ڈھیروں شفقت بھی ادھار دینا

ظالم جب ظلم کرتا ہے اس کو اپنے انجام کا اندازہ نہیں ہوتا۔اپنی عارضی طاقت کے نشے میں مست تمام اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہوئے ظلم کی لامتناہی حدیں کراس کرتا جاتا ہے۔ہم نے اپنے معصوم بچوں کی لاشیں اٹھائیں لیکن ظالم بھول گیا کہ ہم اپنے امن کی خاطر ہر قسم کی قربانیوں سے لاپرواہ ہیں۔ہمارے صبر کا امتحان اور اپنے ظلم کا شدید اظہار کرنے والا دشمن انشا ء اﷲ ہمیشہ ہمارے سامنے ذلیل و خوار ہوتے دکھائی دے گااور اپنے انجام کو رسوائیوں میں لت پت ہو کے ہی جائے گا۔ہمارے نونہال شاید گھر سے یہی الفاظ دہرا کے نکلے تھے کہ جنہیں سوچ کے مری آنکھوں میں ملک دشمنوں کے خلاف لہو اتر آتا ہے۔
مری ماں آج بہت پیار دینا
ڈھیروں شفقت بھی ادھار دینا
آئے جو گھر میں مرا لاشہ
مرے بال پھر سنوار دینا
ہم پھول ہیں ہر چمن کے
اپنا کام ہے رنگیں بہار دینا
مری فوج مل جائے جو قاتل
ظالم کو چن کے مار دینا
بہت یاد آتا ہے ماں کا
پل پل صدقے اُتار دینا
اک خواہش ہے رانجھا کی خدا
شہدا کا ذرا دیدار دینا

پشاور کے آرمی پبلک میں ڈھایا جانے والا ظلم ناقابل معافی ہیں۔پوری قوم سوگوار ہے اور لواحقین کے لئے پُرنم ہے۔سانحہ پشاور کے شہد ا کی یادیں صدا ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔ملک و ملت کے پیارے بچے! ساری قوم کو نہیں بھولیں گے،یہی وقت ہے کہ ہم سارے متحد ہو جائیں اور دہشت گردوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔جو ملک ملت کے ان نونہالوں کا جان لیوا ہے ،جو اس کا ماسٹر مائند ہے ،ہم اس کو مینٹل کر کے ایسا ٹارچر کریں کہ وہ اپنی نسلوں کو بھی یہی سبق دے جائیں کہ !’’بھائی صاحب پاکستانی قوم سے پنگا مت لینا،یہ جرات مند لوگ ہیں،ان کے بچے بھی جرات مند ہیں ،ان کو کبھی قاتلانہ نگاہوں سے دیکھنے کی ہمت نہ کرنا، یہ قاتلوں اور دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں‘‘۔

ہماری حکومت،فوج اور وزارت داخلہ اگرچہ دہشت گردوں کے خاتمہ کے لئے مصروف عمل ہے۔پھر بھی بہت ضروری ہے کہ ہم ساری قوم بھی اپنے دائیں ،بائیں اور گلی محلوں میں موجود مشکوک افراد اور ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں پر نہ صرف نظررکھیں بلکہ ان کی اطلاع بروقت حکامیہ اور انتظامیہ تک پہنچائیں تاکہ ہماری موجودہ اور آئندہ کی نسلیں ان کے ناپاک شر سے محفوظ رہیں۔پاکستان میں ابھی بھی کئی جگہوں پر مشکوک اور ملک دشمن عناصر جن میں ملکی و غیرملکی افراد شامل ہیں رہائش پذیر ہیں۔ان افراد کی پکڑ دھکڑ اور ان کے ماسٹر مائنڈ افراد تک پہنچنے سے آرمی فورسز اور حکومت کو بہت کامیابیاں میسر آ سکتی ہیں۔ایسے مشکوک افراد کے براہ راست یا خفیہ رابطے بیرون ملک یا اندرون ملک موجود ملک دشمن عناصر سے رہتے ہیں اور یہی افراد ایسے مجرموں کو پناہ گاہیں میسر کر کے ملک و ملت کا نقصان کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

جہاد کے نام پر دہشت گردوحشی افراد دین کے نام پر دین و دنیا کے لئے دھبہ ہیں۔اس سے پہلے آرمی سیکورٹی فورسز کی ناقابل فراموش قربانیاں ہیں کافی تھیں کہ بزدل ملک دشمنوں نے ہمارے نہتے معصوم طلباء اور اساتذہ کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا لیا۔

ملالہ یوسف زئی کے ساتھ دہشت گردی کرنے والے گروپ پر نوبل انعام ملنا دراصل دہشت گردی کے منہ پر ایک بہت بڑا طمانچہ ہے جو ان سفاکوں کو صدیوں نہیں بھولے گا۔شاید اسی دکھ کا ظہار انہوں نے آرمی پبلک میں حملے میں کیا ہے لیکن دہشت یاد رکھیں ہم سارے پاکستانی اور ہمارے نونہال ملک و ملت اور اسلام کے لئے ہر گھڑی اس سے بڑی قربانیاں دینے سے بھی گریز نہیں آئیں گے۔سوشل ویب سائٹ پر اس بہادر شہید استانی کی داستان بہت پاپولر ہوئی جس نے دہشت گردوں کے سامنے آکے ان جہنمیوں کو للکارا اورکئی بچوں کو جان بچائی مگر اس نڈر خاتون کو ظالموں نے زندہ جلا دیا۔

پاک آرمی اور حکومت وقت کو سیلوٹ ہے جس نے جیل میں قید تمام ایسے دہشت گردوں کو جنکوپھانسی کے احکامات ہو چکے ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا حکم صادرکیا ہے۔ اب دہشت گردوں کے بات چیت کا کوئی درواز کھلا رکھنا بھی گوارا نہیں۔اب تو انہیں چن چن کے مارنا ہی دانش مندی ہے۔دہشت گرد جب سفاکی کرنے سے باز نہیں آتے تو پھر ہم سب کو بھی انہیں مارنے میں کوئی پچھتاوا نہیں۔یہ دہشت گرد جب گھروں کے گھر اجاڑ دیتے ہیں،کئی ماؤں ،بہنوں،بیٹیوں ،بچوں اور عورتوں سے ان کے وارث چھین لیتے ہیں اور کئی معصوم بچوں کی جانیں لیکر اپنے آپکو نام نہاد مجاہد ثابت کرتے ہیں تو پھر ہم ساری قوم یکجا ہو کر انہیں ان کے انجام تک پہنچائیں یہی وقت کا تقاضا ہے۔

یقین کریں احقر جب بھی کسی سکول جاتے ہوئے بچے کو دیکھتا ہے تو آرمی پبلک کے شہید بچوں کے چہروں کی یاد میری آنکھیں بھگو دیتی ہے اوردل کرتا ہے کہ کاش مجھے حکومت اختیار دے اور میں اپنے ہاتھ سے دہشت گردوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں مارتے مارتے شہید ہو جاؤں مگر اپنے ہاتھ ٹریگر سے نہ اٹھاؤں۔کیونکہ مجھے پاکستان کے ہر گھر کے ہر دروازے سے یہی آواز سنائی دیتی ہے کہ:۔
مری ماں آج بہت پیار دینا
ڈھیروں شفقت ادھار دینا
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 66217 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.