سانحہ پشاور پر قومی آنسواور عزم
(Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali, )
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم
ویسے تو گذشتہ چھ برس میں موت کے سوداگروں کی سفّاکانہ کاروائیوں میں
تقریبا بارہ ہزار چار سو نو بچوں کی شہادت کا صدمہ پہلے ہی کتنے گھروں کی
رونقیں چھین چکا ہے وطن عزیز کے کسی بھی کونے میں دہشت گردی کی واردات اور
ناحق خون ٹپکنے کی بات سے دل پہ ضرب لگتی ہے مگر ۱۶ دسمبر کو آرمی سکول
پشاور کے نو سے سولہ سال عمر کے ۱۳۲ بچوں پر ڈھائی گئی بربریّت نے قومی
ضمیر کو ایک گہری اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔لگتا ہے اس سانحہ نے سینوں میں
پتھر رکھنے والوں کو بھی جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اس داستان ظلم کی مذمت اور
اس پر اظہار غم کے لیے ڈکشنریز کے الفاظ اورغیض و غضب کے انداز تنگ دامانی
کا شکار نظر آتے ہیں۔ کہ ایک سکول کے پھول موت کی دھول کی کیسے نذر ہو گئے۔
چشمِ تصور، نرم و نازک پھولوں کی خوشبو پربارود کی بدبو کی یورشوں کا تصور
کرنے سے قاصر ہے ۔ گلشن انسانی کی نرم و نازک کلیوں پر بد مست ہاتھیوں کی
یلغار کا خیال کرتے ہی دل و دماغ پر ملال چھا جاتاہے۔ آرمی سکول کے فرش پر
خون کے بنے جوہڑ، گولیوں سے چھلنی دیواریں، بچوں کے اجسام کے چیتھڑے، اعضاء
کے لوتھڑے، خون آلود کتابیں اورکاپیاں، تڑپتے لاشوں کی دھاریں اور
قطاریں،جلے کٹے رخسار ، ہڈیوں اور بوٹیوں کے انبار ،قوم کے نونہال آخری
لمحات کی تلخیوں کا سسکتی ماؤں سے تذکرہ کیے بغیر جبر کی ایک سیاہ تاریخ
اپنے ہمراہ لیے ملک عدم کی طرف کوچ کر گئے ہیں ۔جنہیں صبح سویرے ماؤں نے
دعاؤں اور بوسوں کی چھاؤں میں رخصت کیا تھا وہ مکتب سے ہی مرقد میں جا
پہنچے وہ ماؤں کی گود کی طرف لوٹنے سے پہلے ہی گور میں پہنچا دئیے گئے ۔وہ
کلاس روم کی کرسیوں سے ہی قبروں میں منتقل ہو گئے۔ وہ ہنگامہ محشر تھا جب
گھروں سے اپنے بوٹوں میں آنے والے تابوتوں میں واپس بھیجے گئے۔ اس دلدوز
سانحہ کو دیکھ کر یہ آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں کا ش کہ وہ صبح کے وقت ہی
اپنی ماؤں سے کہہ دیتے ۔
ماں مجھے بھی صورت موسیٰ بہا دے نہر میں
قتل طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں
’’ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ‘‘ کہنے والے جگنو عین نصف النہار کے
وقت ظلم و ستم کی سیاہ رات میں گم ہو گئے ہیں ۔بچوں کی چیخیں سکول کی چھتوں
سے ٹکراتی رہیں اور والدین کی سسکیاں انہیں پشاورورسک روڈ پر رولاتی رہیں
۔انسانی جانوں کے عوض جنت کی ٹکٹ خریدنے والوں کو کیا خبر آرمی سکول میں
کٹے جلے اعضاء کے ڈھیر میں ایک ماں اپنے جگر پارے کے اعضاء کیسے تلاش کرتی
ہے۔ لال مسجد کے مولوی عبد العزیز کو کیا پتہ ہے کہ ہسپتال میں شہید بچوں
کی لسٹ میں بچے کا نام آ جانے کے بعد پیچھے کیا بچتا ہے؟
اپنی انانیت کو شریعت بتانے والے کیا جانیں مادر علمی کا وقار اور ایک بچہ
مومن کا تقدس کیا ہوتا ہے؟ دین کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو کیا خبر
کہ ہمارے دین نے تو کسی بے گناہ کو خون میں نہلانا تو کیا اسے اسلحہ سے
ڈرانا بھی حرام قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کے گلے کاٹنے والے درندوں کو کیا خبر
ہمارے رسول ﷺ نے تو بکری کے سامنے چھری تیز کرنے والے پر بھی ناراضگی کا
اظہار کیا ہے۔ اپنے خود ساختہ شریعت کے لیے اقتدار کے خواب دیکھنے والوں کو
کیا معلوم ہمارے رسول ﷺ نے گھونسلوں میں بیٹھے پرندوں کو بھی امن کا لائسنس
جاری کیا ہے ۔دھوکا کھائے دھماکے داروں بے دین بمباروں کو کیا خبر دل
بہلانے کے لیے کیا گیا چڑیا کا قتل بھی قیامت کے دن ایک بڑا جرم قرار پائے
گا ۔آتش و آہن کے ان حواریوں کوکیا ادراک کہ اسلام نے غیر مسلموں کو بھی
اگرچہ وہ حالت جنگ میں ہوں جلانے کا حکم نہیں دیا۔ دین کے نام پر دغا کرنے
والوں کو کیا خبر جس پاکستان کو روزانہ آگ لگانا وہ کار ثواب سمجھے ہوئے
ہیں یہ بیس لاکھ مسلمانوں کی شہادت کے اجر میں قائم ہونے والی مسجد ہے ۔ان
دینداغ لوگوں کے کرتوتوں سے پوری قوم کے کلیجے منہ کو آ رہے ہیں ۔اور ہر
طرف اسلام اور مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے سانحہ پشاور کو دیکھ کر
میرا احساس قومی ضمیر سے اور شہداء کے والدین سے یوں تعزیت کر رہا ہے ۔
یہ خون جو ٹپکا مکتب میں کل علم کے ان پروانوں کا
cیہ انسانوں کا کام نہیں یہ کام ہے کچھ حیوانوں کا
نوخیز اجالوں کے جگنو منزل کی طلب میں نکلے تھے
کیا جرم تھا چھوٹی عمروں میں فردوس کے اِن مہمانوں کا
آلام کی چکّی میں پِس کر جو لوٹ کے واپس گھر آئے
جل راکھ ہوئیں جن کی کلیاں کیا حال ہے ان گلدانوں کا
ہماری قابل فخر افواج تو بہت کچھ کر کے کہتی ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ
چکی ہے مگر ہمارے حکمران کچھ کیے بغیر ہی بیان داغ دیتے ہیں کہ ہم نے دہشت
گردوں کے خلاف جنگ جیت لی ہے مگر ضرب عضب کے بعد بھی واہگہ بارڈر لاہور اور
آرمی سکول پشاور پرطالبان کے حملوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کی جڑیں
ہمارے ملک میں کس حد تک مضبوط ہو چکیں ہیں۔جب بھی کو ئی ایسا سانحہ رونما
ہوتا ہے اس کی حرارت سے قومی ضمیر پہ جمی برف تھوڑا سا پگھلتی ہے اور وقت
گذر نے کے بعد پھر جم جاتی ہے اصل میں جب سوات میں اسی مولوی فضل اﷲ کے ظلم
کا نشانہ بننے والے پیر سمیع اﷲ چشتی جیسے لوگوں کی لاشیں قبروں سے نکال کر
چوراہوں میں لٹکائی جاتی رہیں جب ہسپتالوں ،گزرگاہوں ،جناز گاہوں اور داتا
گنج بخش حضرت بابا فرید اور حضرت عبد اﷲ شاہ غازی کی درگاہوں پر دھماکے
ہوئے اور اس وقت اس ناسور کا آہنی ہاتھوں سے علاج کر لیا جاتا تو آج پہلے
سے ۱۶ دسمبر کے ڈسے ہوئے پاکستان کو نائین الیون سے بڑے سانحے کا سامنا نہ
کرنا پڑتا ۔مگر نجانے اربابِ اقتدار کی کیا مجبوریاں تھیں۔دہشت گردوں کو
پروٹوکول دینا ان کا وطیرہ رہا ہے رہی سہی کسر مذاکرات کی ڈُگڈُگی بجانے
والوں نے نکال دی جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کو مزید مضبوط اور محفوظ ہونے
کا موقع مل گیا ۔پشاور کے بچوں کے خون نے قومی ضمیر کو جھنجوڑ کے رکھ دیا
ہے ۔اب پاکستان کے وزیر اعظم نے وہ جملہ کہ دیا جو ہم سالہا سال سے کہتے آ
رہے تھے یہ طالبان نہیں ظالمان میں بلا امتیاز ان کے خلاف کاروائی ہوگی
،،جنرل راحیل نے بھی ایک نئی انگڑائی لی ہے خدا کرے غم کے سائے میں بلند
کیا گیا عَلمِ عزم بلند ہی رہے کہیں حکومت کی بغلوں میں چھپے ہوئے دہشت
گردوں کے کزن حکومت کو یہ عزم ہضم کر جانے کی کو ئی پھکّی نہ دے دیں حکومت
سزا یافتہ ۵۵ دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کر چکی ہے ۔ یہ پوری
قوم کی آواز ہے ۔اس سلسلہ میں حکومت کو چند اقدامات بہت جلد کرنے ہوں گے
۔ورنہ پاکستان کا مستقبل کئی مہلک خطرات میں الجھ جائے گا۔ طالبان کی کزن
تنظیمات اور شخصیات کا فی الفور محاسبہ کیا جائے۔ طالبان کے سہولت کاروں
اور خدمت گاروں کو انہیں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے یہ سانپ جن بلوں سے
نکلتے ان بلوں کا آپریشن کیا جائے ظاہر ہے یہ بل صرف وزیرستان میں نہیں
پورے پاکستان میں ہیں جو ان ساپنوں کو دودھ پلاتے ہیں۔ ان پر بھی فردِ جرم
عائد کی جائے۔ المیہ پر المیہ یہ ہے کہ وہ خوارج جن کی نرسری سے یہ بھیڑئے
تیار ہو کر نکلے میڈیا پر اکثر وہی لوگ اس سانحہ پر آنسو بہا کر اک بار پھر
عوامی غیض و غضب اور متوقع آپریشن ضرب عضب سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں
۔حکومت سمجھ لے ان لوگوں کا یہ انداز اس داستان ظلم میں یزید جیسا ہے جس نے
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کو خود ہی شہید بھی کروایا اورخود ہی ماتم کرنا
بھی شروع کر دیا ۔ |
|