خاتون اینکر پرسن پر تشدد……تحریک انصاف کارکنوں کو تمیز سکھائے

تحریک انصاف کے یوم احتجاج کی کوریج کرنے والی نجی ٹی وی چینل کی خاتون اینکر پرسن ثناء مرزا، سینئر تجزیہ نگار سہیل وڑائچ اور سینئر رپورٹر امین حفیظ،احمد فراز،اور جواد احمد سے بد تمیزی اور ان پر پتھر،بوتل اور غلیل،کنچے سے حملوں نے یہ ثابت کیا کہ تحریک انصاف کے قائد نے جس طرح کنٹینر پر کھڑے ہو کر اپنی بد زبانی کو جاری رکھا ہوا ہے اسی طرح اس پارٹی کے کارکنان اس کا عملی مظاہرہ کر کے اپنے قائد کے دیئے ہوئے اس کنٹینر لیکچر کی تکمیل کرتے ہیں یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا سلام آباد میں بھی خاتون صحافی اور اینکر پرسن کے ساتھ پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے اس طرح کا رویہ روارکھا جا چکا ہے اور پھر کراچی میں بھی اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔میڈیا کے ساتھ یہ سانحہ پہلی مرتبہ پیش نہیں آیا بلکہ اس سے قبل درجنوں ایسے سانحات میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ ہوئے ہیں مگر اب تو حد ہی ہو گئی۔

صحافیوں کے ساتھ ہونیوالے سانحہ لاہور کی ذمہ دارپنجاب حکومت بھی ہے جس نے صحافیوں کے ساتھ ہونیوالی اس بد سلوکی پر چپ کا روزہ رکھا اور صحافیوں کو تحفظ فراہم نہ کیاپنجاب حکومت ہی نہیں مستقبل میں تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومتوں کو چاہئے کہ صحافیوں کے ساتھ ہونیوالی کسی بھی بد سلوکی پر فوری طور پر متحرک ہو بعد میں اظہار مذمت کا کوئی فائدہ نہیں ۔

اس سے قطع نظر کے میڈیا ہاؤسز کی کیا پالیسی ہے ہمیں صرف اپنی صحافی برادری کے ساتھ ہونیوالے نا روا رویئے پر اظہار افسوس ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ جو کلاس اس وقت اٹیچ ہے وہ مڈل کلاس ہے اور اس کلاس میں زیادہ تعداد پڑھے لکھوں کی ہے مگر ان پڑھے لکھوں کی حرکتوں کو دیکھ کر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔

عمران خان کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر شرمندہ ہونے کی بجائے صحافیوں کے حقوق کا نعرہ لگانے سے صحافی اپنی اس بیٹی،بہن کے ساتھ ہونیوالی زیادتی کو نہیں بھول سکتے اسکے آنسو آج بھی صحافیوں اور اس معاشرے کے تمام افراد کیلئے سوالیہ نشان ہیں جنہوں نے اس منظر کو دیکھا کہ کس طرح ایک خاتون جو اس معاشرے کی تمام تصویر اورحقائق کو عوام تک پہنچانے کی جدوجہد کر رہی ہے اسے انصاف کے نام پر احتجاج کرنیوالوں نے ہراساں کیا اور اسے اس حد تک مجبور کیا کہ ایک نڈر اور حوصلہ مند خاتون کی آنکھوں سے اس بربریت پر آنسو ٹپک پڑے ۔

عمران خان ماضی میں جس طرح سینئر صحافیوں پر الزام تراشیاں کرتے آئے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہے ایک جانب خان صاحب بغیر کسی ثبوت کے صحافیوں پر پیسے لینے کا الزام لگاتے ہیں اور دوسری جانب وہ اور انکے مشیران صحافیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ انکے ساتھ ہیں اور انکے حقوق کی جنگ لڑیں گے خان صاحب بغیر ثبوت کے ہر کسی پر انگلی اٹھانا اپنا وطیرہ سمجھتے ہیں ۔

عمران خان کو چاہئے کہ وہ میڈیا کو پارٹی سمجھنے سے گریز کرے صحافی کبھی پارٹی نہیں رہے اگر صحافی پارٹی ہوں تو ان سے حکومت وقت کبھی ناراض نہ ہو صحافی تو اس معاشرے کی آنکھ ہیں اور اسی آنکھ کی وجہ سے آج یہ معاشرہ جاگ اٹھا ہے جتنی مشکلات اس شعبے سے وابستہ افراد جھیلتے ہیں شاید ہی کسی اور شعبہ سے وابستہ افراد کو اس کا سامنا ہے اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ صحافیوں کو کسی پارٹی کے ساتھ ربط تعلق دینے سے پہلے صحافت کی تعریف کو اچھی طرح پڑھ لیں اور اس ملک کے صحافیوں کی آمریت،جنگ،امن کے دور میں جو خدمات ہیں انکی تاریخ کو بھی بغور دیکھ لیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ صحافی کسے کہتے ہیں اور صحافی کیا ہے ۔

دوسری جانب انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایک جانب ایک ٹی وی چینل کے صحافیوں پر اس طرح کا تشدد اور انہیں ہراساں کیا جارہا ہے تو دوسری جانب دیگر میڈیا چینلز اس پر خاموش تماشائی بنے دکھائی دیتے ہیں آج اگر ایک جانب یہ ہو رہا ہے تو کل کو دوسری جانب بھی ایسا ہو سکتا ہے اس لئے تمام صحافیوں کو میڈیا ہاؤسز کی پالیسی کے برعکس یہ سوچنا چاہئے کہ یہ سب صحافیوں پر حملہ ہے اور ایسے موقع پر تمام میڈیا کوریج ختم کر دینی چاہئے تاکہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کو اس کا احساس ہو کہ وہ غلط کر رہے ہیں اگر انہیں میڈیا کوریج بلا تعطل ملتی رہے تو پھر انہیں کیا ضرورت ہے یہ سوچنے کی۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے ہمیشہ صحافی برادری کے ساتھ ہونیوالے ناروسلوک پر احتجاج کیا گیا اور صحافی برادری کے تحفظ کیلئے جدوجہد کی گئی تاہم پاکستان پریس کونسل آف پاکستان کی جانب سے بھی احتجاج کی کال ایک اچھا اقدام ہے ۔جبکہ دوسری پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کی کال یہ پتہ دیتی ہے کہ ہر صحافی کیساتھ تمام صحافتی تنظیمیں کھڑی ہیں کوئی کسی صحافی کو تنہا نہ سمجھے ۔ صحافی امن کے داعی ہے اور اسکی بڑی مثال ثناء مرزا کے ہراساں ہونے کے بعد اپنے فرائض کی انجام دہی ہے۔صدر پنجاب یونین آف جرنلسٹ وسیم فاروق کی جانب سے صحافیوں پر تشدد کرنیوالے پی ٹی آئی کارکنوں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ نہ صرف پی یو جے بلکہ اس ملک کے تمام صحافیوں اور تمام صحافتی تنظیموں کا ہے اور تمام صحافی مذکورہ کارکنوں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور صدر پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔

پاکستان یونین آف جرنلسٹس،پنجاب یونین آف جرنلسٹ،پاکستانپریس کونسل آف پاکستان کی جانب سے اس سانحہ کے مقدمہ کے اندراج کا مطالبہ درست ہے اور پوری صحافی برادری کے دل کی آواز ہے ۔

پاکستانی صحافیوں نے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا ہے نہ صرف وطن عزیز کے صحافیوں نے پاکستان بلکہ دنیا کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک اپنی بہترین رپورٹنگ کے باعث دنیا بھر میں ممتاز مقام حاصل کیا ہے ۔1965ء کی جنگ ہو یا1971ء یا پھر 9/11کے بعد افغانستان میں ہونیوالی تباہی اور پھر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کی یلغار ہو وطن عزیز کے صحافیوں نے کبھی حوصلہ نہیں ہارا صحافتی تاریخ کو اٹھا کر دیکھاجائے تو تحریک انصاف کے کارکنوں کو معلوم ہوکہ وطن عزیز کے صحافیوں نے نہ صرف حال بلکہ ماضی میں بھی کتنی سختیاں جھلیں اورہر خبر کو من و عن اپنے قائین اور سامعین تک پہنچایا نہ صرف خارجی اور داخلی امور بلکہ سماجی برائیوں کو بھی منظر عام پر لانے میں صحافتی برادری نے اپنا بہترین کردارادا کیا۔عمران خان کو صحافی برادری کے ساتھ روا رکھا جانیوالا رویہ تبدیل کرنا ہوگا صحافتی برادری کو عمران خان کایہ رویہ قطعی قبول نہیں دوسری جانب سول سوسائٹی کو بھی اب سوچنا ہوگا کہ صحافی برادری کے ساتھ ہونیوالی اس زیادتی پر اسے خاموش رہناہے یا پھر اپنا کردار ادا کرنا ہے صحافی کسی ایک برادری کی آواز نہیں وہ معاشرے کے ہر فرد کی آواز ہے ہر برائی ہر اچھائی کا پردہ چاک کرنا صحافی کی پہچان ہے اور اسے اس سے کوئی نہیں روک سکتا ماضی کے بڑے بڑے آمروں نے صحافیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے مگر صحافیوں کی ثابت قدمی اور جذبہ حب الوطنی اورپیشہ وارانہ سر گرمیوں میں کبھی لچک نہیں آئی ۔

کشمیر جرنلسٹ فورم کی جانب سے بھی احتجاج کی کال بھی مثبت اقدام ہے پورے ملک میں صحافی برادری تحریک انصاف کے کارکنان کی اس بے حسی پر سراپا احتجاج ہو چکی ہے اس لئے ضروری ہے کہ تحریک کے قائد عمران خان صحافتی برادری پر بے جا الزام تراشی چھوڑ کر کارکنان کو صحافیوں کے احترام کا درس دیں۔

ہمیں اپنے سینئر صحافیوں اور اس دنیا سے رخصت ہو جانیوالے صحافیوں کی صحافتی میدان میں ادا کی جانے والی خدمات پر فخر ہے اور ہم اپنے ان سینئر ز کے بتائے ہوئے راستے پر آج بھی عمل پیرا ہیں ۔
عمران خان اور انکے کارکنان کی جانب سے روا رکھے جانے والے رویئے صحافی برادری کو جگا دیا ہے اور اب صحافی اپنے ساتھ ہونیوالی کسی زیادتی کو برداشت نہیں کریں گے اور اس کے خلف سینہ سپر ہونگے اس لئے اب صحافی برادری کیساتھ کسی نا روا سلوک کے عزائم رکھنے والوں کو اپنا راستہ بدلنا ہوگا۔
Sardar Asghar Ali Abbasi
About the Author: Sardar Asghar Ali Abbasi Read More Articles by Sardar Asghar Ali Abbasi: 31 Articles with 24034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.