عوامی نمائندوں کی ترجیحات
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
کسی بھی جمہوریت پسند معاشرے میں
کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کی مقبولیت اور گرفت کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاتا ہے کہ وہ الیکشن میں کتنی سیٹ حاصل کرتی ہیں یا کتنے ووٹ لیکر
کامیاب ہوتی ہے۔ ان کے نتائج ان کی عوام پسندی چانچنے کا واحد پیمانہ ہوا
کرتے ہیں انتخابی نتائج ان کی پذیرائی اور عوامی نمائندگی کا آئینہ شمار
کئے جاتے ہیں۔یہ نتائج اس بات کافیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی جماعت گروہ یا
شخصیت کی سیاسی، بصیرت، رویے ،عوام دوست پالیسیاں اور منشور کس حدتک لوگوں
کے دل و دماغ میں گھر کررہا ہے اور یہ انتخابی نتائج ہی ہوا کرتے ہیں جو
کسی بھی سیاسی جماعت کی پالیسیوں اور منشور کو مسترد کرکے عدم اطمینان کا
اظہار کرتے ہیں۔لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام کے یہ فیصلے خود
ان کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں۔عوام اپنے فیصلوں پر پچھتاتے اور کف افسوس
ملتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر یہ سب اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب الیکشن اور اس
کے نتائج فیئر اور شفافیت پر مبنی ہوں۔ کچھ ایسا ہی پاکستان میں بھی ہوتا
رہا ہے اور فی الوقت بھی ہورہا ہے کہ وہ تمام عوامی نمائندے جوبظاہر عوامی
طاقت سے منتخب ہوئے ہیں ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ عوام کے اعتماد پر پورا
اترتے ہیں ان کے مسائل کے حل کیلئے کوشش کریں مزید پذیرائی اور مقبولیت
کیلئے عوام ریلیف دیں ان کو تعلیم، صحت، روزگار، ٹرانسپورٹیشن، سینی ٹیشن
جیسی بنیادی سہولیات کو مستقل بنیادوں پر مہیا کریں مگر ایسا شاذو نادر ہی
ہوتا ہے ۔ جیتنے کے بعد ان کے دعوی اور وعدے خواب ہوجاتے ہیں ان کی ترجیحات
تبدیل ہوجاتی ہیں انہیں سکولز اور کالجز میں پڑھانے والے اساتذہ اور تعلیم
حاصل کرنے والے طلبا و طالبات سے کوئی سروکار نہیں ان کا مطمع نظر وہ فنڈز
ہوتے ہیں جن کو ان کی صوابدید پر استعمال کرنا ہوتا ہے۔ان کی کبھی بھی
خواہش نہیں رہی ہوتی کہ کسی غریب ،مزدور ، دہقان ،کاشتکار یا مزارعہ کا
بیٹا بیٹی زیور تعلیم سے آراستہ ہو اور انہیں آنکھیں دکھائے ان کی ڈیرہ
داری اور اجارہ داری کو تعلیم کی تلوار سے کاٹ دے۔ان کی حتی الوسع کوشش
ہوتی ہے کہ اہل علاقہ کو جتنا زیادہ ناخواندہ، تنگ دست اور پست رکھا جائیگا
اتنا ہی ہمارا معیار اقتدار طویل ہوگا۔ ان کو کبھی کو خلش محسوس نہیں ہوتی
کہ کسی ہاری کا بیٹا باپ بھائی بہن ہسپتال میں ڈاکٹرز کی کمی اور ادویات کی
عدم فراہمی کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گیا ہے۔ عوامی نمائندوں کو کبھی
شرمندگی محسوس نہیں ہوتی کہ ان کے علاقے تعلیم صحت صفائی اور ذرائع آمد و
رفت کی سہولیات سے عاری ہیں۔
ہاں! انہیں اس وقت شدید کوفت، شرمندگی اور تذلیل محسوس ہوتی ہے کہ جس کسی
تھانے کا ایس ایچ اوان کی تابعداری نہ کرے ان کی چوکھٹ پر ناک نہ رگڑے۔ ان
کی ڈیرے کے چکر نہ لگائے۔ ان کے جائز و ناجائز کام نہ کرے بیگناہوں کو
گرفتار نہ کرے انہیں بہت برا لگتا ہے جب ایک تھانیدار میرٹ پر فیصلے کی بات
کرے۔جب کوئی ایس ایچ او ان کی مرضی اور منشا کے مطابق نہ ہوتو بہت بے چینی
اور بے سکونی محسوس ہوتی ہے ان کی رات کی نینداور دن کاسکون برباد ہوجاتا
ہے ان کی ترجیحات میں تھانہ کلچر پر گرفت سرفہرست ہوتی ہے کہ پہلے تو ڈی پی
اوزاور ایس ڈی پی اوز ان کے من پسندہوں یا کم از کم ایس ایچ اوز کو تو ان
کا تابع فرمان ہونا چاہئے۔مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے اس کی معتبر ذرائع سے
بھی تصدیق ہوگئی ۔ہمارے علاقے میں معاملات کچھ ایسے ہوئے کہ اوپر تلے ڈی
ایس پی اور ایس ایچ اوزآئی جی پنجاب کی ہدایات کی روشنی میں تبدیل ہوگئے
اور جوتعینات ہوئے وہ تمام کے تمام نئے اور غیر مانوس آگئے۔ ٹیلی فون اور
رقعہ پر کام ہونا بند ہوگئے سرداری ختم ہوتی محسوس ہوئی ۔ ڈی پی او کو گوش
گزار کیا کوئی شنوائی نہ ہوئی۔خفت اور سبکی بڑھتی جارہی تھی آخر کار وزیر
اعلی تک رسائی حاصل کی گئی۔وہاں پر اپنی اوقات کارونا رویا گیاکہ ڈی پی او
ہماری نہیں سنتا اس کو تبدیل کیا جائے وزیر اعلی نے اس معاملے پر جھنڈی
کرادی۔ بات ڈی ایس پی کے تبادلے کی ہوئی وہاں پر بھی معاملہ جوں کا توں
رہا۔ آخر کار بات یہاں پر ختم ہوئی کہ چلو ایک ایس ایچ او ہی تبدیل کرادیں۔
وزیر اعلی نے بھی محسوس کیا کہ اتنا تو ان کا حق بنتا ہی ہے لہذا ایس ایچ
او تبدیل کردیا گیا۔ گردنوں کا سریہ مزید تن گیا۔رعونت چہروں پر پھیل گئی
اور پھر بڑی نخوت سے اس واقعے کو یوں بیان کیا گیا کہ’’دیکھا کیسے چٹکی میں
ایس ایچ او تبدیل کرادیا‘‘ علاقے کے جاگیرداروں اور رسہ گیروں پر رعب بیٹھ
گیا کہ ’’جی بڑی پہنچ ہے‘‘ منٹوں میں ایس ایچ او تبدیل ہوگیا۔
یہ ہیں ہمارے عوامی نمائندے ، ان کی سوچ اور ترجیحات۔ جو کہتے ہیں کہ کچھ
ہوجائے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونی چاہئے۔ ملک کا دیوالیہ نکل جائے جمہوریت
ڈی ریل نہیں ہونی چاہئے۔ بجلی آئے نہ آئے گیس ملے نہ ملے جمہوریت ڈی ریل
نہیں ہونا چاہئے۔ تاجر اور آجیر بھوکے مریں ۔عوام مہنگائی کے طوفان بدتمیزی
سے بے حال ہوجائیں جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونی چاہئے۔صحت ملتی ہے نہیں ملتی۔
صاف پانی میسر ہو یا نہ ہو ،قحط سالی اور خشک سالی سے160 بچے مرتے ہیں تو
مرجائیں مگر جمہوریت کا طبل بجتا رہے۔ پی آئی اے،واپڈا، ریلوے ،تعلیمی
محکمے تنزلی کا شکار ہوجائیں تو کوئی پرواہ نہیں۔ان کے کرتا دھرتا ہمار ے
رشتہ دار اور اقربا ہی ہونے چاہئیں ۔ہمارا الو سیدھا ہو تاکہ جمہوری عمل
جاری و ساری رہے کیونکہ اسی جمہوری عمل نے ہی تو ان کے سیاہ و سفید کو
پروٹیکشن دینی ہے۔اس لئے کہیں کچھ بھی ہوجائے جمہوریت ڈی ریل نہ ہونا
چاہئے۔لیکن عوام کیلئے ان کی خواہشات کے مطابق حالات بھی تبدیل ہونگے صرف
اور صرف صحیح وقت کا انتظار کریں کیونکہ سویڈش فلاسفر کے مطابق ہماری زندگی
ٹریفک سنگل کی طرح ہے کیونکہ ہمارا ہر مسئلہ سرخ سنگل کی طرح ہے ہمیں صبر
کے ساتھ انتظار کرنا ہوگا اور بالآخر وہ سبزہوجائیگا۔ |
|