں سمیت مختلف آبی حیات ہوتی ہیں۔ کھیتوں میں پانی زیادہ مقدار میں چھوڑے جانے سے اور کبھی کبھی خشک سالی سے حیوانات و نباتات تباہ ہو جاتے ہیں۔ان کے مسکن تک ختم ہو جاتے ہیں۔ بے تحاشہ شکار بھی مختلف النوع جانوروں کی کمیابی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ’’شکار کا شوق‘‘ ہر طبقے میں پایا جاتا ہے۔ مغلیہ خاندان نے رواج ڈالا اور آج اس کے لئے عرب شہزادوں کو باقاعدہ لائسنس دیئے جاتے ہیں۔ جنگلی حیات کو شکار کے شوق میں مارا جاتا ہے جو ناپید ہو رہی ہیں۔ سانپ اور چھپکلی تک کو کھالوں کی خاطر مارا جاتا ہے۔ پرندے ختم کئے جا رہے ہیں۔ کچھوے پکڑ پکڑ کر بیچے جا رہے ہیں۔ مچھلیوں کی افزائش پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی جتنی اسے بے رحمی سے مارنے پر دی جا رہی ہے۔جنگلات کے کٹاؤ سے جانوروں کے مسکن ختم ہو رہے ہیں۔ جنگلی حیات کو شکار سے بھی زیادہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے خطرات لاحق ہیں۔ شکاری سے تو بچا جا سکتا ہے مگر ٹھکانہ ہی نہ رہے تو حیات کیسے گزرے گی۔ جنگلات میں آگ لگا دینا چرند پرند کی تباہی ہے۔ قیمتی جڑی بوٹیاں مقامی جانوروں کے چارہ کی نذر ہو رہی ہیں۔ محکمہ وائلڈ لائف کو آبی و جنگلی حیات کو انسانوں کے ہاتھوں درپیش خطرات سے بچانے کیلئے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ مچھلیوں کی افزائش کے لئے محکمہ ماہی پروری کو بھی حرکت میں آنا ہو گا۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی روکنے کے لئے محکمہ جنگلات کو خاموشی توڑنا ہو گی اور اشرف المخلوقات کو بھی مالک دوجہاں کی دیگر مخلوقات کے تحفظ کیلئے اپنا طرز عمل بدلنا ہو گا۔ ایکو سسٹم تب ہی تو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور اگر یہی بے ڈھنگی چال چلتی رہی تو نہ فلورا رہے گا اور نہ فانا ۔ ۔۔ ماحول کی بہتری کے لئے جنگلی حیات‘ نباتات کا وجود ضروری ہے۔ پرندے چہچہائیں نہ تو زندگی بیزار ہو جاتی ہے۔ انہیں چہچہانے دیں انہیں اپنے شوق کا نشانہ نہ بنائیں۔شہر شہر وائلڈ لائف پارک کی تعمیر توجہ طلب ہے۔ حکومت وقت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ ماحول دوست کام بھی ہے اور انٹرٹینمنٹ اور ریونیو کا ذریعہ بھی۔شکار کیلئے شکاری کے پاس مستند اسلحہ لائسنس‘ شوٹنگ لائسنس ہونا نہایت ہی ضروری ہوتا ہے۔ شکار کیلئے کھلے موسم اور کھلے علاقوں کو پیش نظر رکھنا لازمی ہے۔ شکار کیلئے خودکار ہتھیار اور جیپ کے استعمال کی قطعاً اجازت نہیں ہے علاوہ ازیں مقرر ایام اور مقرر مقدار کی پابندی لازمی ہے۔لیکن کیا ان سب پابندیوں کا کہیں اطلاق بھی ہوتا ہے۔۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں قدرت کی اس خوبصورت اثاثے کو تحفظ اور فروغ دینے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کرنا ہوں گے جس کیلئے ہمیں اپنے دریاؤں‘ ندی نالوں اور جھیلوں کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھنا‘ جنگلات کے فروغ کو یقینی بنانا‘ اپنی فصلات میں ماحول دوست ادویات کا استعمال کرنا‘ اپنی ویٹ لینڈز کو بچانا ہو گا اور شکار کیلئے خودکار ہتھیاروں اور جیپ کے استعمال کو روکنا ہو گا۔ شکار میں اعتدال کے عنصر کی حوصلہ افزائی اور اس کا دانشمندانہ استعمال کرنا ہو گا یوں ایک مربوط اور منظم کاوش ہی سے ہم قدرت کے اس حسین عطیے کو اپنی آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ وائلڈ لائف ایکٹ کی رو سے ناجائز اور غیرقانونی شکار میں ملوث افراد کی سزا کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتی ہے جبکہ جرمانہ کم سے 10 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 30 ہزار روپے ہو سکتا ہے۔میری ناقص رائے میں ہمارے قدرتی حسن کی پامالی کے لیے یہ سزا کچھ بھی نہیں۔۔۔ارباب اختیار کیا کہتے ہیں اس کا انتظار رہے گا۔
Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 70767 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.