سانحہ ء پشاور ۔۔۔میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ۔۔؟
(Syed Arif Saeed Bukhari, )
مائیں دروازے تکتے رہ گئیں
بچے سکول سے جنت چلے گئے
سانحہ ء پشاور نے ہر شخص کو غمزدہ کر دیا ۔آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت
گردوں کے حملے کے نتیجے میں 132بچوں سمیت 141افراد کی شہادتیں قومی المیہ
ہے ۔ظالموں نے سکول کی پرنسپل کو بھی زندہ جلا ڈالا۔اس سانحہ کی مذمت کیلئے
زبان ساتھ نہیں دے رہی ۔۔وہ الفاظ نہیں کہ جن سے اس عظیم اور اندوہناک
سانحہ کا دکھ درد بیان کیا جا سکے ۔ساری قوم آزردہ ہے ،کیونکہ بچے تو بچے
ہوتے ہیں ۔یہ یہ ساری قوم کے پھول تھے ، ان کلیوں نے ابھی گلاب بننا تھا ۔۔یہ
تو قوم کے معمار تھے ،ان پر ظلم ڈھانے والے انسان نہیں درندے ہیں ، اولاد
کے دکھ درد سے عاری یہ لوگ کسی صورت آخرت میں بخشیش نہیں پا سکتے ۔۔ان کا
تعلق انہی گروپوں سے ہیں جن کا ملک کو انتشار سے دوچار کرنا ہے، اسلام کو
عفو و درگزر کا درس دیتا ہے ، بڑوں کی کسی کوتاہی کی ساز بچوں کو دینا
انتہائی ظالمانہ فعل ہے۔ بقول صفدرؔ ہمدانی
انسانیت کو پاؤں کے نیچے کچل دیا
ان ظالموں نے دین کا چہرہ بدل دیا
صفدرؔ یہ حادثہ بھی ہوا ارضِ پاک میں
کلیوں کو پُھول بننے سے پہلے مَسل دیا
بیشک ! اس سانحہ پردل خون کے آنسو رو رہاہے ،کوئی ان ظالموں سے پوچھے کہ ان
معصوم کلیوں کا قصور کیا تھا ؟ جنہیں ان لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے
مسل ڈالا ۔؟یہ سوال ایسا ہے کہ جس کا جواب کوئی نہیں دے سکتاکہ معصوم بچوں
کے خون سے ہولی کھیلناکون سا اسلام ہے اور یہ اسلام کی کیا خدمت ہے ۔؟بقول
شاعر
پھول دیکھے تھے جنازوں پر ہمیشہ ہم نے
کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے
حدیث مبارکہ ہے کہ ’’مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان
محفوظ رہے ‘‘مگر شاہد یہ جاہل اور گنوار لوگ جو خود کو اسلام کا ٹھیکیدار
سمجھتے ہیں ،غیرملکی اسلام دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر اپنے ہی مسلمان
بہنوں اور بھائیوں حتیٰ کہ معصوم بچوں کے خون سے ہاتھ رگنے میں عار محسوس
نہیں کرتے ۔ظاہر ہے کہ یہ دہشت گرد کسی طور بھی مسلمان کہلانے کے لائق نہیں
۔۔جو آئے روز اپنے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں ۔وطن عزیز میں اب تک دہشت
گردی کے بے شمار واقعات ہو چکے ہیں لیکن میری زندگی کا یہ سب سے بڑا سانحہ
ہے ۔۔اس سے قبل ایسا کوئی سانحہ پاکستان میں نہیں رونماء ہوا کہ جس میں
بچوں کی اس قدر بڑی تعداد میں شہادتیں ہوئی ہوں ۔ ۔یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہر
سانحہ پر ہم روایتی بیانات داغتے ہیں ۔۔دہشت گردوں کواسلام دشمن قرار دیتے
ہیں انہیں لعن طعن کرتے ہیں اور یہ کہہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ۔۔۔اس قسم
کی بزدلانہ کارروائیوں سے ملک اور اسلام دشمن قوتیں ہمارے حوصلے پست نہیں
کر سکتے ۔اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے ۔اس قسم کے واقعات میں عموماً عام
شہریوں کی شہادتیں ہوتی ہیں حکومت شہداء کے ورثا ء اور زخمیوں کیلئے لاکھوں
روپے کی نقد امداد کااعلان کردیتی ہے اورایسے واقعات کی ذمہ داری بھی بعض
معروف عسکری گروپ قبول کر لیتے ہیں ۔۔اور اکثر و بیشتر ’’خودکش حملہ آور
‘‘کا ’’سر ‘‘برآمد ہونے کی اطلاع دی جاتی ہے اسی طرح اکثر دہشت گردوں کو
بھی موقع پر ہلاک کردیا جاتا ہے ۔شنید ہے کہ گذشتہ روز سیکورٹی فورسز نے
ایک آپریشن میں آرمی سکول پشاور میں حملے کے ماسٹر مائنڈ سمیت متعدد دہشت
گردوں کو بھی ہلاک کر دیا ہے ۔۔۔دہشتگردوں کو’’ واصل جہنم ‘‘کرنا بہت ضروری
ہے مگر ان میں سے کسی ایک کو زندہ پکڑنا اور اس کے ذریعے اصل ملزمان بارے
تفتیش کرنا اور اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا وقت کی اہم ضرورت ہے ،ورنہ
اس تمام کا رروائیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔۔یہی وہ بنیادی نکتہ ہے کہ
آج تک کسی بھی ایسے سانحہ بارے کوئی ایسی پیش رفت نہ ہو سکی کہ جس سے
’’دہشت گردوں ‘‘کا سراغ مل سکے یا انہیں کیفر کردار تک پہنچایاگیا ہو ۔یہ
بات طے ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی واقعہ اس وقت تک وقوع پذیر نہیں ہو سکتا
جب تک کوئی اندر کا آدمی یعنی ’’غدار ‘‘ دشمن کی مدد نہ کرے ۔۔یقیناً اس
سانحہ میں بھی آرمی سکول کے ملازمین کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار
نہیں دیا جا سکتا۔۔لوگ مر رہے ہیں حکمران ان واقعات کی روک تھام میں عملاً
ناکام ہو چکے ہیں پھر بھی ’’کُرسی‘‘ چھوڑنے کو تیار نہیں ۔۔سارا ملک غیر
ملکی ایجنٹوں کے نرغے میں ہے ۔ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث’’بلیک واٹر
‘‘نامی امریکن تنظیم سمیت مختلف گروپوں اور ان کے ایجنٹوں نے ملک کے تمام
اہم شہروں میں بھاری رقوم پر بڑی بڑی کوٹھیاں کرائے پر لے رکھی ہیں ۔۔غیر
ممالک سے کروڑوں روپے کا فنڈ انہیں باقاعدگی سے موصول ہو رہا ہے ،یہاں کوئی
شریف شہری اگر اپنی محنت کی کمائی سے کچھ رقم پس انداز کرکے کوئی کاروبار
شروع کرنا چاہئے تو اس سے اس کے ذرائع آمدن پوچھے جاتے ہیں اور اس کی زندگی
جہنم بنا دی جاتی ہیں ۔۔مگر ’’بلیک واٹر ‘‘ نامی تنظیم سمیت بہت سے انتہاء
پسند اور ملک و اسلام دشمن گروپوں اور تنظیموں نے سارے میں اپنے قدم جما
رکھے ہیں جنہیں سارے ملک میں دندنانے کی آزادی حاصل ہے۔مقام افسوس ہے کہ
کسی بھی بڑے سانحہ کے بعد ہم لوگ محض افسوس پر اکتفا کرتے ہیں اور پھر
دوسری سانحے کا انتظار کرنے لگتے ہیں ۔۔حکومت کے ذمہ داران بھی ایسے ہر
واقعہ پر وہی گھسے پٹے روایتی بیانات دے کر اور تقریریں کرکے یہ سمجھتے ہیں
کہ انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے ۔۔پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ
جہاں غیرملکی ایجنٹ سرعام اپنی مذموم سرگرمیوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور کوئی
انہیں ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرسکتا ۔۔ہم لوگ عملاً اس قدر بے حس ہو چکے
ہیں کہ ہم اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے،حتیٰ
کہ مشکوک افراد پر نظر رکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے ۔اور ہماری صفوں
میں موجود یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی ایسے واقعات میں ان کے مددگار بن کر
مالی مفادات اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔۔جو بڑا المیہ ہے ۔۔۔آخر کب تک ہم اپنی
آنکھیں بند کرکے یہ ظلم برداشت کرتے رہیں گے ۔۔۔آخرکب ان دہشتگردوں کا
صفایا ہوگا ۔۔کب اس ملک میں امن قائم ہوگا ۔۔۔؟ اس کا جواب شاہد کسی کے پاس
نہیں ۔۔اس ملک کے حکمرانوں کو اب اپنی آنکھیں کھول لینا چاہئے ۔ملک میں امن
و امان کی بحالی کے ذمہ دار اداروں کو اپنے فرض کا احساس کرنا چاہئے کیونکہ
موجودہ صورتحال ہر لحاظ سے ملکی سلامتی و استحکام کیلئے نقصان دہ ہے ۔۔ہر
شہری خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے ۔حکمران بھی سیکورٹی کے بھاری بھر کم لشکر
کے بغیر کہیں جا نہیں سکتے ،گھر سے نکلنے والے واپس اپنے پیاروں کے پاس
پہنچیں گے یا نہیں ۔۔یہ سوال بھی ہرماں ،باپ ، بہن اوربھائی کے دل میں
اٹھتا ہے کہ پتہ نہیں ہمارے پیارے گھر واپس لوٹیں گے بھی یا نہیں ۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے ٹھوس حکمت عملی اختیار کی
جائے ۔غم زدہ دلوں کو تفل تسلیاں دینے کی بجائے عملاً ملک دشمن عناصر کو
اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کا عمل مزید تیز تر کرناہوگا ۔اس سانحہ پر
پوری قوم جس کرب سے گذر رہی ہے ۔اس کا اندازہ ہمیں ہو جانا چاہئے دعا گو
ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ! معصوم شہدا ء کی قبروں کو اپنی رحمتوں سے منور کردے
۔۔اور تمام والدین اور ان کے عزیز و اقارب کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت
اور توفیق عطا فرمائے ۔سانحہ پشاور پر میرا اپنا ایک شعر :
جنت کے پھول تھے جو جنت میں جا بسے، بخاریؔ
راندہ درگاہ تھے جو، ’’کُتے ‘‘کی موت مارے گئے
اوربقول محمد خلیل ہاشمی
سنو! یہ خون کی ہولی، یہ ندیاں یہ لہو
جسے بہانے کا تم نے ہے اہتمام کیا
گھروں کو تم نے اجاڑا ،ویران شہر کیا
خدا سے تم نہ ڈرے، ظلم بے نیام کیا
یہ دین امن کا پیغام بھی، امانت بھی
زمانے بھر میں میرے دیں کو نیلام کیا
اس سانحہ پر طالب ؔ راناکی صدائے سوز بھی نذر قارئین ہے:
آنکھیں برستی ہیں، جگر چھلنی ہیں آج ماؤں کے
گریا پھیلا ہوا ہے، ہر سو رنگ سرخ ہیں ہواؤں کے
گل ہوئے چراغِ آشیاں، کمر ٹوٹی ہے بزرگوں کی
بھیگے پلو ہیں میری ماں، بہنوں کی رداؤں کے
مذمتیں ہیں نام کی، ہیں رکھ رکھاؤ کی تسلیاں
کہاں بدلے ہیں شوق و مشغلے وطن کے خداؤں کے
بکھرے بکھرے پڑے ہیں ہر سو گلاب تازہ زمین پر
ریزہ ریزہ لہو لہو ہیں، ٹکڑے چار سو قباؤں کے
فیصل اظفر علوی کے چند اشعار
کیسا تمہارا دین ہے کیسے ہو مسلماں؟
دامن ہماری ماؤں کا کیوں غم سے بھر دیا؟
پڑھنے کے واسطے گئے مکتب میں ہم مگر!
جنت کی آرزو میں ہمیں قتل کر دیا!
۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔ |
|