خون ہے بس‘خون ہی خوں‘ذرا ٹھہرو
(Tehzeeb Hussain Bercha, )
عظیم صوفی حضرت جلال الدین رومی
ؒ فرماتے ہیں
’’ میں نے بہت سے انسان دیکھے ہیں جن کے بدن پر لباس نہیں ہو تا (اور)میں
نے بہت سے لباس دیکھے ہیں جن کے اندر انسان نہیں ہوتا‘‘
گزشتہ دنوں پھولوں کے شہر پشاور کے ایک سکول میں پیش آنے والے خونچکاں
واقعے نے پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں دردِ دل رکھنے والے انسانوں کو
خون کے آنسو رُلانے پر مجبو ر کیا لیکن گردشِ خون میں مذہبی انتہا پسندی
سرایت کرنے والے انساں نما درندوں اور طالبان کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھنے
والے اشرافِ کمینہ کار کے لیے یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے۔اس واقعے میں 6سے
16 سال تک کے پھول جیسے بچوں کو جس طرح سفاکیت کا نشانہ بنایا گیااسے دیکھ
کر انسانیت کے ہی رونکھڑے کھڑے ہو جاتے ہیں جبکہ خونِ طفلاں سے رنگین کلاس
رومز ‘فرش پر بکھری معصوم بچوں کی لاشیں اور خوں آلود کتابیں دیکھ کر آج کے
دور کے حضرتِ انساں سے ہی وحشت ہوتی ہے۔کیونکہ اس حملے کی منصوبہ بندی اور
حملے کی کامیابی پر جشن منانے والے بھی آج ہماری ہی طرح اسی ملک کی فضاؤں
میں سانس لے رہے ہیں اور اپنے جگر گوشوں کی سکول سے واپسی کی منتظر ماؤں کو
لاشوں کے تحفے بجھوا کر دین کی خوب خدمت کر رہے ہیں۔
پاکستان کے ابھرتے ہوئے شاعر علی زریونؔ نے کیا خوب کہا ہے
طالبانِ بہشت دھیان رہے
یہ گلی ایک دوزخی کی ہے
اس واقعے کے بعد آرمی چیف راحیل شریف نے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں
کو ان کے انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور ڈیتھ وارنٹ پر دستخط
کے بعد کئی سالوں سے سزائے موت کے منتظر دہشتگردوں کو سولی پر چڑھانے کے
احکامات جاری کیے گئے جس کے بدنام زمانہ دہشتگردوں کو تختہ دار چڑھانے کا
سلسلہ شروع کیا گیا ہے جبکہ جنوبی وزیر ستان کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں
دہشتگردوں کے روپوش علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے اب تک ہزاروں
دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔یقیناََ یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔
پاکستان کے معاشرتی مسائل میں ا س وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی کا ہے اور
بد قسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں گہرائی تک پہنچ چکی ہیں
اور ہمیں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے جڑوں تک پہنچ کر خاتمہ کرنا نہایت
ضروری ہوگا۔پاکستان میں ۱۹۷۰ کی دہائی میں افغان ‘روس جنگ میں جس طرح جہادی
کاروائیوں کا زہر بویا گیا آج تک ہم اسی کی سزا کاٹ رہے ہیں کیونکہ قدرت کا
نظام ہے کہ جو فصل بوئی جائے وہی فصل ہی کاٹی جاتی ہے۔اس کے علاوہ
1970-80ہی کی دہائی میں متنازعہ اسلامی پالیسیوں کے ذریعے مذہبی انتہا
پسندی اور فرقہ ورانہ اختلافات کو فروغ دیا گیااور اس مقصد کے لیے اسلامی
مدارس کا استعمال کیا گیا۔تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک پاکستان میں
مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت پھیلانے والے اسلامی مدارس کا وجود
قائم ہے تو اس ملک کی سرزمین سے دہشتگردی کے خاتمے کے خواب کا شرمندۂ
تعبیرہونا نہایت مشکل ہے۔اس کے علاوہ پاکستان میں عدلیہ کا نظام شفافیت پر
مبنی نہیں ہے جس کی وجہ دہشتگرد بنا کسی خوف و خطر کے اپنی دہشتگردانہ
کاروائیوں کو سر انجام دیتے ہیں اور بنی آدم کا خون بہاتے ہیں ۔اگر ہم ماضی
کے اوراق کو اٹھا کر دیکھیں تو واہگہ بارڈر کا حملہ ہو یا کوہاٹی چرچ کا
‘کراچی ڈاکیارڈ کا واقعہ ہو یا مہران ائیر بیس کا ‘کامرہ ائیر بیس کا حملہ
ہو یا کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی قتل عام کی داستاں۔ان سب دہشتگردی کے
واقعات میں سے کسی ایک میں بھی ملوث دہشتگرد کو نشانِ عبرت بناتا جاتا تو
ہمیں آج اس دن کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔آج ہمارے ملک میں عدالتی نظام کی
کمزوریوں کی وجہ سے ہی کراچی سے کے کر خیبر تک بنی آدم کے ناحق خون کی
ندیاں بہائی جاتی ہیں اور قتلِ عام کا سلسلہ جاری ہے۔
بقول جونؔ ایلیا
مت نکلنا کہ ڈوب جاؤ گے
خون ہے بس‘خون ہی خوں‘ذرا ٹھہرو
آج نہایت بد قسمتی کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی رگ رگ میں جس طرح
مذہبی انتہا پسندی کا ناسور پھیل چکا ہے اس کا نہایت کم وقت میں سدباب کرنا
نہایت مشکل ہے کیونکہ اس سکول آف تھاٹ کی جڑیں بڑے بڑے اداروں تک پھیلی
ہوئی ہیں لیکن اس ملک میں کریمنل جسٹس سسٹم اور اس کے Componentsجیسے کہ
پولیس ‘ججز اور عدالتوں کی کارکردگی کو بہتربنا کر اور اسلامی مدارس میں
اصلاحات کرکے دہشتگردی جیسے معاشرتی مسائل پر کا فی حد تک قابو پایا جا
سکتا ہے۔ |
|