سانحہ پشاور...!! میری قوم کی آنکھوں سے اُمیدوں کی چمک کس نے اور کیوں چھینی... ؟؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
اَب حکمرانوں اورسیاستدانوں
ایبکی مار کے دیکھ کا فارمولا نہیں چلے گا...؟؟؟
سولہ دسمبر2014کوجب میری پاکستانی قوم 1971میں پیش آنے والے سانحے سقوط
ڈھاکہ کے 48ویں یوم سیاہ کی یادیں تازہ کررہی تھی اوراپنی غلطیوں اور
خامیوں پرکفِ افسوس تھی کہ اِسی روز مُلک دُشمن عناصر اور ہماری آسینوں کے
سانپوں(طالبان /ظالمان) نے اپنی وحشیانہ دہشت گردی سے میری پاکستانی قوم کو
ایک اور ناقابلِ یقین سانحے سے دوچارکردیااِس روز دہشت گردو ں نے پشاور کے
ورسک روڈپر واقع آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیااور میری قوم کے 132پھول جیسے
معصوم بچوں کو اپنی اندہولناک دہشت گردی کا نشانہ بناکرمیری قوم کی سیکڑوں
ماؤں کی گودیں اُجاڑدیں (اور 10سے زائد اسکول اسٹاف جن میں پرنسپل و ٹیچرز
اور دیگر عملہ بھی شامل تھا اِنہیں بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا کراِن کے
کئی بچوں کو اپنی ماؤں اور باپ کی شفقت سے بھی محروم کردیا اور اسکول کے
بہت سے معصوم طالب علموں کو شدیدزخمی کردیا)تو وہیں اِن دہشت گردوں نے میری
قوم کی آنکھوں سے اُمیدوں کی چمک بھی چھین لی اورمیری قوم کوایک ایساسیاہ
ترین دن دے دیاکہ اَب میری قوم اور میری نوجوان نسل اِس بدترین دن کو
تاقیامت نہیں بھول پائے گی اور آج سانحہ پشاور پرمیری پاکستانی قوم کے
ہرفرد آنکھ اشکبار ہے جس پرمیری قوم یہ سوال کررہی ہے کہ اِس کی آنکھوں سے
اُمیدوں کی چمک کس نے اور کیوں چھینی ہے...؟؟کیااِس کی جنگ اِن معصوم بچوں
سے تھی...؟ جوآرمی پبلک اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے..؟اگریہ دہشت
گرداتنے ہی بہادرتھے تو اِنہیں معصو م بچوں کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنے
برابر کی طاقت والے سے مقابلہ کرناتھاپھر پتہ لگ جاتاکہ کیسے اِن خبیث دہشت
گردوں کی بہادری خاک چاٹتی نظر آتی ...جاؤ...جاؤ خبیثوں ...جاؤ آج تمہارے
اِس کئے کا فیصلہ قوم اپنے خداپر چھوڑتی ہے اَب روزقیامت ہی خُدااِن دہشت
گردوں سے پوچھے گاکہ اِن دہشت گرد کُتوں نے میرے دیس کے پھول جیسے معصوم
بچوں کو کیوں اپنی دہشت گردی کانشانہ بنایا...؟اور اِنہیں ماؤں کی گودوں سے
چھین کر قبرکی آغوش میں دے کر قیامت تک کے لئے کیوں ابدی نیندسُلادیا.. ؟؟
بہرحال ...!!آج جہاں سانحہ پشاور نے میری قوم کی آنکھوں سے اُمیدوں کی چمک
چھین لی ہے تو وہیں میری قوم کے ہر فرد نے اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور
قومی اداروں کے سربراہ سے بھی ہاتھ جوڑ کراور اپنی جھولیاں پھیلاکر انتہائی
مودبانہ انداز سے یہ درخواست و اپیل کردی ہے کہ اَب سانحہ پشاور کے بعدقوم
کسی بھی ایسے سیاہ ترین دن کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے کہ جس سے میرے دیس کے
معصوم اور نہتے اِنسانوں کے مقدس خون سے سرزمین پاکستان کا زرہ زرہ تر
ہوجائے اور میرے دیس کے لوگوں کے کاندھے اپنے پیاروں کے لاشوں کو
کاندھادیتے دیتے تھک کر چُورچُورہوجائیں اورمیری دیس کی ماؤں کی گودیں
اُجڑجائیں، بہنیں بھائیوں سے محروم ہوجائیں، میرے دیس کے معصوم بچے اپنے
ماں اورباپ کی شفقت اور اِن کے سائے سے محروم ہوجائیں،میرے دیس کی بیویاں
بیوہ ہوجائیں ، گھراُجڑجائیں اور قبرستان آباد ہوجائیں،دہشت گردتومیرے گاؤں
گاؤں اورمیرے شہر شہر دہشت گرددندناتے پھریں اور محب وطن پاکستانی جان کی
امان کے خاطر ڈرے سہمے رہیں اور کونوں کُدھروں میں چھپتے پھریں ا ور دہشت
گردوں کی دہشت گردی سے میرے مُلک کی ترقی اور خوشحالی کا سلسلہ ختم ہوکررہ
جائے ، لہذا...اَب قوم اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں اورقومی اداروں سے کہتی
ہے کہ براہ کرم ...!!اَب سانحہ پشاور کے بعد ’’ ایبکی مارکے دیکھ کا
فارمولانہیں چلے گا‘‘ ۔
اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ آج سانحہ پشاور نے پچھلے چار ماہ سے بکھری ہوئی سیاسی
قیادت کو متحد اور منظم کردیاہے اور ساری پاکستانی قوم مُلک سے دہشت گردی
کے خاتمے کے لئے ایک پیچ پر نظر آرہی ہے ، پشاور کے سانحے کے پیش نظر
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے بھی خود کو قابلِ اعتبار اور
قابلِ بھروسہ رہنماء ثابت کرتے ہوئے تُرنت ہی اپنا چارماہ کر دھرنا ختم
کرنے کا اعلان کرکے مُلکی تاریخ میں ایک مثبت اور تعمیری سیاست کی بنیاد
رکھ دی ہے اور ساتھ ہی اُنہوں نے مُلک سے دہشت گردی کے خلاف حکومت سے مکمل
تعاون کا اعلان بھی کردیا اور یہ بھی حکومت اور قوم کے سامنے واضح کردیاہے
کہ اختلاف اپنی جگہہ مُلک کو اِس وقت اتحاد کی ضرورت ہے اور وقت کا تقاضاہے
کہ اپوزیشن نہ کی جائے آج یہی وہ لمحہ ہے ، جس نے قوم کو ایک نئی جِلابخشی
ہے اور اَب اِسے یہ احساس بھی ہوگیاہے کہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کا مُلک
سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک پوائنٹ ایجنڈے پر باہم متحد و منظم ہونا
اپنی نیم مُردہ قوم کو پھر زندہ کردے گا ،اور جب قوم نے سانحہ پشاور پر
اپنے حکمرانوں اور مُلک کی تمام پارلیمانی پارٹیزرہنماؤں کی کانفرنس میں
اپنے کرتادھرتاکو ایک ساتھ بیٹھادیکھاتو اِسے اطمینان ہواکہ اَب گڈگورنرس
میں بہتری آئے گا اور پھر نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ ساری دنیا نے بھی سُنا
، دیکھا اور پڑھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردوں کے لئے سزائے موت پر
عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا اور واضح کردیاکہ آج کے بعد سے
اچھابُراکوئی نہیں طالبان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی یقینی ہوگی اور
وزیراعظم کا قومی سیاسی قیادت کے اجلاس میں یہ کہنا تاریخی اہمیت
اختیارکرگیاہے کہ’’دہشت گردی کے خلاف ایکشن پلان بناے کا فیصلہ ہر حال میں
کرناہے،دہشت گردوں کو پھانسیاں دیں گے، ہمیں اپنے ننھے بچوں کے گولیوں سے
چھلنی چہروں کو سامنے رکھتے ہوئے جنگ جیتناہے،اور یوں وزیراعظم نواز شریف
نے اپنی زیرصدارت منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں وزیرداخلہ کی سربراہی میں
تمام جماعتوں اور سیکیورٹی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنانے کا بھی اعلان کیا
جو مُلک سے دہشت گردی ختم کرنے کا ایک ایکشن پلان تیار کرے گی ، جس کا
پہلاہنگامی اجلاس 19دسمبر کوہوگیاہے اور اِس میں آل پارلیمانی پارٹیز کے
پیش کردہ نمائندوں کے ناموں کو حتمی قراردے دیا گیاہے اوراَب جلداجلاسوں کے
سلسلے جاری ہوجائیں گے اور مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پیش کردہ
تجاویز کی روشنی میں ایسے سخت ترین اقدامات اور قوانین وضع کئے جانے کی
اُمیدہے جس سے مُلک جلد ہی دہشت گردی سے پاک ہوجائے گا اور اپنی ترقی و
خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوکر دنیا میں اپنا وہ مقام پالے گا جس کی اِسے
مدتوں سے تلاش تھی۔
جبکہ یہ انتہائی خوش آئند امرہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے دہشت گردوں کے لئے
زرداری دور میں سزائے موت پر عائدپابندی ختم کرنے اور ہمارے سپہ سالار اعظم
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فوجی عدالت سے6خطرناک ترین مجرموں کو سُنائی
گئی سزائے موت کے دیتھ وارنٹ پر دستخط کرکے ساری پاکستانی قوم کی دلی
آرزوپوری کردی ہے اور قوم کے نیم مُردہ جسم میں زندگی کی روح پھونک دی
ہے،جس پرپاکستانی قوم پُراُمیدہے کہ وزیراعظم اور سیاسی جماعتوں کے رہنما
سیاسی و ذاتی مصالحتوں سے پَرے ہٹ کر پاک فوج کو دہشت گردوں سے نمٹنے کا
مکمل اختیاردیں گے تاکہ مُلک دہشت گردی سے آزادہو۔ |
|