ماں دیر ہو بھی سکتی ہے۔۔۔۔سانس رک بھی سکتی ہے۔۔۔ مجھے معاف کر دینا
(M. Abdul Rahman, Fateh jang)
ماں دیر ہو بھی سکتی ہے۔۔۔۔سانس
رک بھی سکتی ہے۔۔۔ مجھے معاف کر دینا
بیٹا جلدی سے اٹھو تیاری کر لو سکول جانا ہے بیٹا اٹھتا نہیں ہے ماں بیٹے
کے بستر کے پاس آکر بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہے اور کہتی ہے شاباش میرا
بیٹا بہت اچھا بچہ ہے بڑا ہو کر ملک کا نام روشن کرے گاجلدی سے بیٹا ماں کے
منہ سے تعریف سن کر اٹھتا ہے ماں پیار دے کہتی ہے من ہاتھ دھو لو اور باشتے
کے لیئے آ جاؤ۔ بیٹا اپی بابا کہاں ہیں کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ بابا جانی
بھی آ جاتے ہیں بابا لاڈ پیار کرتے ہوئے کہتے ہیں میرا شیر بیٹا جاگ کیا ہے
شاباش بہت اچھا ناشتہ کرنے کے بعد ماں بچے کو سکول کے کپڑے پہناتی ہے بالوں
میں پیار سے تیل لگا کر کنگی کرتی ہے اپنے پیارے بیٹے کو تیار کر کے گھر سا
باہر کھڑی سکول کی گاڑی میں بیٹھا دیتی ہے۔اور خوب دعائیں دے کر بیٹے کو
رخصت کرتی ہے اورجب تک کہ گاڑی نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے کحری دعائیں ہی
دیتی رہتی ہے۔ماں گھر کا کام کاج میں مصروف ہو گئی اور بیٹا سکول پہنچ گیا
سکول میں معمول کی مصروفیات (اسمبلی،قرآن خوانی) کے بعد جب پہلی کلاس کا
آغاز ہوا تو کچھ دیر بعد کچھ عجیب وغریب آوازیں سنائی دینے لگیں لیکن ٹیچر
نے دھیان ادھر نہ جانے دیا بچوں کا لیکن اتنے میں چند بد بخت ہاتھ میں
بندوق اٹھائے اندر آ گئے سب کے سب بچے زمین ہر لیٹ گئے اور ان بد بخت
یزیدیوں نے اس معصوم کلیوں کو مسلنا شروع کر دیا۔۔۔۔
ہائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ماں کے لخت جگر کے جسم میں جب گولے لگی تو یہاں بچہ تڑپا تو وہان گھر میں
موجود ماں کا دل بھی اداس ہو گیا سکول میں وہ درندے خون کی ہولی کھیلتے رہے
خوابوں کو چکنا چور کرتے رہے گلاب کی سی کومل کلیوں کو مسلتے رہے اور سکول
کے باہر انہی کلیوں کی آبیاری کرنے والے شیر دل جوان اپنی کلیوں کی حفاظت
کے لیے لڑائی کرتے رہے لیکن وہ بد بخت لعین ان کلیوں کو مسلتے رہے بس اسی
شور شرابے مین اس کے گھر تڑپتی مان کو خبر پہنچی کہ سکول میں کوئی بدبخت
خون کی ہولی کھیل رہا ہے ماں کا دل تڑپا اور دوڑی دوری وہاں پہنچی محافظوں
نے حوصلہ دیا تب تک وہ سارے بدبخت جو کہ اندر موجود تھے جہنم کی آگ میں جل
رہے تھے لیکن وہ بد بخت 132کے قریب خوبصورت کلیوں کومسل چکے تھے۔اور شاید
وہ بچے اپنے رب کے حضور یہ سوال کر رہے ہوں گے کہ ماں میری ماں نے جب صبح
کا لقمہ میرے منہ میں ڈالا تھا تو کہا تھا بیٹا بڑے ہو کر ملک کا نام روشن
کرنا،ماں نے کہا تھا کہ بیٹا آج واپس آ ؤ گے تو سارا کام میں تم سے سنوں
گی،باپ نے بھی تھپکی دے کر کہا تھا بیٹا تو نے اس ملک کے لیئے بہت کچھ کرنا
ہے جی لگا کے پڑھنا، ماں نے دعا دے کر بھیجا تھا کے خیریت سے جاؤں اور
خیریت سے لوٹنا۔۔ لیکن میری ماں مجھے ڈھونڈ رہی ہے ان لوشوں میں کہ جو زمین
پہ پڑے کہ،
مالک میرا قصور کیا تھا کہ ظالم نے میرے سر پہ گولی چلائی ہے
ماں پاب کا کہا مانتا تھا اس لیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اپنا کام وقت پہ کر لیتا تھا اس لیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ہر کسی کی اچھی بات مان لیتا تھا اس لیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے۔۔۔! ہائے۔۔۔۔۔!
ہائے۔۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شائد کل شام پشاور کے آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کی صبح کا
آغاز اسی انداز سے ہوا ہو گا لیکن شام کیسی ہوئی۔۔۔۔۔
ظالم جابر ان بچوں کے والدین سے۔۔ ان کی مسکراہٹ چھین چکا تھا۔۔
ان سے ان کے بڑھاپے کا سہارا چھین چکا تھا۔۔ان سے ان کے خواب چھین چکا
تھا۔۔ ان سے ان کا سب کچھ چھین چکا تھا۔۔۔
مولا ان ماؤں کو کہ جن کے دل کا ٹکڑا طالموں نے کاٹ پھنکا،ان بہنوں کو کہ
جس کے ساتھ پیار اور محبت کا دم بھرنے والا بھائی اور محافظ تھا ان سے چھین
لیا مولا ان کو صبر
و اتقامت عطا فرما اور ان بچوں کوجو شہید ہوئے ان کی قبر کو جنت کے باغوں
میں باغ بنا اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔۔۔۔۔۔آمین!
ذرا سوچئے۔۔۔!
کہ آخر کیوں،کس نے اور کس کے کہنے پر یہ ظلم کیا؟
اور اس کا حل
کب، کیسے اور کون نکالے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ |
|