مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے ؟
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
میری نہیں سب کی آنکھیں نم تھیں۔
میرا دل نہیں سب کا دل ٹوٹ گیا۔ زبان رکھتے ہوئے بھی الفاظ نہیں مل رہے۔ جب
اُن معصوم پھولوں کو بارود کی بُو نے جلا کر رکھ دیا۔ سوچنے کے دعویداروں
کے ذہن مفلوج ہو گئے جب انھوں نے لہو میں لپٹے معصوم کفن دیکھے۔ دنیا دہل
کر رہ گئی۔ میں تو سمجھا کہ ہم سب ایک عہد کر کے اٹھیں گے۔ لیکن ہم نے تو
صرف ماتم کیا۔ سبق سیکھنے کی صلاحیت تو ہم میں ہے ہی نہیں۔ حکومت کا تو بس
نہیں چلتا ورنہ وہ اتنے بڑے سانحے کے بعد صرف یہ اعلان کر دیتی کہ آج کے
بعد غیر معینہ مدت کے لیے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگ گئی۔ اور
پھر اسپتال میں اور جائے وقوعہ پر دو جگہ فوٹو سیشن ہوتے اور ایک جگہ فتح
کی تصویر بنائی جاتی۔ اور اللہ اللہ کہتے ہوئے اپنے انتہائی اہم کاموں میں
مصروف ہو جاتی۔
اس طرح کے سانحات کے بعد کچھ لوگ برساتی مینڈکوں کی طرح نکل آتے ہیں۔ ایک
وہ ہوتے ہیں جو مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ جو صرف ہماری آنکھوں کو دھوکا
دے رہے ہوتے ہیں۔ جو جذبات کا استعمال جانتے ہیں۔ ایک وہ ہوتے ہیں جو
الزامات کا سلسلسہ شروع کر کے اصل راہ سے ہٹا دیتے ہیں۔ تیسرے وہ ہوتے ہیں
جو اپنے مفادات کے لیے جھوٹی کہانیوں کو جنم دیتے ہیں۔ چوتھے وہ ہوتے ہیں
جو اپنا جھنڈا اونچا کرنے کے لیے آدھا سچ بولتے ہیں۔ ایسے ڈرامے باز ہمارے
آنسوئوں کو بھی اپنا سونا بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک بہترین لیڈر
اور اچھی قوم وہ ہی ہوتی ہے جو ایسے مواقعوں پر اپنا شعور نہیں کھوتی وہ
ایسے ڈرامے کرنے والوں سے دور ہٹ کر خود کو اس عفریت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
دور لے کر جاتی ہے۔
سارے ملک کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے سے ہوتا ہے، حکمران جب بے علم ہوں،
علما جب بے عمل ہوں اور فقراء جب بے توکل ہوں اور ساتھ ساتھ جب آپ کی
دشمنی عقل سے ہو جاتی ہے تو پھر وہ ملک پاکستان بن جا تا ہے۔
دہشتگردوں کی جانب سے ایک کے بعد ایک دہشت گردی کی واردات کے باوجود حقیقی
بنیادی وجوہات سے چشم پوشی کی جاتی رہی ہے۔ ہر دہشت گرد کارروائی کے بعد اس
گروہ کی سفاکی کو بین الاقوامی سازش، شرعی نظام کے نفاذ کی جد و جہد،
امریکی جنگ، ڈرون حملوں، اور پاک فوج کے آپریشن کے ردِ عمل کے طور پر ابھار
کر طالبان کو سیاسی ، مذہبی، اخلاقی اور جنگی جواز فراہم کیا جانا انتہائی
قابلِ اعتراض فعل ہے کیونکہ درحقیقت یہی نظریاتی حمایت اس قاتل گروہ کی
اسقدر مضبوطی کا سبب بھی بنی ہے۔
پشاور آرمی پبلک سکول میں نہتے بچوں کے قتلِ عام کے بعد سیاسی اور عسکری
قیادت نے جس ولولے سے متحد ہو کر دہشت گردوں کے خلاف کمر کسی ہے گر یہی
مستعدی ہزارہ کمیونیٹی کے قتل عام ، پشاور چرچ کے خودکش دھماکوں، مذاکرات
کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کی گردنیں اتارے جانے یا اقلیتوں کو مذہب کے
نام پر زندہ جلانے کے مواقعوں پر دکھائی گئی ہوتی تو شاید اس انسانیت سوز
ظلم کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔پر شاید وطنِ عزیز کے خوابیدہ
شعور اور قومی یکجہتی کو جنجھوڑنے کے لئے اس قوم کے نرم گرم رخسار پر کسی
ایسی عظیم قربانی کا زناٹے دار تھپڑ درکار تھا ! اب دیکھنا یہ ہے کہ اس
تھپڑ کی سنسناہٹ قومی یکجہتی اور بیدار ہوئے شعور کو کتنی دیر تک جگائے
رکھتی ہے!!!
ہمیں کتنے سال ہو گئے سنتے ہوئے کہ ملک دہشتگردی کا شکار ہے اور ہم اس سے
نمٹنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ مگر پھر یہ ہوتا ہے کہ کوئی نیا سانحہ رونما
ہوتا ہے، بریکنگ نیوز چلتی ہیں، مذمتی بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ
شروع ہوتا ہے جس کی جگہ حکومتی اور اپوزیشن نمایندوں کی الزام تراشی اور
جھوٹے سچے وعدے لے لیتے ہیں۔ یوں اس سانحے سے اک طلاطم برپا ہوتا ہے، وقتی
گرد اٹھتی ہے اور پھر بیٹھ جهاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے، مگر اب کی بار تھوڑا
مختلف ہے-
ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر بہت باتیں ہو گئیں، اختلافات بھی ہو گئے، دوسروں
کے بزرگوں کو گالیاں بھی دے لیں اور اپنے بڑوں کے کارنامے بھی گنوا لیے کہ
کس نے یہ نام نہاد’جہاد‘ شروع کیا، کس نے فنڈ کیا، کون کون امیر ہوا اور
کون کون شہیدِ راہ ہوا۔ کس نے کس نظریے کو پروان چڑھایا، کس نے کهل کر
حمایت کی، کون ایک فون پر ڈهیر ہوا اور کون اسلام کے نام پر اسلام آباد پر
قابض ہوا۔ کس نے طالبان کو بیٹا کہا اور کون منہ بولے بیٹوں کو سمجھاتا رہا۔
اب یہ گڑھے مردے اکھاڑ کر ہم کیا کریں گے؟؟ اب اس غصّے کی آگ سے یا برسوں
پہلے مرنے والوں کی لاشوں کو جلا لیا جائے یا اس ناسور کو راکھ کر دیا
دیاجائے جس نے اس قوم کے باریش بزرگ سے لیکر دودھ پیتے بچے تک نگل لیے۔
یہ تقریریں کرنے، آنسو بہانے سے زیادہ حکمت عملی کے تعین اور فیصلہ کا وقت
ہے۔ ایک ایسا فیصلہ جو ہمیں ایک دو دن کا نہیں بلکہ نسلوں کا سکون نصیب کرے۔
باتیں کرنے سے زیادہ ہمیں خود کو یقین دلانا ہو گا کہ ہم کسی طور بھی
نفرتوں کی رکھوالی نہیں کرینگے۔ ہمیں یہ یقین کرنا ہو گا کہ امن، بھائی
چارے، تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمے کے لیے ہم سب ایک ہیں۔ سیاست دان، فوج
اور عوام۔ ہم کسی کو کاروبار اور کسی کو نظریہ کا نام دے کر اپنے معصوم
بچوں کو اُس کی بھینٹ نہیں چڑھائیں گے۔ کبھی نہیں۔ اور کبھی نہیں۔ |
|