پاکستان نازک ترین دور سے گزر
رہا ہے یہ ایسی گردان ہے جو کچھ عرصے سے تواتر سے کی جارہی ہے حالانکہ ملک
جب سے معرض وجود میں آیا ہے اسے تب سے ہی اندرونی و بیرونی خدشات لاحق ہیں
جو کسی نہ کسی وجہ ملک کو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابل ترقی و خوشحالی کی
جانب گامزن نہیں کرسکا ہے ۔ آمریت نے اس حوالے سے سب سے زیادہ مسائل پیدا
کئے ہیں بالخصوص مشرف دور نے ملک کوا یک ایسی جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی
بنایا جو بعد کے حالات نے خود پاکستان کو اارے ہاتھوں لیا اور آج پوری قوم
اس کی شر انگیزیوں کے باعث مفلوک الحال ہے۔ طالبان جو افغانستان میں اپنے
اقتدار کی ناکامی کے بعد ایک محفوظ مقام کی تلاش میں تھے انہیں پاکستان
دنیا میں سب سے محفوظ اور اپنی کارروائیوں کیلئے اہم جگہ کے طور پر میسر
آیا ۔ انہوں نے اسلامی نظام شرعیت کو جواز بناکر نہ صرف سادہ لوح اور بھولے
بھالے عوام کو بیوقوف بناکر یرغمال بنایا بلکہ ملک کے نظام کا ستیاناس
کردیا ۔ مشرف کے بعد پی پی پی کے دور حکومت میں بھی طالبان کیخلاف بھر پور
یا موثر کارروائیاں نہ ہونے سے ان کے حوصلے بلند ہوئے اور ملک بھر میں دہشت
گردی اور انتہاپسندی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔ صورتحال اس نہج پر
پہنچ گئی کہ طالبان ملک میں حاکمیت کے دعوے دار بن گئے اور ایسے اقدامات
کئے گئے جو کسی بھی طرح ایک اسلامی فلاحی ریاست کو شعار نہیں ۔ ملک میں
طالبائزیشن نے اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کرلیں کہ وطن عزیز کو معاشی و
اقتصادی نقصان تو پہنچا سو پہنچا ،عوام خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے،
کئی بے گناہ افراد جن میں بزرگ ، بچے اور خواتین شامل تھیں لقمہ اجل بنے
لیکن اس کا طالبان پر کوئی اثر ہوا نہ حکومتی سطح پر کوئی موثر اقدام کیا ۔
نوازشریف نے اقتدار سنبھال کر جو سب سے اہم کارنامہ انجام دیا وہ ملک میں
دہشت گردی کے خاتمہ تھا۔ انہوں نے اول طالبان سے پر امن مذاکرات کرنے کیلئے
فضاء قائم کی اور گزشتہ سال ستمبر میں ا ے پی سی بلائی جس میں ملک کی تمام
تر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے یک زبان ہوکر حکومت کا ساتھ دینے کا عزم کیا ۔
میاں نوا ز شریف کے حوصلے بلند ہوئے اور انہوں نے خلوص دل سے قدم بڑھایا
لیکن طالبان کی جانب سے اس کے برعکس کارروائیاں جاری رہیں ، فورسز کے
اہلکار ہدف بنے ، عام شہریوں کا قتل عام ہوا اور سرکاری تنصیبات کو بھرپور
نقصانات پہنچائے گئے جس نے حکومت کو ضرب عضب پر مجبور کردیا ۔یہ ایک ایسا
اقدام تھا کہ جس سے شمالی وزیرستان کے ہزاروں خاندان اپنے ہی ملک میں مہاجر
بننے پر مجبور ہوگئے لیکن قوم کی جانب سے اظہار یکجہتی و امداد نے انہیں
اپنے مستقبل کی بہتری کیلئے ہر مشکل برداشت کرنے پر آمادہ کیا ۔ حکومتی سطح
پر آپریشن کے باوجود کوشش کی گئی کہ جو طالبان تائب ہوجائیں انہیں قومی
دھارے میں شامل کرلیا جائے گاالبتہ تخریب کاروں کی بیخ کنی میں کوئی کسر
نہیں اٹھارکھی جائے گی اور ملک بھر میں دہشت گرودں کی کمر توڑنے کیلئے
کارروائیاں جاری رہیں گی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری اور ہیجان کی کیفیت ہے جس کی
وجہ سے کسی نہ کسی طرح سے دہشت گرد آزادانہ کارروائیاں کررہے ہیں اسی کا
پیش خیمہ سانحہ پشاور ہے ۔ 16 دسمبر کا دن پاکستان کیلئے ایک سیاہ دن
کے طور پر تصور کیا جاتا ہے اس روز ملک ودلخت ہوا تھا لگتا ہے کہ وہ دن ایک
بار پھر ملک کی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ کاش یہ سیاہ دن
کیلنڈر سے ہمیشہ کیلئے مٹ جائے ، ماہ سال کے ریکارڈ سے نکل جائے کوئی معجزہ
ہوجائے یا برین واشنگ کے عمل سے ، تحلیل نفس سے، کسی جدید آپریشن کے ذریعہ
ذہن سے حرف غلط کی طرح ڈیلیٹ ہوجائے ۔ ابھی ہم اس دن کو رو رہے تھے کہ
سانحہ پشاور نے ہمیں اندھیروں کی طرف دھکیل دیا جب ہمارے مستقبل پر حملہ
ہوا اور132بچے شہید کردئے گئے ۔قوم سکتے میں آگئی۔ ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔
ماؤں کی گود اجڑ گئیں ۔ ہر مکتبہ فکر اس دلخراش واقعے سے بے دم ہوگئے ۔ ملک
میں چہار سو سوگ کا عالم ہے ۔ کوئی سوچ ، کسی سمجھ سے بالاتر اس واقعہ نے
اگر کچھ کیا ہے تو یہ ہے کہ ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو جگا دیا ہے ،یہی
وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ایک پھر دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے
بلائی مشاورتی کانفرنس میں عمران خان سمیت ملک بھر کے تمام سیاسی رہنماؤں
نے شرکت کی جو اس بات کا مظہر ہے کہ اختلافات اپنی جگہ سہی مگر ملک کی
سالمیت اور اس کا تحفظ ہر شے پر مقدم ہے ۔
وزیراعظم کا عزم کہ شدت پسندی و دہشت گردی کی کیخلاف کارروائیوں میں کسی
بھی سطح کوئی تمیز نہیں رکھی جائے گی اور ملک دشمنوں کا قلع قمعجب تک نہیں
ہوجاتا جنگ جاری رہے گی جبکہ بزدلوں کو ان کے بلوں سے نکال کر ملک سے مکمل
صفایا کردیا جائے گاخوش آئند ہے ۔
پشاور میں ہونے والا واقعہ کسی بھی طرح سے انسانی المیہ سے کم نہیں ، معصوم
جانیں لینے والے کسی بھی لحاظ سے کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ۔وقت آگیا
ہے کہ اب حساب چکتا کیا جائے ، اس کیلئے باقائدہ ، مربوط اور موثر لائحہ
عمل ناگزیر ہوگیا ہے ۔
132جانوں کا نقصان قوم کیلئے ایک عظیم نقصان سے کم نہیں لیکن یہ امر سب سے
اہم ہے کہ اتحاد و اتفاق کے جو دئے بجھ رہے تھے وہ ان شہداء کے خون سے پھر
روشن ہوگئے ہیں اوران کی قربانی ایک سوئی ہوئی قوم کو جگانے کا باعث بن گئی
ہے ۔ عمران خان نے دھرنا ختم کرکے جس فراخ دلی اور سیاسی شعور و بلوغت کا
مظاہرہ کیا ہے وہ قابل قدر ہے اور اس موقع پر تمام سیاسی جماعتوں کا ملکی
سالمیت اور دفاع کیلئے دہشت گردی کیخلاف متحد ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ
1971ء میں جس غیر محتاط رویہ کا مطاہرہ کیا گیا تھا اور ملک تقسیم ہوا تھا
اب ایسا ہونا دشمن کی سوچ ہوسکتی ہے ایسا ہونا قطعی نا ممکن ہے ۔ بلاشبہ
عوام ، سیاسی رہنماؤں اور فوج کا متحد ہوجانا ایک نئے پاکستان کی بنیاد ہے
شاید اسی کیلئے تحریک انصاف 14 اگست سے احتجاج کررہی تھی ۔سلام ہو ان ننھے
مجاہدوں پر کہ جن کی بدولت ملک درست راہ پر گامزن ہورہا ہے - |