پاک افواج دہشت گردی کے خلاف
فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہیں۔آپریشن کے آغاز سے لے کر آج تک انہیں بے حد
کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اوراطلاعات کے مطابق 90فی صد علاقے کو دہشت گردوں
سے پاک کروایا جا چکا ہے۔ تاہم پاک فوج کی ان کامیابیوں کو اسی وقت دیرپا
اور دور رس اثرات کی حامل بنایا جاسکتا ہے کہ جب تمام سیاسی جماعتیں اس کی
پشت پر ہوں اور ہر طرح سے فوج کی مدد و تعاون کرنے پر آمادہ ہوں۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کرنے کے لئے تمام پارٹیوں
نے ’ـضرب عضبـ ‘ آپریشن کی مکمل حمایت کی تھی تاہم بعد ازاں آپریشن کے
دوران ملک میں ایک طویل سیاسی رسہ کشی کا عالم ہے۔ اس بات پر پوری قوم متفق
ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ہی پاکستان کو اپنی تاریخ کے سنگین
ترین بحرانوں کی دلدل سے نکال سکتا ہے ۔جب ملک دشمنوں کے خلاف اس طرح کے
آپریشن ہو رہے ہیں تو پوری قوم اتحادو یگانگت کا مجسمہ بن کر مسلح افواج کے
شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنی تمام تر صلاحیتیں اس جنگ کو کامیابی سے ہمکنار
کرنے پر مرکوز کر دیتی مگر یہاں ضرب عضب آپریشن شروع ہونے کے بعد جو صورت
حال سامنے آئی وہ پریشان کن تھی۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی
تحریک نے حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا ۔ جس سے اس انتہائی اہم آپریشن کی
اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے ایسے رویوں سے ملک دشمن عناصر
کوہی فائدہ پہنچ سکتا ہے تاہم اﷲ کا شکر ہے کہ دھرنوں میں ہر جتن کرنے کے
باوجود انہیں اپنے مقاصد میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
وہ نازک وقت تو ٹل گیا تاہم اب پھر پاکستان تحریک انصاف پاکستان کو بند
کرنے کی باتیں کررہی ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں اسلام آباد پھردسمبر کے شروع
میں فیصل آباد، کراچی اورلاہور کو بند کرنے کا اعلان انتہائی افسوسناک ہے۔
ملک بھر کے تاجر اور ٹرانسپورٹر کے ساتھ ساتھ عام شہری پہلے ہی آئے روز کے
دھرنوں اور احتجاجوں سے تنگ آچکے ہیں۔ ملک کو بند کرنے کی اس کال پر بھی وہ
سٹپٹائے ہوئے ہیں۔ایسے وقت میں کہ جب معیشت ایک اہم دور سے گزرر ہی
ہے،پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے فضا سازگارہورہی ہے اوربہت عرصے
بعدپاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے اچھی خبریں آرہی ہیں۔ تیل
اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا ریلیف بھی عوام کو ملنا شروع ہوا ہے، اور سب
سے بڑھ کر آئی ڈی پیز کی دوبارہ بحالی اور گھروں کو واپسی کی منصوبہ بندی
کی جارہی ہے ، ان حالات میں ایسی احتجاجی سیاست چہ معنی دارد۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں امن و امان کا قیام کسی بھی حکومت کی اولین
ترجیح ہوتی ہے ۔وہ احتجاجوں اور دھرنوں کے دوران لاء اینڈ آرڈر برقرار
رکھنے کے لئے کوئی بھی کوشش کرتی ہے تو اسے غیر جمہوری طرز عمل کا نام دیا
جاتا ہے یعنی حکومت کچھ کرے تب بھی قصور وار، نہ کرے تب بھی مجرم۔دھاندلی
کا شور مچانے والے اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں
ضرب عضب آپریشن جاری ہے اور وہاں سے جو خطرناک بارودی مواد اور اسلحہ ملا
ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد پاکستان اور اس کے شہریوں کے خلاف
کتنے خطرناک عزائم رکھتے تھے۔ یہ خطرہ اب بھی نہیں ٹلا کیونکہ علاقے کی
مکمل صفائی کے بعدایسے رویے اور اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے وہاں امن کو
دوام حاصل ہو۔ شورش زدہ ان علاقوں کو دہشت گردی کی آگے سے بچانے کے لئے
ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں حکومت کے شانہ بشانہ کام کریں اور ملک میں
غیر ضروری سیاسی محاذ کھولنے سے گریز کریں۔ مگر افسوس اس حقیقت کو نظر
انداز کرکے ملک کو محاذ آرائی کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ یہ
سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر تے کہ اس سے ملکی معیشت بھی شدید منفی
اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ ہمارے بد خواہ اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھا رہے
ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان تحریک انصاف صوبہ خیبرپختونخوا میں
ایسے انقلابی اقدامات کرکے ایک مثال قائم کرتی پھر دوسروں پر تنقید کے
تیربرساتی مگر افسوس خیبرپختونخوا کی حالت یکسر تبدیل نہیں ہوسکی۔ میں یہاں
صرف صوبائی محکمہ صحت کی مثال پیش کروں گی جس سے وہاں تبدیلی کی ایک جھلک
دیکھی جاسکتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صوبے کے آٹھ اضلاع کے247 میں سے 73 بنیادی مراکز صحت
بغیر میڈیکل آفیسر کے چل رہے ہیں ۔اپنے انتخابی منشور میں پی ٹی آئی نے
غریب لوگوں کی صحت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔اعدادو
شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہنگو کا دور دراز ضلع سب سے زیادہ پسماندہ ہے جہاں
80فی صد لوگ بنیادی صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں اور دس بنیادی مراکز صحت
میں کوئی ڈاکٹر نہیں۔صحت کی بنیادی سہولتوں کے حوالے سے صوابی دوسرا
انتہائی محروم علاقہ ہے جہاں 70 فی صد بی ایچ یو میں ڈاکٹر نام کی کوئی شے
موجود نہیں ہے۔ضلع کے غریب اور ان پڑھ لوگوں کو علاج معالج کے لیے کئی میل
پیدل سفر کر نا پڑتا ہے۔ صوابی میں 40 بنیادی مراکز ہیں اور28 میں کوئی
ڈاکٹر نہیں ہے صرف 12 خوش قسمت بی ایچ یو ایسے ہیں جہاں ڈاکٹر موجود ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق اگر دیہی علاقوں میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز مہیا کر دیے
جائیں تو بہت سی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں کیو نکہ بنیادی مراکز صحت کے یہ
ڈاکٹر ایمر جنسی مریضوں کو ہنگامی طبی امداد دے سکتے ہیں ۔دور دراز علاقوں
میں بہت سے مریض صرف اس لیے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کہ انہیں بر وقت
طبی امداد نہیں ملتی۔ضلع لکی مروت میں 60 فی صد بنیادی مراکز صحت ڈاکٹرز کی
سہولت سے محروم ہیں۔ اس علاقہ میں 27 بنیادی مراکز صحت ہیں اور 15 میں
میڈیکل آفیسر کی خدمات دستیاب نہیں ہیں۔کرک میں میڈیکل ڈاکٹروں کی
19اسامیاں ہیں جن میں سے سات خالی پڑی ہیں ۔قدرے ترقی یافتہ ضلع ہری پور
میں بھی سات بنیادی مراکز صحت بغیر ڈاکٹر کے ہیں۔ضلع بنوں میں 36میں سے 6
بنیادی مراکز صحت میں کوئی ڈاکٹر نہیں۔صرف چار سدہ اور نوشہرہ خوش قسمت
اضلاع ہیں جہاں تمام مراکز صحت میں ڈاکٹروں کی خدمات دستیاب ہیں۔صوبے کے
درجنوں اضلاع میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں کئی دیہات
ایسے ہیں جہاں ذرائع مواصلات نہ ہونے کے برابر ہیں ذرا سی بارش ان علاقوں
کا دوسرے شہروں سے رابطہ کاٹ دیتی ہے ۔صوبائی حکومت کو عوام کے ان چھوٹے
چھوٹے مسائل پر توجہ دینی چاہیے اور تحریک انصاف کو اپنی وہ ٹیم سامنے لائی
چاہیے جو توانائی،زراعت،تعلیم،داخلہ،خارجہ،خزانہ ،ٹرانسپورٹ
،صحت،مواصلات،پانی و بجلی کی سہولتیں بہتر بنائے تاکہ عوام جانچ سکیں کہ وہ
دھرنوں یا احتجاج کے سوا کچھ اور بھی کر سکتے ہیں ۔ عوام ان کے دھرنے اور
جلوس تو بہت دیکھ چکے ہیں مگر اب وہ صوبے کے امور نمٹانے کے لئے بھی ان کی
توجہ کے منتظر ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی قیادت کو قومی مفاد میں
سیاسی بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کی بجائے مذاکرات کی راہ
اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشی کامیابیاں سمیٹنے کے ساتھ ساتھ پوری قوم
آپریشن ضرب عضب اور آئی ڈی پیز کی بحالی پر بھرپور توجہ دی جاسکے۔ |