آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت
گردوں کے حملے اور ۱۴۰ سے زیادہ افرد کی ہلاکت ایک ایسا دردناک واقعہ ہے جس
نے سب کے دلوں کو ہلا دیا اور ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا۔ یہ حملہ ظلم اور
بربریت کی اندوہناک مثال تھا جس میں قتل و غارت کی انتہا کر دی گئی۔ اس
واقعہ نے دورِ نبویﷺ کے ایک واقعہ کی یاد تازہ کر دی جس میں ایسے سفاک
لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں اسلام نے رہنمائی فرمائی ہے۔ نبی
اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ جہاں صبر و استقامت کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور
ایک مسلمان کے لیے زندگی میں پیش آنے والے مصائب وتکالیف پر صبر و برداشت
کرنے کے لیے عملی نمونہ ہے وہاں ایسے واقعات بھی ہماری رہنمائی کے لیے
موجود ہیں جن میں ظلم و بربریت کرنے والوں کو شدید سزائیں دی گئیں تاکہ
آئندہ کے لیے اسلامی معاشرہ میں استحکام قائم ہو اور سب کے جان،مال اور عزت
کا تحفظ ہو سکے۔
بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کیا ہے کہ
عرینہ یا عکل قبیلے کے کچھ لوگوں نے رسول اﷲﷺ کے پاس مدینہ آکر اسلام قبول
کیا لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہ آئی اس لیے رسول اﷲﷺ نے ان سے
کہا کہ وہ مدینہ سے باہر صدقہ کے اونٹوں کی جگہ چلے جائیں اور ان کا دودھ
وغیرہ پیئں۔انہوں نے ایساہی کیا اور جب صحت مند ہو گئے تو اونٹوں کے
چرواہوں کو قتل کر ڈالا اور اونٹوں کو ہنکا کر لے گئے۔نبی اکرمﷺ نے انہیں
پکڑنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا۔جب وہ پکڑ لائے تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ
دیے گئے،آنکھیں پھوڑ دی گیئں اور ان کے زخموں کو بغیر داغے چھوڑ دیا گیا
یہاں تک کہ وہ مر گئے۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے چرواہوں کی آنکھیں پھوڑ دی تھیں
ا س لیے رسول اﷲﷺ نے بھی ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔
نبی اکرمﷺ کا یہ عمل ان آیات کی روشنی میں تھا جو اس موقع پر اﷲ سبحانہ و
تعالیٰ نے نازل فرمائیں۔ سورۃ المائدۃ کی آیات۳۳،۳۴ میں فرمایا:
اِنَّمَاجَزَاءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ
وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَن یُّقَتَّلُوْا اَوْیُصَلَّبُوْا
اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُم مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا
مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی
الْآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْامِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِم
فَاعْلَمُوْااَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرُرَّحِیْمٌo
’’بے شک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں،ان
کی سزا یہ ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں-
یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیئے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا
جائے، یہ ان کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔
سوائے ان لوگوں کے جو اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پا لو تو
جان لو کہ اﷲ بہت بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کے اس اسوہ کی روشنی میں حکومت وقت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے
کہ وہ ہر ممکنہ کوشش کے ذریعے ان دہشت گرد نما درندوں کو کیفر کردار تک
پہنچائے،ان کی جڑوں سے بیخ کنی کرے تاکہ معاشرہ شدت پسند عناصر سے پاک ہو
سکے اورافراد امن و سلامتی کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار سکیں۔
اﷲ ہمارے ملک و قوم کی حفاظت فرمائے۔آمین
وما علینا الا البلغ |