مہکتے گلشن میں خون ریزی

میں اپنے دوستوں اور ٹیچر کے ہمراہ سکول کے کلاس روم میں موجود تھا کہ اچانک گولیوں کی آواز آنے لگی۔ پتہ چلاکہ کچھ دہشت گرد سکول میں گھس آئے ہیں۔ ہم لوگ کلاس روم میں کرسیوں کے نیچے چھپ گئے۔لیکن کچھ ہی دیر میں ہمارے کمرے میں انسانی شکل کے بھیڑیے داخل ہوئے۔ان بھیڑیوں نے ہمیں کرسیوں کے نیچے سے نکال کرہم پر گولیاں برسائیں،میرے کچھ دوست موقع پر مرگئے،اور مجھ سمیت کچھ زخمی ہوئے۔ہم زخمیوں نے اصل میں مرنے کا بہانہ بناتے ہوئے دہشت گردوں کو چکما دیا ،اور اپنی جان بچائی۔دہشت گرد ہمارے کمرے میں کاروائی کرکے باہر نکل گئے،میں بے بس تھا ،اپنے مرنے والے دوستوں کو بچانے کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ لیکن میں ایک دن کسی مقام پر پہنچ کر اپنے ٹیچرزاور دوستوں کے قاتلوں کو منطقی انجام تک ضرور پہنچاوٗں گا۔ہم دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں پاک آرمی کے ساتھ ہیں۔
یہ جذبات تھے ۔پشاور کے آرمی سکول میں درندہ صفت دہشت گردوں کے ہاتھوں زخمی ہونے والے طالب علم کے ۔اس بچے کے ساتھ ایک باپ کا ذکر کرنا نہیں بھولوں گا۔جس کا بیٹا اپنے دوستوں کی جانیں بچاتا ہوا ، خود ظالموں کی کاروائی کا نشانہ بن گیا۔اور اپنے خون کو اس دھرتی کے نام کر گیا۔ وہ باپ اپنے بیٹے کے بارے میں کہتا ہے کہ مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا اپنے پاکستانی بھائیوں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان سے گیا۔ اور سلام ہے اس بہادر فی میل ٹیچر کو بھی جو اپنی کلاس میں دہشت گردوں کے گھسنے کے بعد ان سے کہتی ہے کہ میری موجودگی میں تم ان بچوں کی طرف نہیں جا سکتے ۔اور دہشت گرد اس نڈر لٹرکی پر پٹرول چھٹرک کے آگ لگا دیتے ہیں 133مرنے والوں میں سے تین کا ذکر تو مختصر اًکردیا۔لیکن مرنے والے 142لوگ اپنی اپنی خصوصیات کے مالک تھے۔وہ اپنے اپنے منفرد شوق رکھتے تھے۔اور اپنی اپنی خواہشات کے مطابق مختلف انداز میں اس پاک دھرتی کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔کوئی آرمی کرنل بننا چاہتا تھا ، کوئی ڈاکٹر ،کوئی پائیلٹ بننا چاہتا تھا تو کوئی نیوی آفیسر ۔تمام کے تمام ملک کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔یقینا وہ جانتے تھے کہ اس پاک دھرتی کو انکی ضرورت ہے۔لیکن وہ بچے چھوٹی سی عمر میں اپنی جان دیکر،اپنے تمام خواب ادھورے چھوڑتے ہوئے پاکستانی قوم پر اپنے خون کا قرض چھوڑ گئے ہیں۔وہ ہمارے لیے پیغام چھوڑ گئے ہیں۔کہ ہم نے تو دہشت گردوں کا بہت ہمت سے مقابلہ کیا انکی گولیاں سینوں میں کھائیں،ہم تو منوں مٹی تلے چلے گئے ہیں۔ہم نے اپنی جان دے کر چھوٹی سے عمر میں اپنے ماں باپ کو خوب رولایا۔لیکن اس وطن کے لیے ہمارا سب کچھ قربان۔جو قربانی ہم نے بعدازاں دینی تھی ۔وہ ہم نے آج ہی دے دی۔مرنا تو اس وطن کے لیے کل بھی تھا تو آج مرگئے تو کیا،اس مٹی کو ہمارے خون کی ضرورت تھی۔لیکن پاکستانیوں ہمارے خون کو رائیگاں نہ جانے دینا۔ان شہید بچوں میں سے کوئی اپنی کاپی پر END NOW لکھ گیا۔تو کوئی یہ گلشن قائم رہے گا لکھ گیا۔

اگر 133 بچوں سمیت 142 شہداء کی خصوصیات لکھنے بیٹھوں تواس کے لیے ایک قالم نہیں بلکہ کتاب لکھنا ہوگی۔

قارئین مرنے والے ان بچوں نے چھوٹی چھوٹی عمروں میں جان دے کر دہشت گردوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔زخمی بچوں نے گولیاں کھانے کے باوجود ڈرنے کی بجائے مزید پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے پاک آرمی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔یقینا حملہ آ ور دہشت گرد پاکستانی قوم پر بزدلانہ حملے سے قبل ہر بار بھول جاتے ہیں کہ اس قوم کے سینوں میں ایمان کا جذبہ ہے دہشت گرد بھول جاتے ہیں کہ وہ اﷲ اکبر کا نعرہ لگانے والوں پر حملہ کرنے جارہے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اس قوم کے دلوں میں جہاد اورقربانی ، کی تعلیمات کی مہر لگی ہوئی ہے ،دہشت گرد بھول جاتے ہیں کہ یہ قوم ملک کی سلامتی کے لیے موت کو خوشی سے گلے لگاتی ہے۔اور ملک کے لیے جان دینے کو تو انکے بڑے کیا چھوٹے بچے بھی اپنے لیے اعزاز اور فرض سمجھتے ہیں۔شہید ہونے والے تو منوں مٹی تلے چلے گئے ۔لیکن سلام ہے 900 سے ذائد آرمی پبلک سکول کے بقیہ بچوں کو ،جن کے حوصلے اپنے بھائیوں کی شہادت کے بعد بھی اتنے پختہ ہو سکتے ہیں کہ عقل دانش یقین نہیں کرتی۔بچنے والے زخمی بچے کہتے ہیں کہ ہم آئندہ بھی اسی سکول میں جائیں گے۔دہشت گرد ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے ۔ایک بچہ حملہ آورں کو للکارتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر دہشت گرد ہمیں دوبارہ بھی گولیاں مار دیں تو ہم پھر بھی پڑھنا نہیں چھوڑیں گے۔اور نہ ہی ہم پیچھے ہٹیں گے۔ کوئی بھی ہمارا حوصلہ ہرگز نہیں توڑ سکتا۔ ہم جانیں دینے سے ڈرتے نہیں بلکہ گلشن کو قائم و د ائم رکھنے کے لیے جانیں دینا فخر سمجھتے ہیں۔یہ تو تصویر کے ایک رخ کی بات تھی۔اب دوسرے رخ کو بھی جانچنا ضروری ہے آخر اس دہشت گردی کی وجوہات ہیں کیا۔کہیں دشمن ہمارے آپس کے اختلافات کا فائدہ تو نہیں اٹھا رہا۔پشاور شہرکے کینٹ جیسے علاقے میں دن دیہاڑے ایسا واقعہ ہو جانا یقینا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔آخر ہم کب تک دوسرں کی لڑائی خود لڑتے رہیں گے۔کب تک ہم ایک سیاسی محاذ پر اکھٹے نہیں ہوں گے۔کب تک ہم اپنے پیاروں کا خون دہشت گردوں کی گولیوں کی نظر کرتے رہیں گے۔کب تک ہم اچھے اور برے دہشت گردوں کی تمیز کرتے رہیں گے۔کب تک ان بھڑیوں کی وجہ سے ہمارے گھرو ں میں صف ماتم بچھتی رہے گی۔کبھی ملالہ پر حملہ تو کبھی اعتزاز کاحملے میں نشانہ بننا ، کبھی پریڈ لائن کی مسجد نشانہ تو کبھی چرج پر حملہ۔ کبھی واہگہ بارڈر حملے کی ذد میں تو کبھی پولیس ٹارگٹ۔ قارئین یہ توکچھ جذباتی باتیں تھیں جوپاکستانی قوم کے دل میں تھیں۔ لیکن سلام ہے ہماری سیکیورٹی فورسز کوجو پشاور سکول حملے کے بعددہشت گردوں کے خلاف ہر پل گھیرا تنگ کرتی جارہی ہیں۔ قارئین ایکشن کا ری ایکشن ضرور ہوتا ہے ۔بوقت ضرورت ہمیں صرف ایکشن ہی کرنا ہوگا۔اور دشمن کو ری ایکشن سے پہلے ہی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے ختم کرنا ہوگا۔قابل فخر بات یہ ہے کہ بہت سے اقدامات حکومت وقت اور پاک آرمی کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر کرلیے گئے ہیں۔اور ملکی فلاح کے لیے ضروری میزید کچھ اقدامات کا ذکر کرتا چلوں، سیکیورٹی اداروں کو ملک میں موجود تمام حساس مقامات پر ناکوں کے ساتھ ساتھ انٹری پوائنٹس پر سکینرز لگانے کی ضرورت ہے۔

گورنمنٹ کی جانب سے تمام سیکیورٹی ایجنسیز اور خفیہ اداروں کو انٹرنیشنل معیارکا تفتیشی سازوسامان مہیا کیا جائے۔

تمام سیکیورٹی ادارے سیاسی مسائل سے الگ ہوکر صرف سیکیورٹی کے مسائل پر توجہ دیں۔

سکولوں ،کالجوں،اور دفاتر میں موجود پرائیوٹ سیکیورٹی سٹاف کے لیے سرکاری سطح پر مختصراً ٹریننگ پروگرامز کا انعقادبھی کیاجائے، اپوزیشن جماعتیں حکومت کے ساتھ ملکر دہشت گردی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے سرجوڑکر بیٹھی رہیں۔ اور ملکی دفاع کے لیے کسی بھی قسم کی بننے والی پولیسی کیساتھ ہی فوری طورعمل درآمد کے لیے حکومت اور پاک آرمی کا ساتھ دیں، اور حکومت کی جانب سے لاپرواہی کی صورت میں فوری عوام کو آگاہ کریں -سانحہ پشاور کے لیے بنائی گئی تحقیقاتی رپورٹ کو خفیہ نہ رکھا جائے۔بلکہ اسکو دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح اوپن کردیا جائے۔اور دشمنوں کے خلاف سرعام کاروائی کی جائے۔

پشاور سانحہ کے بعد ملک میں بسنے والے ہر شخص کی آنکھ میں نمی ہے قوم کا ہر فرد کچھ کہنا چاہتا ہے کوئی اونچی آواز میں تو کوئی دھیمی آواز میں۔کوئی آہستہ آہستہ رو کر تو کوئی دھاڑیں مار تا ہوا رو کر۔لیکن ہر کسی کے دل کا سوال ایک ہی ہے۔ کہ کیا قصور ہے ہمارے بچوں کا ،دہشت گردوں تم نے لاتعداد پاکستانی مردوں عورتوں کی جانیں لیں۔لیکن جب تم ان سب کو مار کر پاکستانی قوم کے حوصلے پست نہ کرسکے توتم نے بچوں کو نشانہ بناڈالہ۔تمام پاکستانی اس سانحہ کے بعد اپنے دل سے ایک آہ نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ سانحہ پشاور کے بعد ہمارے حوصلے اور بلند ہوگئے ہیں۔ہمارے اند ر ایک نیا جذبہ پیدا ہوگیاہے اور وہ جذبہ تمام دہشت گردوں کا اس پاک سرزمین سے خاتمہ ہے۔پوری قوم دشمنان پاکستان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔اسکی مثال اس سے بڑھکر کیاہوگی،کہ سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم ایک ساتھ سوگ منا رہی ہے پورے ملک میں شٹرڈاون کی جاتی ہے۔غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے،اور پاکستان کی تاریخ میں بہت عرصے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام سیاسی قیادت ایک میزپر اکھٹی ہوئی ہے۔
Abdul Rauf Chohan
About the Author: Abdul Rauf Chohan Read More Articles by Abdul Rauf Chohan: 3 Articles with 2044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.