میں جب چھوٹا تھا تو ماں بتایا
کرتی تھی کہ جنگیں افواج لڑا کرتی ہیں اور اس دوران بہت تباہی ہوتی ہے ․
عمارتیں مسمار ہو جاتی ہیں, گولیاں انسان کے سینے کو چیرتی ہوئی نِکل جاتی
ہیں, بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں․ اگر دشمن کسی بے حِس قوم سے ہو
تو عصمت دری کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں․
لیکن یہ کیا؟ آج کی ماں عام حالات میں اپنی ڈھائی سال کی بچی کو اپنے ہی
گھر کے باہرکھیلنے سے منع کر رہی ہے, کہتی ہے دروازے پر بھیڑیے کھڑے ہیں․
اُن جنگلی جانوروں کو نہیں پتا کہ تم ایک معصوم بچی ہو, وہ تمہارے کپڑوں کو
نوچ ڈالیں گے, اپنی حوس کی پیاس بجھا کر تمہارے جسم کو چیر پھاڑ کر گھسیٹتے
ہوئے کسی گندے نالے میں پھینک جائیں گے ․
آج ایک باپ اپنے جگر گوشوں کو اسکول بھیجنے سے پہلے یہ سوچنے پر مجبور ہو
گیاہے کہ ان معصوموں کا مستقبل کیا ہے؟ کیا وہ موجودہ حالات میں کما کر
انکو بہتر تعلیم دلوا سکتاہے؟ اگر کسی طرح کھینچ تان کر انکو ذیورِ تعلیم
سے آراستہ کر بھی دیاتو کیا انکو اچھی ملازمت مِل سکے گی؟ اگر اچھی ملازمت
مِل بھی گئی تو کہیں اچانک کہیں سے نامعلوم موٹر سائیکل سوار آ کر اسے مار
تو نہ ڈالیں گے؟
ّ
پشاور میں ہونے والے حالیہ سانحہ نے والدین کے ذہن میں موجود ان سوالوں میں
مزید اِضافہ کر دیا ہے․ آخر بچے ہی نشانہ کیوں؟ کبھی پولیو ہیلتھ ورکرز پر
حملہ کر کے ہماری نئی نسل کو مسلسل معذور رکھنے کی سازش تو کبھی علم کی شمع
کو بجھاکر پورے ملک کو اندھیروں میں ڈُبا دینے کا منصوبہ․ نوجوان لڑکے
لڑکیوں کو میڈیا کے ذریعے آذادی کے نام پر مذہب سے دُور کرنے اوربے حیائی
کو فروغ دینے کی اس قدرکامیاب کوششیں کہ مزارِقائد کے تقدس تک کوخود ہی
روندھ ڈالاگیا․
ٹارگیٹ کون؟ پاکستان کا مستقبل․․․
جنہیں قائد نے مستقبل کا معمار قرار دیا تھا ان کی تباہی ملک کے مستقبل کی
تباہی کے مترادف ہے اور ہمارا دشمن کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن ہم خود ہی
ہیں جو اسے پہچان کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں․ ہمارے حکمران ملکی استحکام
کے نام پرملک کو غیر مستحکم کرنے والے انسان کی کھال میں موجود بھیڑیوں کی
پشت پناہی کرتے چلے آرہے ہیں اور آج پاکستان کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے․
بلا شبہ یہ ہم سب کے لئے ایک لمحہءِ فکریہ ہے․․․ |