دہشت گردوں کیخلاف پوری قوم متحد

سانحہ پشاور نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں تبدیلی بہت دیر سے آتی ہے اور ہم نے ان حالات تک پہنچتے پہنچتے بہت دیر کردی بہرحال دیر آیددرست آید کے مصداق چلیں اب ہی سہی ہم دہشت گردی کے خلاف یکجان تو ہوگئے۔ پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے سیاسی مفادات کو بھلا کر آل پاکستان کانفرنس میں شرکت کی جو دہشت گردوں کے لئے ایک بہت بڑا پیغام ہے کہ ملکی دفاع اور سلامتی کے لئے ہم ایک ہیں۔ وزیراعظم نے اے پی سی میں اس عزم کا اظہار کیااب دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ کی ہی دم لیں گے۔ کانفرنس میں دہشت گردوں کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کی سزا پر عملدرآمد کی منظوری دی گئی ۔ علاوہ ازیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل پلان آف ایکشن تیار کرنے کیلئے بھی کمیٹی بنائی گئی،جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کا ایک نمائندہ شامل ہوگا۔

ہم فیصلے تو بہت کرتے ہیں، تجاویز کے بھی انبار ہیں اور پھرکمیٹیاں بھی بنا لیتے ہیں مگر عملدرآمد کے فقدان کی وجہ سے حالات پھر جمود کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھا لیتے ہیں۔ دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد ہم نے ایسا ہی رویہ اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عفریت ایک کے بعد ایک گھناؤنی واردات کے ذریعے اپنی موجودگی کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔ اب کی بار عزم یہ ہونا چاہئے کہ ہم نے جس چیز کا ارادہ کیا ہے اور جو بھی فیصلے کئے ہیں بغیر حیل و حجت ان پر عملدرآمد شروع کردیا جائے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جو بھی فیصلے سانحہ پشاور کے بعد ہونے والے اجلاس میں کئے گئے ان پرفوری عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے۔ اجلاس کے دوسرے ہی روز جی ایچ کیو پر حملے میں ملوث ڈاکٹر عثمان اور ارشد محمود کو تختہ دار پر لٹکادیا گیا اور دیگر کو انجام تک پہنچانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ضرب عضب میں بھی مزید شدت آگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری افواج کی قربانیاں اس حوالے سے ناقابل فراموش ہیں۔ وہ پہلے سے ہی دہشت گردوں کی سرکوبی میں مصروف ہیں ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی وزیراعظم میاں نواز شریف کو دی گئی بریفنگ سے اس امر کا واضح عند یہ ملتا ہے کہ ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو دہشت گردی کے محرکات،ٹھکانوں،سہولت کاروں اور سر پرستوں سمیت دہشت گردی کے تمام عوامل کی ٹھوس ثبوتوں اور شواہد کے ساتھ مکمل معلومات حاصل ہو چکی ہیں جس کے تناظرمیں دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا ناممکنات میں سے نہیں رہا۔یقینا ان شواہد کی بنیاد پر ہی وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف کو افغانستان بھجوانے کا فیصلہ کیا تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف کالعدم تحریک طالبان کے افغانستان میں چھپے بیٹھے دہشت گردوں کے حوالے سے افغان قیادت کوٹھوس ثبوت پیش کر کے انہیں ان دہشت گردوں کے قلع قمع کیلئے فوری آپریشن کرنے اور انہیں حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کا ٹھوس مطالبہ کیا جاسکے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ میاں نواز شریف نے خود بھی اے پی سی کے شرکاء کو بتایا کہ افغان صدر نے گزشتہ روز انہیں فون کر کے سانحہ پشاور پر افسوس کا اظہار کیا جس پر انہوں نے افغان صدر سے درخواست کی کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پاکستان اور افغانستان کے مابین طے پانے والے فیصلوں پر عملدرآمدہونا چاہیے۔

پھانسی کی سزا پر عملدرآمد شروع ہونے سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک میں دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ واضح رہے 2008میں پیپلزپارٹی کے دور میں عالمی دباؤ پر سزائے موت پرپابندی لگائی گئی تھی۔اس وقت بہت سے دہشت گرد جیلوں میں پڑے ہیں جن کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے مگر طویل عرصہ سے پابندی کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہوسکا تھاجس کی وجہ سے دہشت گرد وں کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ جہاں چاہتے تھے کارروائیاں کرتے تھے کیونکہ انہیں سزاکا کوئی خوف نہیں تھا۔زیادہ سے زیادہ انہیں جیلوں میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں لیکن ان کی جان محفوظ تھی۔ سانحہ پشاور کے بعد ہر طرف سے مجرموں کو ’’پھانسی پھانسی ‘‘کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں کیونکہ ان لوگوں نے بچوں کا قتل عام کر کے ایسا گھناؤنا جرم کیا ہے جو ناقابل معافی ہے۔دہشت گردوں نے ایسی غیرانسانی اور سفاکا نہ حرکت کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ دہشت گرد نہ جانے کس کے اشارے پر اہل اسلام کے خلاف جنگ کر رہے ہیں ۔ عین جنگ کی حالت میں جبکہ ہمارے دشمن کافر ہوں اس وقت بھی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بچوں اور عورتوں پر ہاتھ نہ اٹھاؤ لیکن ان دہشت گردوں نے یہ حرکت کی کہ معصوم بچوں اور عورتوں کودرندگی کے ساتھ وحشیانہ انداز میں شہید کیا ہے۔ اس دردناک سانحہ سے درحقیقت ان کے ماں باپ کے دلوں پر جو قیامت گزری وہ تو گزری ہی ہے ٓج ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کا ہر شہری مسلم ہو یا غیر مسلم اس درد کو اپنا درد محسوس کرتا ہے۔ کوئی قوم جس میں ذرا بھی انسانیت ہو وہ معصوم بچوں پر اپنی بہادری نہیں جتاتی۔

اب پوری قوم اور فوج متحد ہو کر ان کا صفایا کر نے پر کمر بستہ ہوچکی ہے۔ حکومت نے دہشت گردوں اور ان کے مددگاروں کے خلاف بھرپور کارروائی اور آپریشن ضرب عضب کا دائرہ کا ربڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے ضرب عضب کی اب تک کی کامیابیوں دہشت گردوں کے مکمل خاتمہ کی حکمت عملی ،دہشت گردوں کو پھانسیوں پر لٹکانے اور اس کے بعد کے اثرات سے نمٹنے، دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے، اہم تنصیبات کی حفاظت سمیت دیگر دفاعی حکمت عملی کا جائزہ لیا ہے اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کو رعایت نہیں برتی جائے گی۔اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے گا۔اب کی بار اٹھیں ہیں تو دہشت گردوں کو انجام تک پہنچا کر چھوڑیں گئے۔ یہی قوم کے دل کی آواز ہے۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 73209 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.