ایک اور 16دسمبر

16دسمبر 1971کو ہمارا ملک دولخت ہوا تھا اور 16دسمبر 2014 کوپشاور میں ہمارے 141لخت جگر ہم سے چھین لیے گئے ۔اس سانحے کے لیے اسی تاریخ کا انتخاب کیوں کیا گیا ،شاید ہمیں یہ پیغام دیناہو کہ 1971والا سولہ دسمبر ہمارا پہل حدف تو ہو سکتا ہے لیکن یہ آخری حدف نہیں ہے۔پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو اپنے دشمنوں کی طرف سے ہونے والی دہشت گردی کے خدشوں کا ہر وقت شکار رہتا ہے ،اور پھر عالمی اور مغربی میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے ۔بھارت میں کوئی بھی حادثہ ہوتا ہے وہ پہلی فرصت میں پاکستان پر اس کا الزام عائد کردیتا ہے اور پھر پوری دنیا میں اس کی تشہیر کرتا ہے ۔اب تک بھارت میں جتنے دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں اس میں پہلے تو پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا لیکن جب تحقیق سے ثابت نہ ہو سکا تو خاموشی اختیار کر لی گئی۔ پشاور کے اسکول میں جن معصوم بچوں کو دہشت گردوں نے اپنی وحشت کا نشانہ بنایا ہے وہ کسی بھی طرح مسلمان تو دور کی بات ہے انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں ہیں ۔اس وقت پاکستان ہر طرف سے مصیبتوں اور آزمائشوں کا شکار ہے ۔ہماری جمہوری حکومت عسکری فیصلوں کی پابند حکومت ہے یہ فوج کے کیے ہوئے تمام فیصلوں کو اون کرتی ہے اور اس کی ذمہ داری بھی اٹھاتی ہے آپریشن ضرب عضب میں ہماری فوج کامیابی کے مراحل طے کرہی ہے اور ابھی حال ہی میں فوجی قیادت یہ فیصلہ کرنے جا رہی تھی کہ ان آئی ڈی پیز کو ان کے اپنے علاقوں میں واپس بھیج دیا جائے ،دوسری طرف افغانستان میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے امریکی فوج کی واپسی کا سال ہے امریکا اس واپسی کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں اپنا وجود برقراررکھنا چاہتا ہے اس کام کے لیے وہ بھارت کے لیے افغانستان میں زیادہ سے زیادہ گنجائش(space)دینا چاہتا ہے ۔بھارت اس موقع سے دیگر فوائد بھی حاصل کرنے کی کوششوں میں نظر آتا ہے وہ ہمہ وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سازشوں میں لگا رہتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی نالائقیوں سے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں ۔آج تحریک طالبان پاکستان کے دو بیانات شائع ہوئے ہیں ۔ایک بیان تحریک طالبان کے ترجمان عمر خراسانی نے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کر تے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے آپریشن ضرب عضب اور خیبر ون کا بدلہ لے لیا ہے ۔دوسرا بیان مقامی طالبان شوریٰ شمالی وزیرستان مجاھدین حافظ گل بہادر گروپ کے ترجمان احمداﷲ احمدی کا ہے جنھوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے معصوم بچوں کی شہادت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت اور اسلام میں چھوٹے بچوں پر حملے اور انھیں قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کے بیان پر یقین کیا جائے پتہ نہیں کتنے اقسام کے طالبان گروپ بن چکے ہیں اور کس کے کن کن سے رابطے ہیں ان کو جدید اسلحہ کون دیتا ہے ان کی ٹکنیکل مخبری کون کرتا ہے ان کے سہولت کار کون ہیں بیرونی دنیا کے کن ممالک سے ان کو مالی اور عسکری مدد کی جاتی ہے یہ اتنا پیچیدہ اور الجھا ہوامسئلہ ہے کہ آپ کسی ڈور کو یہ سمجھ کر کھینچنے کی کوشش کریں کہ شاید اس ے الجھی ہوئی ڈور سلجھ جائے گی معلوم ہوا کے وہ ڈور اور الجھ گئی ۔اس افسوسناک سانحے میں سے کچھ اطمنان کا پہلو یہ نکلاہے کہ تمام سیاست دان آج ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوئے یعنی ہمارے شہید ہونے والے بچوں نے بڑوں کو ملا دیا اب ان تمام سیاست دانوں کومعصوم بچوں کے بہتے ہوئے لہو کی فریادوں کو سننا ہو گا کہ خدارا پاکستان کو بچالو ۔جس وقت یہ تحریر نظروں سے گذرے گی ،فیصلے ہو چکے ہوں گے پہلی نشست کے کچھ فیصلے سامنے آبھی گئے ایک اہم فیصلہ متفقہ طور پر یہ ہوا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے جن افراد کو سزائے موت ہوئی اور اب تک سزا پر عملدرآمد نہ ہو سکا ،دو روز میں صدر مملکت ان کی رحم کی اپیلوں کا فیصلہ کریں گے اس کے بعد ان سزاؤں پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا ۔اجلاس میں جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق کی یہ تجویز بھی متفقہ منظور کر لی گئی کہ سال 2015کو امن کے سال کے طور پر منایا جائے ۔141بچے اور افراد ہی نہیں ہیں بلکہ یہ 141خاندان ہیں ،اس موقع پر ہم عمران خان کو خراج تہنیت پیش کریں گے کہ انھوں نے اپنے حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور 18دسمبر کا ملک گیر احتجاج ملتوی کردیا ۔حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اس وقت ملک کی تمام سیاسی قوتیں ،سول سوسائٹی ایک صفحہ پر آجائیں اس وقت ریاست کو بچانے کا مسئلہ ہے ۔حکومت بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرے کہ اصل میں اسی کی سب سے زیادہ اور سب سے نازک زمہ داری ہے ۔ہم سب کو مل کر دہشت گردی کے خلاف بھی جنگ کرنا ہے اور اپنے ملک کی ان معصوم جانوں کو بھی بچانا ہوگا جو ڈرون حملوں میں بے گناہ مارے جارہے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ہم بھی انھیں دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں ۔اسی طرح ہماری افواج جو آپریشن کررہی ہے اس میں ہمارے فوجی جوان بھی شہید ہو رہے ہیں ،ایک طرف جب یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ تمام طالبان گروپ افغانستان چلے گئے ہیں تو وہاں ان کو کون چھتری فراہم کررہا ہے کون ان کو یہاں سے ریکی کر کے بروقت اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور کون جدید اسلحے سے انھیں لیس کرتا ہے ۔ظاہر ہے کہ بھارت کے ایجنٹس اور را کے لوگ وہاں چنے بیچنے تو نہیں آئے ہیں وہ افغانستان میں ترقیاتی کاموں کی آڑ میں پاکستان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ،ہمیں ان سب چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ہماری فوج جن دہشت گردوں کو ماررہی ہے میڈیا کے ذریعے اس کی درست معلومات پاکستانی عوام تک پہنچنا چاہیے ،ورنہ خبروں کی اصلیت چھپانے سے افواہیں جنم لیتی ہیں کہ جن کو دہشت گرد کہا جارہا ہے وہ عام شہری ہیں اور ان دہشت گردوں کے قبضے میں جو خواتین اور بچے مغوی کی حیثیت سے متعارف کرائے جاتے ہیں وہ دراصل ان ہی کے بیوی بچے ہوتے ہیں ۔اس صورتحال میں ان علاقوں میں ہم خود دہشت گردوں کی کاشت کررہے ہیں جو اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پاگل ہو جاتے ہیں اور پھر پاکستان دشمن ممالک ایجنسیوں کے پے رول پر یا بغیر کسی پے رول کے محض اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیے ان کے کارندے بن کر ہماری ریاستی ہٹ کو متاثر کرتے ہیں ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37597 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.