بابا ! مجھ کو ڈر لگتا ہے
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
16 دسمبر1971 کی سیاہی اور
تلخیاں ابھی مٹنے اور ختم ہونے بھی نہ پائیں تھیں جو کہ سیاسی زعما کی
نااہلیوں اور اقتدار کی ہوس نے پاکستانی قوم کے منہ پر مل دی تھی اور رگوں
میں گھول دی تھیں کہ 16 دسمبر2014 کو پشاور میں وارسک روڈ پر آرمی پبلک
سکول میں انسانیت دشمن ظالموں نے اس سیاہی کو مزیدگہرا اور کثیف کردیا۔اتنا
گہرا کردیا کہ جس طرح سقوط ڈھاکہ ہمیں پل پل کچوکے لگاتا ہے اسی طرح 132
طالب علموں اور 12 سٹاف ممبران کے ساتھ کھیلی گئی خون کی ہولی ہمیں لمحہ
لمحہ سسکنے پر مجبور کرتی رہے گی۔ وہ سکول جہاں پر معماران قوم کو تربیت دے
کہ ملک و قوم کے مستقبل کو سنوارنا تھا محفوظ بنانا تھا ان کو اسی سکول کے
کمروں اور برآمدوں میں خون سے نہلادیا گیا اس گھناؤنے عمل کو انجام دینے
والے ننگ انسانیت تھے ان کا کسی دین مذہب مسلک اور فرقے تو کیا انسانیت سے
بھی دور تک کا تعلق نہ تھا۔ وہ انسانوں کے روپ میں جنگلی درندے تھے جن کا
مطمع نظر صرف اور صرف بہاناتھا پاک فوج کے جوانوں نے انہیں جہنم واصل بھی
کردیا لیکن اس اندوہناک واقعے کی وحشت ابھی تک سکو کے درودیوار سے ٹپک رہی
ہے۔معصوم جانوں کی معصومانہ ہنسی اور خون کی مہک اسی سکول کے در و دیوار
میں رچ بس گئی ہے۔ یہ وحشت آج نہیں تو کل ختم ہو ہی جائیگی لیکن ان شہدا کے
خون سے جو عبارت رقم کی جائیگی انہیں دہشت گردوں کی نسلیں بھی تاحیات یاد
رکھیں گی
سانحہ پشاور کے بعد پاکستانی قوم بالخصوص سیاسی قیادت نے ایک ٹرن لیا ہے
تمام سیاسی مذہبی اور سماجی جماعتیں بشمول افواج پاکستان ایک صفحہ پر
دکھائی دیتی ہیں ۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردافغانی طالبان ہوں کہ
پاکستانی طالبان کسی کالعدم تنظیم سے متعلق ہوں کہ کسی ملک سے وابستہ انہیں
بلاتفریق تختہ دار پر لٹکادیا جائے۔مملکت خداداد میں بربریت کاجو مظاہرہ
کیا گیا اس بات کا متقاضی ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت ہم آہنگ اور یکسو ہو
کر ایک مربوط پالیسی کے تحت انسداد دہشت گردی کے حوالے سے سرگرم ہو جائے۔
تمام قوتیں ملک وقوم مخالف قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہو جائیں۔ باہم شیر
وشکر ہو کر عزم صمیم، حقیقی اتحاد اعتماد اور عمل پیہم کے ذریعے ملک دشمن
عناصر کی سرکوبی کریں ایکشن کمیٹی جو کہ اسی مقصد کی خاطر بنائی گئی تھی
اور جس کا تاحال کوئی اقدام سامنے نہیں اسے بھی فی الفور ایکشن میں آنا
چاہئے۔ ایک جامع اور قابل عمل پلان مرتب کرکے اسے عملی جامہ پہنانا چاہئے
تاکہ پاکستانی شہریوں اورنونہالان وطن کے تحفظات، خدشات اور خوف کو دور
کیاجاسکے بقول اس شاعر کے
بابا مجھ کو ڈر لگتا ہے
بابا میری مس کہتی ہیں،
کل سے سب بچوں کو اپنے گھر رہنا ہے،
گھر پڑھنا ہے،
میں نے سنا ہے……
ایک بڑی سی کالی مونچھوں والے انکل،
بم لگاکر آئیں گے
سب بچے مر جائیں گے……
بھول گئی میں،، نام بھلا تھا……
امم …… شائد دہشت گرد کہا تھا
بابا کیوں ماریں گے ہم کو؟؟؟
ہم سے کوئی بھول ہوئی کیا ؟؟؟
ہم سے کیوں ناراض ہیں انکل؟؟؟
بابا !!!
ان کو گڑیا دے دوں ؟؟؟
یا پھر میری رنگوں والی …… یاد ہے ناں وہ نیلی ڈبیا؟؟
میری پچھلی سالگرہ پر مجھ کو آپ نے لاکر دی تھی
اور میری وہ پیاری پونی…… ریڈ کلر کی تتلی والی
وہ بھی دے دوں؟؟؟
پھر تو نہ ماریں گے مجھ کو؟؟؟
بابا !!! مجھ کو ڈر لگتا ہے
بابا!!! مجھ کو ڈر لگتا ہے
یہ خوف ہراس اور بے یقینی کی فضا جوکہ یکدم پروان چڑھی ہے دل و دماغ کو
جامد کررہی ہے اس سے نکلا جاسکے اور پاکستانی قوم نے اس بات کا ثبوت بھی دے
دیا ہے۔قوم یک جہت اور متحد ہوچکی ہے۔دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوچکے ہیں۔
سونے پر سہاگہ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کادلیرانہ
،بے باکانہ اور جرات مندانہ فیصلہ دہشت گردوں کیلئے ننگی تلوار اور ملک و
قوم کیلئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا13 سال سے مسلط دہشت گردی کے عفریت جڑ
سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے انتہا پسندی ،بدامنی و انتشار، تعصب پسندی اور تنگ
نظری کو اعتدال، امن و آشتی،اتحاد و یگانگت اور وسیع القلبی سے مات دینا
ہوگی۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی اب کوئی گنجائش نہیں۔دہشت گردوں سے
مذاکرات کی اب کوئی بات نہیں ہونا چاہئے۔تمام ادارے اپنے اپنے فرائض
ایمانداری اور خلوص نیت سے سرانجام دیں۔ لا اینڈ انفورس منٹ ایجنسیاں وی
آئی پیز اور سیاسی اشرافیہ کو پروٹوکول دینے کی بجائے عوام کے تحفظ اور
جرائم کی بیخ کنی کیلئے کام کریں۔اشرافیہ کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر
تمام ادارے اور سیکیورٹیز ایجنسیز اپنے اپنے کام تندہی سے کریں گی تو دہشت
گردی کاخاتمہ ہوجائے گا اور پھر کسی وزیر مشیر ایم این اے ایم پی اے کو
سیکیورٹی کی ضرورت نہیں پڑے گی بشرطیکہ عوام ان سے خوش ہوں۔ اسی طرح عالمی
دباؤ خاطر میں نہ لاتے ہوئے بولڈ سٹیپ اٹھاتے ہوئے اپنی حکمت عملی پر عمل
پیراہو کرہم اپنے150 شہدا، جوانان رعنا اور جگرگوشوں کے خون کو رائیگاں
ہونے سے بچا سکتے ہیں۔زندہ پائندہ اور تابندہ قوم ہونے کا اعزاز حاصل
کرسکتے ہیں اور بات کا ثبوت دے سکتے ہیں کہ سانحہ پشاور نے ہمیں خواب غفلت
سے جھنجھوڑ کربیدارکردیا ہے اور یہ بیداری ہی ہمارے لئے طرہ امتیاز اور
مشعل راہ ہے۔ دیر آیددرست آید کے مصداق اب حکومت پاکستان کو دہشت گردوں کے
خلاف جنگ کو جاری رکھنا ہوگا۔ |
|