ٹویلو سکسٹین (Twelve sixteen)

ٹویلو سکسٹین ہم پر قیامت بن کر ٹوٹا۔ ہمارے وہ نرم و نازک شگوفے جن کی لطافت اور جوشبو ہمارے جسموں کی ترو تازگی اور ہمارے چہروں کی رعنائی تھی ۔ جن کی تاب سے ہمارے لہو روان تھے۔ جو ہمارے جینے کی ایک امید اور مرنے کا حوصلہ تھے کچھ اس طرح سے ہم سے جدا ہوئے کہ کبھی نہ بھرنے والے زخم دے گئے۔ایسے زخم ہیں جو ہر صبح پھر سے تازہ ہونگے ہر سہ پہر کو پھر خون رسنا شروع کر دینگے۔ ہر رات کو کروٹوں میں یہ دوبارہ کچلے جائیں گے۔ آنسوؤں اور پچھتاوئے کے علاوہ ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا ہے۔
کاش یہ صبح آتی ہی نہ!
سورج نکلنے سے پہلے ہی ڈھل جاتا

قوم سسکیوں اور آہوں میں اپنے لخت جگروں کا سوگ منا رہی ہے اور اس سوگ کا مقصد وارثان کے ساتھ اظہار ہمدردی اور ان کے غم میں برابر کی شرکت ہی نہیں بلکہ ر ان کو یہ باور کرانا ہے کہ آپ اکیلے نہیں اور یہ صرف آپکے بیٹے اور بھائی نہیں تھے بلکہ ہم سب کے تھے اور اس عزم کا اعادہ ہے کہ پوری قوم اب اس دہشتگردی کے قلہ قمہ کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ ملک پھر سے امن کا گہوارہ ہوگا۔

شہید تو زندہ ہوتے ہیں۔ ہاں قرآن کہتا ہے شہید زندہ ہوتے ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے۔ یقینا ان کو شعور نہ ہوگا جنہیں قرآن مخاطب ہو کر کہ رہا ہے۔ مگریہ ٹویلو سکسٹین کا واقعہ ہماری قوم کا شعور اجاگر کر گیا ہے اور قوم اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک ہو گئی ہے اور اس عزم کے ساتھ کہ دہشت گردی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس سے پوری قوم کو اکٹھے مل کر نمٹنا ہوگا۔ ہمارے شہیدوں کی روحیں بھی اپنی قوم کے اس جزبہ عزم پر تسکیں محسوس کر رہی ہونگی۔اب یہ قوم اپنے دشمنوں کو پہچان گئی ہے اور جو ایسے ہیں وہ اپنے ہو نہیں سکتے اور جو اپنے ہیں وہ ایسا کرنے کا کبھی سوچ نہیں سکتے۔

اس قوم کی تاریخ ایسی ولولہ خیز اورروح پرور داستانوں سے بھری پڑی ہے کہ جب یہ دشمن کو للکار کر میدان میں آتی ہے تو سیسہ پللائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے اور اس کے جوان سینوں کے ساتھ بم باندھ کر دشمنوں کی صفوں میں گھس جاتے ہیں۔ ان کا پلٹنا اور جھپٹناآج بھی بے مثل ہے ۔ یقینا دشمن اس قوم کے جزبہ سے خائف ہو چکا ہوگا۔ہمیں جب بھی نقصان پہنچایا اپنوں نے پہنچایا مگر اب قوم اس طرح متحد ہوچکی ہے کہ اس میں دراڑوں کی کوئی گنجائش اس نے باقی نہیں چھوڑی۔ہماری فوج پہلے بھی اپنی دھرتی کو ایسے عناصر سے پاک کرنے میں کئی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہے اور یہ آرمی سکول پر حملہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری فوج دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے اور یہ بزدلانہ کاروائی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ معصوم جانوں کا ضیاع فوج سے بدلہ چکوانے کی ایک کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ اب پوری قوم ماضی کی مثالوں کو زندہ کرتے ہوئے فوج کے ساتھ ہے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔اس عزم کے ساتھ کہ یہ ہماری سب کی جنگ ہے اور ہم سب نے اکٹھے مل کر لڑنی ہے
آج تیری تو کل میری باری ہے
موت تو سبھی کو آنی ہے
سورج صبح کو اگتا ہے تو شام کو ڈھل جاتا ہے
ختم ہونے کے لیے پیدا ہونا ! یہ ریت تو پرانی ہے

ٹویلو سکسٹین ہماری سوچ کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کے حالات کو بھی بدل کر رکھ دے گی۔ ٹویلو سکسٹین کا ڈیجٹ اس لحاظ سے بھی نمایاں ہے کہ ہمارے زیادہ تر شہداء ٹویلو اور سکسٹین کے درمیان تھے اور یہ عمر یقینا داستانیں رقم کرنے کی ہوتی ہے۔ اور ان شہداء نے جرات کی داستانیں رقم کیں۔آپ سب نے یقینا میڈیا پر ان عالی حوصلہ نوجوانوں کی باتیں تو سنیں ہونگی کہ انہوں نے نہتے کس طرح اس ظلم و بربریت کا جرات اور دلیری سے کیا۔ موت کی آغوش میں بھی طاہرہ قاضی بچوں کو محفوظ کرنے میں مصروف رہی اور والدین کو اطلاع دیتی رہی۔
یہ موت تو آنی جانی ہے اس موت کی کیا پرواہ کرنا
جس نہج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہنی ہے

یقینا طاہرہ قاضی کو تاریخ تمغہ جرات سے نوازے گی۔ اور ہمارے شہیدوں کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ ایسے میں ان کی جرات کو خراج تحسین کے طور پر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ٹویلو سکسٹین کو دہشت گردی کے خلاف اطلاع اورفوری امداد کے نمبر کے طور پر مخصوص کر دیا جائے۔اور پورے ملک میں اس نمبر کو تمام دہشت گردی کے خلاف مصروف عمل فورسز اور ایجنسیز کے ساتھ فوری رابطہ کا نیٹ ورک بچھا دیا جائے ۔اور ہم ہر سال اپنے شہیدوں کو اس روز خراج تحسیں تو پیش کیا ہی کریں گے۔ اس طرح ہمارے شہیدوں کی جرات کو خراج تحسیں پیش ہوتی رہے گی۔

اب حکومت اور تمام سیاسی اور پارلیمانی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھی ہیں اور یقینا وہ کسی ٹھوس اور جامع حکمت عملی پر پہنچ جائیں گے۔ اب ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تمام نوجوانوں کو ایسی ٹریننگ دے دیں کہ ہنگامی صورتحال سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔ اور ہم سب کو چاہیے کے اپنے ارد گرد کے ماحول پر کڑی نظر رکھیں اور اگر کوئی مشکوک شخص یا مشکوک سامان دیکھیں تو فوراً اس کی متعلقہ اداروں کو اطلاع دیں اور خود نہ صرف محفوظ رہنے کی کوشش کریں بلکہ دوسروں کی راہنمائی بھی کریں۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے شہروں کی آبادیوں کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیں اور اس بارے میں حکومت کو چاہیے کہ اپنی ترقیاتی پالیسیوں کا رخ زیادہ سے زیادہ دیہاتی علاقوں کی طرف کریں تاکہ لوگ شہروں کا رخ کرنے کی بجائے دیہاتی علاقوں میں رہنے کو ترجیح دیں۔
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 115261 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More