نئے سال کی آمد پر کِن لوگوں کو سلام

حسبِ معمول پچھلے سالوں کی طرح سال ۲۰۱۴ بھی اپنے اختتام کے قریب ہے۔ دُنیا کے مُختلف کونوں سے تجزیہ کاراپنے ملکوں کے حوالے سے تجزیے کرتے ہیں ۔ اور یہ سوال کرتے ہیں ۔ کہ ہم نے پچھلے سال کیا کچھ کھویا؟ اور کیا کچھ پایا؟ ہم نے بحیثت قوم پایا بہت کم۔ لیکن ہاں پانے کیلئے جدوجہدکیا ۔اور کر رہے ہیں ۔

دو قسم کی جدوجہد میں پاکستانی قوم اِس سال کو الوداع کہنے جا رہا ہے۔ پہلاجدوجہد کرپٹ نظام کے خلاف اور دوسرا ضربِ غضب کے نام سے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف۔

کرپٹ نظام کے خلاف جدوجہد میں پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا غیر متزلزل عزم ہے ۔ جو کہ تا حال ڈٹے ہوئے ہیں ۔

خان صاحب کے ناقدین جو بھی تنقید کرتے ہیں ۔ لیکن اتنی طویل اور صبر آزماسیاسی اور قومی جدوجہد پر قائدِ پاکستان تحریک انصاف کوسلام پیش کرتا ہوں ۔

اس جدوجہد میں شریکِ کار میڈیا چینلز، اخبارات اُن کے صحافی ، اینکرز،مدیران صاحبان خصوصاََ اینکر مبشر لقمان اور سینئر کالم نویس جناب حسن نثار صاحب جیسے لوگ خصوصی دعاؤں اور سلام کے مستحق ہیں ۔ کیونکہ قومی جدوجہدمیں جب تک میڈیاکا ساتھ اور حمایت حاصل نہ ہوں۔ مقاصد تک پہنچنا اور ان کا حصول ناممکن رہ جاتا ہے۔ دوسری حقیقت یہ کہ جب کوئی فردِ واحد یا اِدارہ قومی مسائل اورجدوجہدمیں مظلوموں کی آوازبن جاتی ہے۔ تو اﷲ کریم اُس شخص یا ادارے کے جدوجہدسے بڑھ کر صلہ دینے پراُتر آتا ہے ا ب اگر پاکستان کے سارے صوبوں میں سروے کرائی جائے۔ تو واقعی وہ چینلز ٹاپ پر ملیں گے۔ جو اس جدوجہد کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

اس جدوجہد میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے اُن ایمان دار، مخلص اور بے داغ افسران کو سلام کہنا چاہوں گا۔جنہیں یا تو اِس کرپٹ نظام اور ظالم کا ساتھ نہ دینے پر محکمہ سے نکالا گیا۔یا حق کا ساتھ دینے پر اور کرپشن کو بے نقاب کرانے پر بے اختیار کرایا گیا۔

واقعی اِن لوگوں کی ضمیر زندہ ہیں ۔ اور جن لوگوں کے ضمیر زندہ ہوتے ہیں ۔اُن کو کبھی ظلم اور جبر سے نہیں دبایا جا سکتا۔ظلم کا نظام جتنا عرصہ بھی چلے۔ لیکن اس کا مستقبل تاریک ہوتا ہے۔ ایک فطری امر ہے۔ کہ اس تاریکی کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی اس نظام کے خلاف اپنے وقت کے مطابق اﷲ کریم محمد بن قاسم جیسے سالاروں کو جنم دیتا ہے۔ اور ہر جاگنے والی ضمیر میں ظالم کے خلاف تلاطم برپا کردیتا ہے ۔ اور ہر دور میں ظالم کے خلاف جاگنے والی ضمیریں داد کے مستحق ہیں۔

اس جدوجہد میں ساتھ دینے والے اُن سیاسی کارکنان کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے گھروں میں کچھ نہ ہوتے ہوئے اپنے جہیز کے زیوربیچ کر اور مال مویشیوں کو فروخت کر کے دھرنوں اور جلسوں میں شرکت کیں ۔ صرف اس اُمیدپر کہ شاید ہماری دھرتی کو کوئی اچھا منتظم مل جائے۔یہاں پروہ ضمیر بھی قابلِ ستائش ہیں۔ جنہوں نے اپنی ڈگریاں لینے سے انکار کرکے گو نظام گو کا نعرہ بلند کیا۔ یہ نعرہ اُسی نظام کے خلاف ہے۔ جس کے سارے خاندان والے اس ملک پر قابض ہیں ۔

دوسری قسم کے جدوجہدمیں اُن فوجی بھائیوں کو میرا سلام جو اس سرد موسم میں اپنے بھال بچوں کو چھوڑ کر ، اپنے نیندوں کو حرام کرکے اس دھرتی کے تحفظ کیلئے سب کچھ سہہ رہے ہیں ۔ اور اُن شہداء کے لواحقین کو میرا سلام جو ہر آفت میں اپنے سرپر کفن باندھ کر اس دھرتی کے تحفظ کرنے لگے اور اُن ماؤں کو سلام جن کے سامنے لختِ جگر کا لاش پڑا ہو۔ اوروہ رونے کی بجائے دُعاکرنے لگی کہ یااﷲ میرے پیارے بیٹے کی شہادت اورقربانی قبول فرما۔

سال کے اختتام پر اگر ہم اُن لوگوں کو بھُلا دیں تو زیادتی ہوگی۔وہ لوگ جو اس آپریشن ضربِ غضب کے لیے اپنے گھربار چھوڑ گئے۔ وزیرستان کے وہ غیرت مند خاندان جواُس وقت کے گرم موسم میں اور پھر رمضان جیسے مبارک مہینے میں در بدر اپنے خاندانوں کیلئے پناہ گاہیں تلاش کر رہے تھے۔لیکن افسوس کہ ایک مخلص سلام اوردعا کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتا۔دعا یہ کہ اﷲ کرے کہ ان متاثرہ خاندانوں کی اپنے گھروں میں بخیرو عافیت واپسی ہو جائے۔
Hafiz Abdur Rahim
About the Author: Hafiz Abdur Rahim Read More Articles by Hafiz Abdur Rahim: 33 Articles with 23145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.