سانحہ پشاور کے بعد پوری
قوم یک جان ہوگئی اور تمام لوگ یکسو ہوگئے کہ دہشت گردوں کے خلاف سخت تری
کارروائی ہونی چاہئے، اس معاملے پر کسی کو کوئی ابہام نہیں تھا۔ عمران خان
نے اس موقع پر دھرنا ختم کرنے اور اس نازک موقع پر قوم کے ساتھ کھڑے ہونے
کا فیصلہ کیا، جماعت اسلامی نے بھی اگر مگر چھوڑ کر واضح طور پر دہشتگردوں
کی بیخ کنی کی بات کی، پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر تھی اور سب متحد ہوگئے
تھے۔ لیکن اس موقع پر ایم کیو ایم کے قائد کو قوم کی یکجہتی اور اتحاد ایک
آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور قوم کو
تقیسم کرنے کے لیے لال مسجد کا قصہ چھیڑ دیا، اس موقع کو انہوں نے اسلام کے
خلاف استعمال کیا اور لال مسجد کو مسجد ضرار کہہ کر ڈھانے کا مطالبہ کردیا،
اسی پر بس نہیں کیا بلکہ گذشتہ روز انہوں نے ایک انتہائی غیر ذمہ داری اور
جھوٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان داغ دیا کہ لال مسجد میں بچیوں کو یرغمال
بنایا گیا ہے۔ ان کے جھوٹ کا پول تو اسی وقت کھل گیا جب انہوں نے کسی ایک
بچی کے والدین کا نام لینے یا نشاندہی کرنے کے بجائے صرف اس بات پر اصرار
کیا کہ صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف اور دیگر حکام صرف ان کی بات پر عمل کرتے
ہوئے لال مسجد پر چڑھائی کردیں۔
الطاف حسین کی ان باتوں سے اب یہ ثابت ہوچکا کہ وہ ایک غیر ملکی ایجنٹ ہیں
اور ان کا پاکستانی قوم اور پاکستان کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے
قبل بھی وہ ایسے کئی متنازع اور خلاف اسلام بیانات دے چکے ہیں۔ اس لیے قوم
ان کے شر سے بچے اور ان کی باتوں میں نہ آئے بلکہ اس وقت متحد ہوکر دہشت
گردوں کے خلاف قوم کا ساتھ دے۔ اور دعا کرے کہ دہشت گردوں کو پھانسییوں کا
عمل جاری رہے تاکہ دہشت گرد کیفر کردار تک پہنچ سکیں، تمام دہشت گرد خواہ
وہ مذہبی دہشت گرد ہوں یا لسانی، شہروں میں ہیں یا ددیہات میں، سندھ میں
ہوں یا کے پی کے میں۔
آخری بات یہ کہ الطاف حسین کی بات کو قرآ ن سے ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے
کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ طے کرلیں کہ قرآن کی بات کرنی ہے یا اپنے
مفاد کی بات۔ صرف اس ایک معاملے پر قرآن کا حوالہ نہ دیں بلکہ پہلے یہ طے
کرلیں کہ ہم نے ہر معاملے پر قرآ ن و حدیث کی بات کرنی ہے ۔تاکہ ان کے
تبصروں کا اسی حساب سے جواب دیا جاسکے۔ |