ہم دیکھتے ہیں کہ ہر پیدا
ہونے والا محدود مدت کے بعد مر جاتا ہے اس کے باوجود یہ نہایت عجیب بات ہے
کہ ہم میں سے کوئی شخص بھی خود اپنی موت کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں
سوچتا-ہم دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں،مگر خود اپنی موت کے بارے میں
غفلت میں پڑے رہتے ہیں- جدید سائنسی تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر انسان
کے جسم میں تقریبا ایک سو ٹریلین سیل ہوتے ہیں،ہر سیل کے نیوکلیس میں ایک
ناقابل مشاہدہ ڈی این اے موجود رہتا ہے-ڈی این اے کے اندر انسانی شخصیت کے
بارے میں تمام چھوٹی بڑی معلومات کوڈ کی صورت میں موجود رہتی ہیں-یہ
معلومات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اگر ان کو ڈی کوڈ کیا جائے،تو و ہ برٹانیکا
جیسی ضخیم انسائکلوپیڈیا کے ایک ملین سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہوں گی-ڈی
این اے کے اندر انسانی شخصیت کے بارے میں تمام معلومات درج ہوتی ہیں،مگر اس
فہرست میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ موت ہے-ڈی این اے کی طویل فہرست موت کے
تصور سے خالی ہے-موت کا تصور انسانی شخصیت میں موجود نہیں،یہی وجہ ہے کہ
آدمی دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے،لیکن وہ خود اپنی موت کے بارے میں
زیادہ سوچ نہیں پاتا-یہی انسان کا امتحان ہے-موت کسی شخص کے اوپر ڈی این اے
کی پروگرایمنگ کے تحت نہیں آتی،بلکہ وہ براہ راست خدائی فیصلے کے تحت آتی
ہے-کامیاب انسان وہ ہے جو اپنی اندر اینٹی پروگریمنگ سوچ پیدا کرے-وہ خدائی
فیصلے کی نسبت سے موت کے معاملے کو دریافت کر لے اور اس کے مطابق،اپنی
زندگی کی منصوبہ بندی کرے-وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے اور ہمیں احساس تک
نہیں ہوپاتا ۔حالات کیسے ہی ہو ں ہمیں اپنے اندر جینے کا حو صلہ پیدا کرنا
چا ہیے، یہی ہمت و حوصلہ سب سے اچھا انسا ن ہو نے کی دلیل ہو تی بھی ہے ۔
موت تو بن مانگے مل جاتی ہے اس لیے جو چیز بن مانگے ملتی ہو اس کی تمنا
کیسی۔شاید انہی احساسات کے بغیر کسی لالچ کے کچھ لوگ معاشرے کیلئے تگ و دو
کرتے ہیں ، مرحوم دوست عزیز احمد رضوی بھی انسانیت کے بھلے کیلئے کوشاں رہے
،انہیں شاید دنیاوی عزت و شہرت سے غرض کم تھی اسی لیے خود کو بہت سے کاموں
میں منظر عام پر لائے بغیر بھی پایہ تکمیل تک پہنچا دیتے تھے ۔رضوی صاحب کی
خدمات پر امجد شریف ، بقی اشرف ، وسیم اعظم ،سردار اظہر ، افراز اعوان ،
خرم شبیر ، صنم نذیراور دیگر قلم کارمفصل روشنی ڈال چکے لیکن کتنے ہی پہلو
ہیں جو ابھی منظر پر آنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔رضوی صاحب کے مجلے خوشبو کے
ساتھی سرداراظہر ، صحافی آصف اشرف،صحافتی تھکاوٹ کے بعد دیار غیر میں
روزگار کیلئے مگن عمر جباری جیسے صاحبان اگر تھوڑی ہمت کریں تورضوی صاحب کی
خدمات کے بارے میں اور بہت کچھ سامنے آسکتا ہے ۔
یکم نومبر کو جب رضوی صاحب حادثے کی وجہ سے راولاکوٹ ہسپتال سے پمز کیلئے
منتقل ہوئے تو چک سے انجمن تاجران کے صدر محمد یاسر خان نے اطلاع دی ۔تب سے
انکی وفات تک یاسر صاحب مسلسل رابطے میں رہے ، شاہد شارف صاحب اور امجد
عارف صاحب سے بھی ہسپتال میں بارہا ملاقاتیں اور فون پر رضوی صاحب کی صحت
کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی۔جس روز رضوی صاحب کا انتقال ہوا اس دن مجھ میں
ہمت نہیں تھی کہ زیادہ کچھ لکھ سکتا بس اتنا ہی لکھ کر دوستو کو آگاہ کیا
کہ ''دوستو ، اب تک مختلف موضوعات پر بے شمار لکھا ر، اکثر اوقات کمپیوٹر
کے کی بورڈ پر انگلیاں خود بخود چلنا شروع ہو جایا کرتی تھیں لیکن آج ہمت
نہیں پڑ رہی اور الفاظ نہیں مل رہے کہ اپنے دوست عزیز احمد رضوی کی موت پر
کچھ لکھ سکوں ، رضوی صاحب سے آخری ملاقات اے ٹی آئی اسلام آباد کے دفتر میں
ہوئی جب انہیں آپریشن کے بعد پمزسے وہاں منتقل کیا گیا تھا۔بہت زیادہ ریکور
کر چکے تھے ، جب انہیں علم ہوا کہ میں انہیں دیکھنے آیا ہوں تو اٹھ بیٹھے ،
ہاتھ پکڑ کر رونے لگے کہ کاشف۔۔!! میرے ساتھ ظلم ہوا ہے ، میرے ساتھ زیادتی
اور نا انصافی ہوئی ہے ، ان کی آنکھوں میں آنسو شاید اس لیے ملال سے چھلک
رہے تھے کہ انہیں کچھ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اب ٹھیک نہیں ہو سکیں گے۔اس
حادثے کا ذکر کرنے لگے کہ جس کی وجہ سے آج انکی یہ حالت تھی ، کہنے لگے میں
جاتے ہوئے اسی استے سے گیا تھا ،وہاں سڑک پر کچھ بھی نہیں پڑا تھا ،اندھیرے
میں جب میں موٹر سائکل سے واپس آ رہا تھا تو اس بجری پر سے موٹر سائیکل گر
گیا، پھر رونے لگے کہ بغیر کسی مقصد کے آخر کسی نے وہاں بجری کیوں پھینکی
تھی ، میں نے حوصلہ دینے کی کوشش کی آپ اب بہت حد تک ٹھیک ہو چکے
ہیں،گھبرائیں نہیں،کچھ عرصہ اور آرام کریں تو معمول کے مطابق زندگی گزرنا
شروع ہو جائے گی۔پھر مجھ سے افسوس کا اظہار کرنے لگے کہ کچھ دن پہلے میں
بول نہیں سکتا تھا تو میرے مظفر آباداو دیگر شہروں سے دوست مجھے دیکھنے آئے
لیکن میں ان سے بات چیت نہیں کر سکا ، انکی خدمت نہیں کر سکا۔میں نے ان کے
حوصلے کیلئے پھر عرض کی کہ دوست پھر آجائیں گے آپ کی صحت اب اچھی ہو رہی
ہے۔لیکن نہیں شاید میرے جیسوں کے حوصلے اور دعائیں کام نہ آ سکیں۔
معلوم نہیں رضوی صاحب سے ابتدائی تعلق کب ، کیسے اور کہاں بنا لیکن جب بھی
ان سے ملا انہیں کاموں میں مگن پایا ۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی صحافتی
مصروفیات کا پوچھتے ، تجاویز کے ساتھ حوصلہ دیتے ، اپنے بھائی کا کہتے کہ
'' گڈو '' کی تعلیم مکمل ہوجائے اور سیٹ ہو جائے تو میں اپنے بارے میں بھی
کچھ سوچوں۔ رضوی صاحب ۔۔! گڈو و تو سیٹ ہو ہی جائے گا لیکن آپ خود چلے
گئے۔جہاں رضوی صاحب کی موت کو برادرم وسیم اعظم نے کھل عام قتل قرار دیا تو
وہاں خرم بھائی ، شکیب اور دیگر دوست ایس ایم ابراہیم ایڈووکیٹ کے ساتھ
ملکر اس قتل اور اس جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے قانونی کاروائی کرنے کے
درپے ہیں۔رضوی صاحب دنیا سے رخصت ہوئے تو دل بہت دکھا ، دریک گراؤنڈ میں
انکے جنازے پر کھڑا تھا تو دیکھا مختلف لوگ ہی لوگ ہیں ، یہ زیادہ تر لوگ
صرف علاقائی یا رسمی تعلق کی وجہ سے آئے ہوئے نہیں دکھے۔ ہر ایک کی آنکھوں
میں آنسو تھے،آصف اشرف صاحب کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تواپنی برداشت بھی
ساتھ چھوڑ گئی، سینئر مدرس زبیر صاحب پاس آئے، کہنے لگے عزیز سے آپ کا بھی
اچھا تعلق تھا ؟میری زبان خاموش ، کچھ نہ کہہ سکا ،جنازہ پڑھ کر لوگ گھروں
کو چل دیئے ،انکے گھر کے ساتھ واقع آبائی قبرستان جاتے ہوئے آصف صاحب کہنے
لگے جنازہ گاہ سے قبرستان تک وہی لوگ آتے ہیں جو مرنے والے سے قریبی قربت
رکھتے ہیں۔ماموں زاد بھائی جواں سالہ رضوان سعید کی دیار غیر میں حادثے میں
موت ہوئی تب کسی اپنے کے بچھڑنے کا بہت دکھ ہوا تھا اور اب رضوی صاحب کے
جانے کا ۔ زندگی کی بس یہی حقیقت ہے کہ وقت متعینہ پر رخصت ہو جاتا ہے اور
باقی اس کا بس کردار رہتا ہے۔ |