گزشتہ دنوں پشاور میں تاریخ
انسانی کا دلخراش و المناک واقع رونما ہوا ،ایک ایسا واقع کہ دنیا کی تاریخ
میں آج تک جتنی جنگیں ہو چکی ،ان کے دوران کبھی ایسا کوئی حادثہ یا واقع
سامنے نہیں آیاکہ درندہ صفت بھیڑیوں کی فوج نے اس طرح معصوم بچوں کو خون
میں نہلایا ہو جیسے پاکستان کے اہم ترین شہر پشاور میں معصوم بچوں کے خون
سے درودیوار کو سرخ کیا گیا ۔اس قیامت صغریٰ میں سینکڑوں گھروں کے ارماں
،خواب اور ان کی تعبیریں پل میں دم توڑ گئیں اور پورا ملک ہی نہیں بلکہ
دنیا سکتے میں آگئی ۔آج ہر آنکھ اشکبار ہے اور دنیا بھر کا پریس و
الیکٹرونک میڈیا اس بات پر متفق ہے کہ یہ ایک غیر انسانی عمل وقوع پذیر ہوا
ہے ۔میں عشروں سے اخبارات کے لئے لکھ رہا ہوں لیکن اس واقعے کو آج کئی دن
گزر چکے لیکن اس پر لکھنے کے لئے الفاظ ملتے ناں ہمت ہو رہی تھی ۔
پاکستان میں تو پھر بھی سکیورٹی کا اہتمام رہتا ہے لیکن آزاد کشمیر ایسا
علاقہ ہے جو اس طرح کی کارواؤں کے لئے بڑا زرخیز ہے جہاں پر اس سے بھی کوئی
بڑاحادثہ ہو سکتا ہے اور میں اس بابت اس سے پہلے متعدد مرتبہ وہاں کے
اخبارات کے زریعے تعلیمی اداروں کی ناقص سکیورٹی انتظامات کی نشاندی کر چکا
ہوں اور کئی بار وہاں کے عوام کو ان وحشت ودہشت ناکیوں کی ہولناکی سے آگا ہ
کر چکا ہوں اور انہیں بتا چکا ہوں کہ خدارہ ایسے حوادث کا انتظار مت کیجئے
ورنہ ساری زندگی اپنے آپ کو کوہستے رہیں گے حاصل کچھ نہ ہو گا لیکن افسوس
کہ کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔۔۔ نا جانے کیوں ہمارے لوگوں کے سر پر جب تک
کوئی آفت ناگہانی نازل نہ ہو جائے اس وقت تک کوئی توجہ دینا جیسے گناہ
کبیرہ سمجھتے ہیں ۔۔۔ اﷲ رحم کرے ہمارے بچوں پر۔
پشاور واقعے کے بعددہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن’’ضرب عصب‘‘ پر ایک طویل
بحث چل نکلی ہے کچھ اس آپریشن کا رد عمل کہتے ہیں تو کچھ اسے ریاستی ناکامی
کا نام دے رہے ہیں لیکن پاکستانی قوم کو آج بہر حال پاک آرمی پر ہی اکتفا
کرنا پڑھ رہا ہے اور سیاسی قیادت سے مایوسی کا اظہار ہوا ہے ۔لیکن اس ماحول
و سوچ کو بدلنا ہوگا اس لئے کہ اس دہشت گردی کا حل فقط گولی وبندوق قطعی
نہیں ہو سکتا کیوں کہ کوئی بھی ایسا شخص ایسا بننے یا اس حد تک پہنچنے میں
فکری و عملی طور پر وقت تو لیتا ہوگا ناں کہ عام وخوشگوار ماحول میں صبح
بستر سے اٹھ کر دکان میں جائے اور سامان حرب لے کر کسی عوامی مقام پر جا کر
یہ حرکت کر ڈالے ۔اس کا تعلق گھر کے ماحول سے شروع ہوتا ہے اور دیس کے
اعلیٰ ترین اداروں سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچتا ہے ۔اس لئے جہاں تمام ریاستی
ادارے اپنی زمہ داریوں کے برخلاف ہوں وہاں صرف آرمی آپریشن ملک میں امن
قائم نہیں کر سکتا اس کی کئی ایک وجوہات ہیں مثلاً جس دیس کی ستر فیصد
آبادی خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہو اور وہ انصاف سے محروم ہو اور
وہی انصاف اس دیس کی مٹھی بھر اشرافیہ کے در کی باندھی ہو ،جہاں قانون کے
محافظ صرف امیروں و حکمرانوں کی حٖاظت پر مامور ہوں ،جہاں وضائف بکتے ہوں
،جہاں ملاوٹ کوفن کا درجہ حاصل ہو۔۔۔ اس کادوردورا ہو۔۔۔ اور بھائی بھائی
کو موت بیچ رہا ہو۔۔۔جہاں صرف غریب ٹیکس دے اور وہی ٹیکس امیروں کی عیاشیوں
پہ خرچ ہوتا ہو۔۔۔جہاں پٹواری ریاست کا شہزادہ ہو ۔۔۔جہاں اقتدار دھانس و
دھاندلی و کاریگری سے حاصل کرنا آسان ہو اور جمہوریت کا مطلب محض حصول
اقتدار کا نام ہو۔۔۔جہاں ملک کے اعلیٰ ترین ادارے کرپشن کا گڑھ ہوں اور
وہاں شناختی کارڈ پاسپورٹ و نیشنلٹی فٹ پاتھ پہ بکتے ہوں ،اور لاکھوں لوگوں
کے چیخنے چلانے احتجاج کرنے و مطالبہ کرنے کے باوجود حکمراں اس گلے سڑھے
نظام کے محافظ بن کر اسے جوں کا توں رکھنے پر بضد ہوں ۔۔۔جہاں اسمگلنگ و
چوربازاری کو بے نقاب کرنے والوں کو جیل میں ڈالا جاتا ہو اور قاتل سرعام
دندناتے پھرتے ہوں۔۔۔ جس دیس کی سینکڑوں میل لمبی سرحدیں بے یارومدد گار
پڑھی ہوں ہر کسی کے آنے جانے کے لئے آسان راہداری ہوتو ایسے حالات میں کون
آرہا ہے کون کیا لا رہا ہے ؟کیوں آیا اور کہاں رہتا ہے ؟کیا کرنا چاہتا ہے
زرہ بھی مشکل نہیں ہے ایسے دیس میں کسی بھی غیر ملکی طاقت کے لئے کچھ بھی
کر گزرنا کوئی مشکل نہیں ہے وہ جب چاہیں آپ کے دلوں پر وار کر سکتے ہیں اگر
آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے خطرات سے آپ کو صرف فوج ہی بچا سکتی ہے تو یہ تاریخی
حماقت ہے اور اگر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی عزیز ہے تو اس دیس کے تمام
اداروں کو اور ایک ایک فرد کو اپنی زمہ داری لینا ہو گی تبھی یہ ممکن ہو
سکے گا کہ آپ دہشت گردوں کو اپنے نونہالوں کی راہ سے دور کھدیڑھ سکیں ۔ورنہ
وہ جب چاہیں جہاں چاہیں آپ کو زخم دیتے رہیں گے اور یہ سلسلہ یوہی چلتا رہے
گا ۔ان شہید نونہالوں کی دردناک و المناک موت کے زمہ دار فقط وہ چند دہشت
گرد نہیں ہیں بلکہ اس دیس کے وہ ادارے جنہیں اس پر نظر رکھنی چاہے کہ ملک
میں کون غیر قانونی داخل ہوا ،وہ لوگ جوچند روپوں کی خاطر جعلی شناختی کارڈ
بیچتے ہیں وہ جو جعلی پاسپورٹ بنا دیتے ہیں وہ جوانہیں اس ملک کا شہری بنا
دیتے ہیں جو چند روپوں کی خاطر انہیں بارڈر کراس کروا دیتے ہیں وہ جو انہیں
اپنے گھروں میں پناہ دیتے ہیں وہ جو چند روپوں کی خاطر انہیں غیر قانونی
اسلحہ فروخت کرتے ہیں ،وہ جو انہیں اپنی ٹکسیوں میں گھماتے ہیں وہ جو انہیں
لباس فراہم کرتے ہیں حتیٰ کے ان سے جڑا ہر ادارہ اور ہر فرددہشت گرد ہے
وقاتل ہے ان بچوں کا جو صحرائے تھر میں بھوک سے شہید ہو رہے ہیں ان بچوں کا
جو دوردراز دیہات کے ایک سکول میں مطالعہ کی غرض سے گئے اور ڈراؤن حملے میں
شہید ہوئے اور قاتل ہیں ان معصوم فرشتوں کے جو کل ہی ہنستے کھیلتے صبح اپنے
گھر سے آرمی پبلک سکول پشاور میں پہنچے اس لئے اگر آپ کو دہشت گردوں کی
تلاش ہے تو مان لوکہ آپ سب دہشت گرد ہو اس لئے پہلے اپنے آپ کے اندر چھپے
دہشت گرد کو مارو۔۔۔اپنا چولہا جلانے کی خاطر دوسروں کے گھر جلانا چھور دو
۔۔۔اور جب دوسرے کا گھر جل رہا ہو تو یہ مت سمجھو کہ وہ آگ آپ کے گھر تک
بھی پہنچ سکتی ہے ۔۔۔زاتیات سے نکلو اور اپنی صفوں میں چھپے زاتی مفاد جیسے
دہشت گرد کو ماردو اور پھر دیکھو کہ کس میں یہ جرات ہو گی کہ سمندر پار سے
آکر تمارے بچوں کو قتل کر سکے گا ۔۔۔ |