پاکستان میں گزشتہ 14 سالوں میں
دہشت گردی کے بڑے اور المناک حادثات رونما ہوئے ہیں ان حادثات میں مرنے
والے افراد کی تعداد اب ہزاروں میں ہے ۔ہمارے ہاں اب ایسے حادثات تسلسل سے
ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے ان واقعات نے قوم کے مزاج پر بھی اثر ڈالاہے جن
واقعات میں مرنے والوں کی تعداد درجنوں میں ہو قوم اس کا کوئی خاص نوٹس
نہیں لیتی ہے اور حکومت بھی ایسے واقعات پر واجبی سے بیانات دینے پر ہی
اکتفا کرتی ہے ہاں البتہ جس کسی سانحے میں مرنے والوں کی تعداد سو سے تجاوز
کر جائے تو رد عمل بڑا پُر جوش انداز میں سامنے آتا ہے ۔ماضی قریب میں
کراچی ،لاہور اور پشاور میں عاشور،چہلم اور چرچ پر حملوں نے قوم میں بھر
پور ارتعاش پیدا کیا حکومت بھی کچھ روز متحرک رہی پھر وہی خاموشی اور عمومی
طرزِحکمرانی و زندگی چلتا رہا۔اگر ہم اپنے اوپر ہونے والے پہلے خود کُش بم
دھماکے کے بعد سنجیدگی اور دیانت داری کا مظاہرہ کرتے اور ملک میں شروع
ہونے والی دہشت گردی کی خطرناک لہر کا ادراک کر لیتے تو حالیہ پشاورکا
16/12کا واقعہ پیش نہ آتا۔ بدقسمتی سے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ قوم بھی حالات
سے نظریں چرانے کی عادی ہو چکی ہے ہم صرف مخصوص اداروں کی پیدا کردہ سوچ پر
ہی متحرک ہوتے ہیں اور پاکستان میں مضبوط ادارہ جاتی سوچ کے تحت ہی اپنی
رائے قائم کرتے ہیں اب ملک کی سول حکومت بھی ان اداروں کے اشاروں پر چلتی
ہے بلا شبہ مقننہ ہی بااختیار ادارہ ہے مگر دیگر طاقتور ادارے اسے اپنی
خواہشات کے مطابق پالیسی بنانے کا کہتے ہیں ایسے اداروں کے لوگ ہی ذرائع
ابلاغ میں موجود ہیں اور وہ ان کی منشا کے مطابق رائے عامہ تشکیل دیتے ہیں
۔پشاور کے سانحے کے بعد پاکستانی قوم کو موجودہ حالات کو بڑے دقیق انداز
میں سمجھنا ہو گا حکمرانوں اور اداروں کے درمیان طاقت کے حصول کی کشمکش کو
جانچنا ہو گا۔ہم گزشتہ 14سال سے ایک جنگ میں ہیں اور اب تک اس کے محرکات کو
سمجھ نہیں پائے ۔ہمارے حکمران اور ادارے کیوں ناکامی کا شکار ہیں ؟اعلیٰ
ذمہ داران فرماتے ہیں کہ نانبائی زیادہ روٹیاں لینے والوں پر نظر رکھے کیا
خوب نصیحت فرمائی ہے اپنی کارکردگی صفر ہے اور دوسروں کو ہدایات جاری کر
رہے ہیں ان اداروں اور ذمہ داران سے یہ سوال کیا جا نا چاہیے کہ پشاور میں
دہشت گرد 8چیک پوسٹیں کس طرح عبور کر کے سکول میں داخل ہوے ہیں ۔قوم افسوس
تو منا رہی ہے مگر کیا یہ سوال نہیں اٹھانا چاہیے کہ کس کی غفلت اور
لاپروائی سے یہ سانحہ رونما ہوا۔شمعیں روشن کرنے،ریلیاں نکالنے اور بیانات
دینے سے جذبات کا اظہار تو کیا جا سکتا ہے مگر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا
جا سکتا ہے ۔گزشتہ آٹھ سال سے حکمران جعلی موبائل فون سمیں بند نہیں کروا
سکے وہ طاقتور موبائل فون کمپنیوں اور ان کے کمیشنوں کے سامنے بے بس ہیں ۔جہاں
طالبان نے اس سانحے کی ذمہ داری قبول کی ہے وہاں حکومت اور اس کے اداروں کو
بھی اپنی نااہلی اور نالائقی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے ۔اتنے بڑے سانحے
کے بعد کم از کم کچھ سول اورفوجی ذمہ داران کو مستعفی ہو جانا چاہئے تھا ۔اس
سانحے کے بعد فوری پھانسی دینے کے عمل پر سے پابندی اٹھائی گئی ہے جس کا
مقصد قوم کے جذبات کو کم کرنا اور انہیں حقیقت حال سے دور رکھنا ہے بلاشبہ
یہ ایک بڑا قدم ہے مگر ریاست کو ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف مزید سخت
اقدامات کرنے ہوں گے ۔ قوم نے پشاور میں 132بچوں کی شہادت پر شدید ردِ عمل
دیا ہے جو کہ درست قدم ہے مگر یہی قوم تھر میں 150بچوں کی ہلاکت پر کیوں
خاموش ہے؟ یہ بچے بھوک اور غربت کی وجہ سے بیمار ہوئے اور ہسپتالوں میں
سہولیات اور ادویات نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے ان کی ناحق موت کا مقدمہ کون
لڑے گا ؟ان کی موت کے ذمہ داران کے خلاف آپریشن کون کرے گا؟سرگودہا میں آٹھ
بچے ہسپتال میں آکسیجن نہ ہونے سے مر گئے کون ان بچوں کی موت کا سوال
اٹھائے گا؟آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی قوم اپنے حقیقی مسائل کو
سمجھے۔ادارہ جاتی سوچ کی بجائے اپنی سوچ کو پروان چڑھائے اور تمام مسائل کا
درست ادراک کرے ۔اپنے حکمرانوں کی ہر قسم کی غفلت پر ان کے خلاف احتجاج کرے
اور ان کا شدید احتساب کرے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان اور دہشت گرد اس
ملک کے بد ترین دشمن ہیں مگر ان دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے بھی
پاکستان کے خیر خواہ نہیں ہے اور اسی طرح وہ حکمران اور افسران جو دیگر قسم
کی آفات اور اموات کے ذمہ دار ہیں وہ بھی پاکستان کے نہ صرف دشمن ہیں بلکہ
اس ریاست کی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں - |