کپتان کے نام
(Dr.Ch.Abrar Majid, Kehroor Pakka)
خان صاحب اس میں کوئی شک نہیں کہ
لوگ آپ پہ بہت امیدیں رکھتے ہیں۔ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور بے انتہا اور
غیر مشروط کرتے ہیں کچھ تو اس حد تک آپ پر اعتماد رکھتے ہیں کہ کسی کی کچھ
نہیں سنتے کہتے ہیں بس جو کپتان نے کہ دیا ٹھیک ہے شاید اسی لیے آپ بھی جو
دل میں آتا ہے کہہ دیتے ہو۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ جو دوسری
سیاسی جماعتوں سے اختلاف رکھتے تھے یا ان کی پالیسیوں سے نا خوش تھے آپ کی
حمائت کر رہے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں پاکستان کی سیاست سے کوئی
دلچسپی نہ تھی اب آپ کے غیر مشروط طور پر حمائتی ہیں۔ خاص کر نوجوانوں کے
تو آپ پسندیدہ سیاستدان ہیں۔ وہ لوگ جو آزاد خیال تصور کیے جاتے ہیں
اورجدیدیت کے خواہاں ہیں بھی آپ کی امامت میں کھڑے ہیں۔ ہمارے بیرون میں
رہنے والے دوستوں کی کافی بڑی تعداد آپ سے جنوں کی حد تک محبت رکھتی ہے۔ یہ
لوگ جو کبھی مایوسیوں میں ڈوبے ہوئے تھے اب ایک ولولہ انگیز جزبہ سے لاشار
نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں نے آپ کو مینڈٹ دیا آپکو پارلیمنٹ میں بھیج دیا۔ آپ
نے کہا دھاندلی ہوئی یہ لوگ آپ کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے۔نہ دن دیکھتے ہیں
نہ رات دیکھتے ہیں چار مہینوں سے آپکے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ آپکی لغزشوں کے
باوجود آپ کو اور بلندیوں کی طرف لے کے جارہے ہیں۔ آپکی وکالت کرتے دکھائی
دیتے ہیں۔ آپ کی فرط محبت میں یہ پتا نہیں کیا کچھ ہی کہہ جاتے ہیں، میلوں
کی مسافت طے کر کے آتے ہیں، ناچتے ہیں ، جھومتے ہیں ، گاتے ہیں، لڑتے ہیں،
قربان ہوجاتے ہیں مگر کبھی ان کے چہرے پر تھکاوٹ نہیں دیکھی۔ کیا ہے کہ ان
کے سامنے ایک مقصد ہے ایک منزل ہے آپ سے ایک امید ہے جو ہر دم تروتازہ
رکھتی ہے اور ان کا جزبہ آپ کو بھی تازہ دم رکھے ہوئے ہے۔
آپ کی قائدانہ صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں ، آپکا خواب بھی بے مثال ہے آپ نے
اپنے خواب کی تکمیل کے لیے کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی، ۔ کافی حد تک کامیابی
بھی ملی مگر وہ تبدیلی جس کے خواہاں تھے ابھی نہیں ملی۔ آپ نے اپنے فیصلوں
پر کافی نظر ثانی بھی کی اور بہت سے مطالبات سے پیچھے بھی ہٹے جو کہ واقعی
قابل تحسیں ہے۔ لیکن پھر بھی اگر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی تو شاید
ضرورت ہو حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی۔ ایسی حکمت عملی ہو جو صرف اپنوں میں
ہی مقبول نہ ہو بلکہ جو مخالفین کے دلوں میں بھی گھر کر جائے، جو عوامی
امنگوں اور خواہشوں کے مطابق بھی ہو اور نتیجہ خیز بھی۔ جس کا محور صرف اور
صرف وہ تبدیلی ہو جو اس ریاست کو فلاحی ریاست بنا دے۔
نئی حکمت عملی میں سب سے پہلے تو میں کہوں گا کہ عوام کو وہ جوابات ملنے
چاہیں جن کے سوالیہ نشان ابھی باقی ہیں۔مثلا مخدوم جاوید ہاشمی کے اختلافات
اور ان کی وجہ بننے والے الزامات اور پھر کے پی کے ، کے عوام نے جو مینڈٹ
دیا تھا اور آپ پر مکمل اعتماد کرتے ہوے آپ کو ایک بھاری ذمہ داری سونپی جو
بہر حال آپ کے پاس موقع تھا کہ عوام کو جہاں تک صوبائی حکومت کا دائرہ
اختیار تھا اس حد تک ترقی اور تبدیلی کا ایک ماڈل پاکستانی عوام کے سامنے
پیش کرتے۔ اگر تو آپ اس میں کامیاب ہیں تو ڈیڑھ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر
ڈاکومنٹری رپورٹ عوام کے سامنے پیش ہونی چاہیے۔اسی طرح سے اگر کچھ لوگ
دوسری جماعتوں سے چھوڑ کر آپ کے ساتھ آرہے ہیں تو یہ ان کا جمھوری حق ہے
مگر ان کی وجوہات تو عوام کے سامنے آنی چاہیں اور کوئی نیا تجدید عہد تو
سامنے آنا چاہیے جو ریاست اور عوام کے ساتھ محبت کا ترجمان ہو اگر ایسے ہی
آپ قربانیا ں دینے والے نوجوانوں کو اٹھا کر پگوں والوں کو جگہ دیں گے تو
بہرحال سوال کرنے والے تو حق بجانب ہونگے کہ اگر وہی لوگ دوبارہ آرہے ہیں
تو تبدیلی کیسی؟ اصولی سیاست میں ان سوالوں کے جواب انتہائی اہم ہوتے ہیں۔
جو لوگ عمل پر یقین رکھنے والے ہوتے ہیں ان کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے
بہرحال ان سوالوں کا جواب ضروری ہوتا ہے۔
دوسری بات : گزارش ہے کہ نیا پاکستان کے سلاگن کے ساتھ اسلامی جمھوری
پاکستان کے لفظ بھی استعمال کئے جائیں اور پہلے والے تاثر کو بدل کر اسلامی
اور جمھوری اقدار سے مزیین تاثر دیا جائے تاکہ وہ عوامی حلقے جو اس بات سے
نالاں ہیں ان کو بھی ساتھ شامل ہونے کا موقعہ ملے ۔ اور جمھوریت کا تقاضہ
پورا کرتے ہوئے جو عوامی مینڈٹ کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں
بہرحال ان کا احترام لازم ہے۔ وہ بھی تو عوامی نمائندے ہی ہیں۔
تیسری بات : بے شک اصل سر چشمہ طاقت عوام ہی ہوتے ہیں اور عوامی رائے بھی
کافی ہموار ہو چکی اور اب جلسے جلوس چھوڑ کر پارلیمنٹ کا رخ کیا جائے ،
عوامی نمائندوں کو پارلیمنٹ کے اندر بھیجا جائے ،جو حقیقی تبدیلی لانے کی
جگہ ہے۔ اگر عوامی پریشر کو آپ ڈویلپ رکھنا ہی چاہتے ہیں تو علامتی طور پر
ڈی چوک میں آپ اسے دھرنے کے طور پر رکھ سکتے ہیں اور مذاکرات کے عمل کو آگے
بڑھا سکتے ہیں اور پھر آپکا یہ مطالبہ کہ جب تک جائز اور جمھوری مطالبات
پورے نہیں ہوتے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا اصولی اور اہمیت کا حامل ہوگا ۔
اور اس طرح آپ عوامی پریشر بھی رکھ سکتے ہیں اور اپنی روزانہ کی بنیا د پر
کارکردگی رپورٹ بھی ان کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح بعض حلقوں میں جلوسوں
سے جو ترقی کی راہ میں رکارٹ کے خدشات ہیں نہ صرف وہ دور ہوں گے بلکہ وہ
لوگ جو ہر تبدیلی آئینی حدود کے اندر رہ کر لانے کے اصولی خیال پر کاربند
ہیں او ر تبدیلی آتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، بہرحال وہ بھی اس ریاست کے
شہری ہیں ان کی خواہش کا بھی احترام ہوگا اور عوامی مینڈٹ کا بھی۔ اس طرح
میں سمجھتا ہوں کہ آپ وہ تمام مقاصد جو عوامی فلاح اور اصولی تبدیلی کے ہیں
پورے کر سکتے ہیں۔ اور عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کا بھی آپکو موقعہ مل
سکتا ہے۔
چوتھی بات: سیاست تو ایسی خدمت کا نام ہے جس میں عوامی خواہشات اور امنگوں
کے مطابق حتی الوسع کوشش کرکے ریاست کے اندر بہتری لائی جائے ۔ اور یہ
کوششیں تفویظ کردہ حکومتی ذمہ داریوں کے ساتھ یا اپوزیشن میں رہ کر عوامی
امنگوں اور خواہشات کی تکمیل کو یقینی بننے کی کوششوں کے ساتھ عمل میں لائی
جا سکتی ہے۔
سیاست ایک سمندر ہے اور سیاسی پارٹیاں ان بحری بیڑوں کی مثال ہوتی ہیں جن
کا کام خدمات کی ترسیل ہوتا ہے۔ ان کو سرکاری خدمات ملیں یا نجی وہ اپنی
خدمات کی ترسیل میں ایک مثبت مقابلہ کے ساتھ عمل پیرا رہتے ہیں ۔ ان کے
کپتان اور دوسرے ساتھی اپنی اپنی زمہ داری کے مطابق اپنے اپنے کام میں
باہمی ہم آنگہی کے ساتھ عمل پیرا رہتے ہیں۔ ہر ایک کی خدمات قابل تحسین
ہوتی ہیں۔ اس طرح سیاسی پارٹیاں بھی خواہ حکومت کے اندر ہوں یا عوام کے
اندر ان کا کام عوامی خدمت ہوتا ہے اور وہ عوامی امیدوں اور امنگوں کے
مطابق سر انجام دیتی رہتی ہیں اگر اپو زیشن میں ہوں تو بھی ان کی مثبت
سرگرمیاں قابل تحسیں ہوتی ہیں ۔ وہ حکومت کی اچھی پالیسیوں کی حمائت کرتی
ہیں اور اگر پالیسیاں غیر پسندانہ ہوں تو آئینی حدود کے اندر رہ کر ان کی
تصیح میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح وہ جماعتیں جو پارلمنٹ میں
نمائیندگی نہیں حاصل کر پاتیں وہ بھی خدمت کا کام اپنی بساط کے مطابق جاری
رکھتی ہیں۔ صحیح عوامی اور قومی سیاسی جماعتوں کی اصلی مقصود منزل عوامی
خدمت ہی ہوتا ہے نہ کہ اقتدار کا حصول اگر عوام ان کو ذمہ داری سونپ دیں تو
قانونی اور آئینی حدود میں رہ کر خدمات کی ترسیل میں لگی رہتی ہیں۔ |
|