تختِ لاہور پر دھاوا
(Tariq Hussain Butt, UAE)
پاکستان میں اس وقت تبدیلی کی جو
جنگ جاری ہے اس کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔حکومت اس تبدیلی کو
ہر صورت میں روکنا چاہتی ہے جبکہ تحریکِ انصاف اسے ہر قیمت پر برپا کرنا
چاہتی ہے۔ پاکستانی سیاست کے سارے فعال حلقے اس وقت حکومتِ وقت کے ساتھ
کھڑے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی نہ۰ کسی انداز میں تبدیلی کی یہ آواز
صدا بصحرا ثابت ہو تا کہ ان کی لوٹ مار کی روش قائم و دائم رہے۔۱۴ اگست سے
شروع ہونے والی اس مخا صمت میں فی الحال کوئی افاقہ دیکھنے میں نہیں
آیا۔کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ موسم کی شدت اور دوسرے غیر یقینی عوامل کی
وجہ سے تبدیلی کی یہ تحریک آپنی موت آپ مر جائے گی اور یوں تحریکِ انصاف کی
سیاست اپنے ہاتھوں خود ہی خود کشی کر لے گی لیکن ان کی یہ آرزو حسرت میں
بدل چکی ہے کیونکہ تحریکِ انصاف نے نئے جذبوں اور نئی حکمتِ عملی سے حکومت
کو بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کر دیا ہے۔۔ حکومت کی بڑی کوشش تھی کہ تحریکِ
انصاف کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ طے کر لیا جائے جیسا معاملہ عوامی
تحریک کے قائد علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ کیا تھا لیکن ایسا ہو نہیں
سکا۔یہ سچ ہے کہ عوامی تحریک کے منظر سے ہٹ جانے سے پاکستان تحریکِ انصاف
کو بڑا ضعف پہنچا تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تحریکِ انصاف کی نئی حکمتِ عملی
نے اسے نیا عزم عطا کیا ہے اور جب عزم کسی بھی تحریک کی بنیاد بن جائے تو
وہ تحریکیں کبھی ناکامی سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔اسلام آباد کے آزادی چوک سے
جلسوں اور پھر دھر نو ں کی جانب رجوع نے تحریکِ انصاف کو نئی توانائی عطا
کر دی ہے۔علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا اٹھا لینے سے جو نقصان تحریکِ
انصاف کو پہنچا تھا اس نے حکومت کی گردن میں سریا ڈال دیا تھا اور حکومت
نحوت اور تکبر پر اترآئی تھی۔ٹیلیویژن پر حکومتی ترجمانوں کی زبانیں آگ
برسا رہی تھیں اور ان کی باتوں سے تمسخر اور حقارت کا اظہار ہوتا تھا۔وہ
اپنے تئیں یہ سمجھ رہے تھے کہ تبدیلی کے جن سے ان کی جان چھوٹ گئی ہے لہذا
ان کے رویے بدل گئے ۔ تحریکِ انصاف کے چیرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری
اسی سوچ کے عکاس تھے لیکن عمران خان نے ہر شہر میں خود جانے کی حکمتِ عملی
اپنا کر پوری بساط کو ہی الٹ دیا ہے۔کراچی فیصل آباد اور پھر لاہور میں
تحریکِ انصاف نے جس بھرپور طریقے سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے
حکومت کے اوسان خطا ہو گئے ہیں۔حکومتی ترجمان بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں
اور دلائل کی جگہ اوچھے الزامات پر اتر آئے ہیں۔ان سے کچھ نہیں بن رہا تو
یہ الزام لگاتے پھر رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف بھگوڑوں کا ٹولہ ہے اور اس کے
سارے بڑے راہنما دوسری جماعتوں سے آئے ہیں۔جماعت بدلنا تو ہر شخص کا بنیادی
حق ہے اور اگر کوئی شخص کسی جماعت کو چھوڑ کر نئی جماعت میں شامل ہو
ناچاہتا ہو تو اس میں اعتراض کی کونسی بات ہے۔پی پی پی کے ا کثر قائدین
مسلم لیگ اور جماعت اسلامی سے آئے تھے کیونکہ اس زمانے میں مسلم لیگ اور
جماعت اسلامی ہی ملک کی سب سے بڑی اور فعال جماعتیں ہوا کرتی تھیں ۔ذولفقار
علی بھٹو خود کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے اور مولانا کوثر نیازی
جماعت اسلا می سے وارد ہوئے تھے لہذا یہ کہنا کہ دوسری جماعتوں سے نکل کر
نئی جماعت بنانے والے اپنے پروگرام اور منشور سے مخلص نہیں ہوتے حقائق کا
منہ چڑانے کے مترادف ہے۔حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اس کے اپنے ترجمان رانا
ثنا اﷲ،عظمی بخاری،سمیع اﷲ اور پرویز رشید پی پی پی سے بھاگے ہوئے ہیں جبکہ
ماروی میمن،دانیال عزیز اور طارق عظیم جنرل پرویز مشرف کے مصاحبین میں شمار
ہوتے تھے اور میاں برادران کے خوب لتے لیتے تھے لیکن حیرا ن کن بات یہ ہے
کہ آجکل وہ حکومت کے دفاع میں پیش پیش ہیں اور سب سے بڑے حکومتی ترجمان بنے
ہوئے ہیں اورچیخ چیخ کر حکومت کی وکالت کر رہے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے وہ
کبھی پی پی پی اور جنرل پرویز مشرف کی وکالت کیا کرتے تھے۔
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ لاہور کی تاریخ نے کبھی اس طرح کا احتجاج دیکھا ہو
گا ۔مجھے پاکستان قومی اتحاد کی تحریکیں بھی یاد ہیں،مجھے میاں برادرا ن کی
تحریکوں کی بھی خبر ہے میں پی پی پی کے احتجاج سے بھی با خبر ہوں ،مجھے
محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپریل ۱۹۸۶ میں آمد کے بعد اس تحریک سے بھی آگا ہی
ہے جو اس نے جنرل ضیاالحق کے خلاف شروع کی تھی اور جسے میاں محمد نواز شریف
اور جنرل ضیا الحق کے آہنی ہاتھوں نے بڑی بے رحمی سے کچل دیا تھا۔پاکستان
قومی اتحاد کی تحریک اس پہلو سے بالکل منفرد تھی کہ یہ نو جماعتوں کے اتحاد
کی تحریک تھی اور ملک کی ساری قابلِ ذکر جماعتیں پی پی پی کے خلاف متحد ہو
گئی تھیں۔اگر یہ کسی ایک جماعت کا احتجاج ہوتا تو شائد اس کا موازنہ کرنے
کی ضرورت پیش آتی،یہ تو اینٹی بھٹو تحریک تھی اور بالکل علیحدہ نوعیت کی
تحریک تھی۔اس تحریک کے دوران ۲۲ اپریل ۱۹۷۷ کو پہیہ جام ہڑتال کی کال ایک
ایسا وار تھا جس سے پی پی پی کی حکومت سنبھل نہ سکی تھی اور اس کے زوال کے
آثار نمایاں ہو گئے تھے ۔اس دن واقعی ہر قسم کا پہیہ جام ہو گیا تھا ۔ یہ
سچ ہے کہ اس روز دوکانیں کھلی ہوئی تھیں اور کاروبارِ زندگی بھی جاری تھا
لیکن پہیہ جام تھا جس سے عوام کو آمدو رفت میں انتہائی دشواری کا سامنا
کرنا پڑا تھا۔ یہ پہیہ جام صرف لاہور تک محدود نہیں تھا بلکہ پورا ملک اس
کی لپیٹ میں تھا۔پاکستان تحریکِ نصاف نے پہیہ جام نہیں کیا بلکہ کارو بارِ
زندگی معطل کیا ہے اور اس بھر پور انداز میں کیا ہے کہ اس کی مثال ملنا
ناممکن ہے کیونکہ پاکاتان قومی اتحاد نے پہیہ جام کیا تھا کارو بار بند
کرنے کی اپیل نہیں کی تھی۔یہ دونوں الگ نوعیت کے احتجاج تھے لیکن اپنی اپنی
جگہ دونوں بھر پور تھے۔شہر میں ہر سو تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے اپنا سکہ
جمایا ہوا تھا اور جو کوئی بھی ان کی راہ میں مزاحم ہوا اسے پسپا ہوناپڑا ۔اس
دن واقعی ایسے لگ رہا تھا کہ لاہور اب میاں برادران کے ہاتھوں سے نکلے جا
رہا ہے۔شہر میں داخلے کے سارے راستے دھرنوں کی وجہ سے بندتھے جس سے عام
شہریوں کو بھی کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔عمران خان کی آمد ہی وہ مقنا
طیس تھا جس نے اس شہر میں تبدیی کی خوا ہش رکھنے والوں کا یکجا کیا ہواتھا
۔عمران خان کی عدم موجودگی میں شائد تحریکِ انصاف بھر پور طاقت کا مظاہرہ
کرنے سے قاصر رہتی۔عمران خان کی ذات اس وقت پورے پاکستانیوں کی امیدوں کا
مرکز بن چکی ہے لہذا اس کی آمد پر لاہوریوں کا اس کے گرد جمع ہو جانا فطری
تھا اور ایسا ہی ہوا۔،۔
یہ سچ ہے کہ حکومتیں اپنے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک
روا رکھتی ہیں جیسا سلوک جنرل ضیا الحق اور اس کے حواریوں نے رکھا تھا۔یہ
تو پی پی پی کی خوش قسمتی تھی کہ جنرل ضیا الحق ۱۷ اگست ۱۹۸۸ کو طیارے کے
حا دثے میں اس جہانِ فانی سے ر خصت ہو گئے اور پی پی پی کیلئے اقتدار کا
راستہ آسان ہو گیا وگرنہ جنرل ضیا ا لحق کے ہوتے ہوئے پی پی پی کے لئے
اقتدار کے خواب دیکھنا نا ممکن تھا۔میاں برادران اور جنرل ضیا الحق کا
باہمی گٹھ جوڑھ جمہوریت ،انسانی آزادی اور اس کی اقدار پر ایسا گھناؤنا وار
تھا جس سے پوری قوم بلبلا اٹھی تھی لیکن وہ پھر بھی اقتدار کی مسند چھوڑنے
کے لئے تیار نہیں تھے ۔پی پی پی کی جدو جہد چونکہ ایک پر امن،انصاف پسند
اور جمہوری معاشرے کے قیام کی خاطر تھی اس لئے عوام نے اس تحریک کا بھر
پورساتھ دیا تھا اور قربانیوں کی ایسی تاریخ رقم کی تھی جس تک پہنچنا کسی
بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں کیلئے ممکن نہیں ہے۔وہ ایک ناقابلِ یقین جدو
جہد تھی جس کی مثال تلاش کرنا ناممکن ہے۔عمران خان کی تحریک اور عوام کا
جوش وجذبہ اپنی جگہ انتہائی اہم ہے لیکن اس کا مقابلہ پی پی پی کے کارکنوں
کی قربانیوں سے کسی بھی صورت میں نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ چیزے دیگری
تھا۔وقت کا ستم تو دیکھئے کہ وہ جیالے جن کی قربانیوں سے اقتدار کے ایوانوں
میں زلزلہ بپا ہو جاتا تھا ۔آج اس جماعت کی قیادت اسی جنرل ضیا الحق کے
سیاسی جانشین کے ساتھ شانہ سے شانہ ملا کر کھڑی ہے ۔پی پی پی کی قیادت شائد
اس بات کو فرا موش کر چکی ہے کہ جماعتیں اپنے ا درشوں اور ااصو لو ں پر
قائم رہتی ہیں اور جب کوئی جماعت اس سے چشم پوشی کرتی ہے تو اس کا نام و
نشان مٹ جاتا ہے۔پی پی پی کے پاس اب بھی مراجعت کی گنجائش ہے لیکن اگر اس
نے اپنا موجودہ رویہ نہ بدلا تو اسے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھا پڑے گا۔،۔ |
|