جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

آپ میڈیا (اخبارات ،ٹی وی چینلز،شوشل میڈیا )دیکھ لیں اس وقت سب سانحہ پشاور کی وجوہات،اسباب،اور اس کا حل پیش کر رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں بھی اپنا اپنا خیال پیش کر رہی ہیں ،ان سب کو دیکھ کر جتنے منہ اتنی باتیں والا محاور یاد آتا ہے ۔ کمیٹی بنا دی گئی ہے ۔مختصر سا جائزہ لیں ان میں سے چند باتوں کا مثلا کہا جا رہا ہے کہ کون کون دہشت گردوں کا سہولت کار ہے؟ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ مجاہد دہشت گرد کیسے بنے ؟کہا جاتا ہے امریکی جنگ کو اپنی جنگ بنانے کی وجہ سے۔ڈارون حملے بھی اس کا سبب ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سانحہ پشاور میں امریکہ ،اسرائیل خاص کر بھارت ملوث ہے ۔ اس کے ثبوت بھی دیے جا رہے ہیں ۔ بعض کا یہ نقطہ نظر ہے کہ یہ سب اندرونی دشمنوں کا ہی دیا ہوا زخم ہے ۔ بہت سوں کو موقع مل گیا ہے وہ کہتے ہیں اس کی وجہ صرف مذہب اسلام ہے؟ اور بہت سے اسے مذہب سے دوری بھی قرار دے رہے ہیں ۔کچھ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کر دیا جائے تو یہ سب مسائل حل ہو جائیں گئے۔کونکہ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور اس کا مقصد اسلام کا نفاذ ہے ۔جن کے جمہوریت سے مفادات وابستہ ہیں وہ جمہوریت کے حق میں ہیں کہتے ہیں جمہوریت نافذ کر دی جائے ۔کچھ اس کا حل خلافت کے نظام کو قرار دے رہے ہیں ۔اس آواز میں بھی دم ہے کہ جب سب اہم فیصلے فوج نے ہی کرنے ہیں تو فوج ہی اقتدار سنبھال لے۔کچھ اس کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر ،بعض مذہبی جماعتوں کو اور چند فوج کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ۔سب اپنی اپنی بات کو حرف آخر خیال کر رہے ہیں اور اس کے لیے دلائل بھی دے رہے ہیں۔سب کے دلائل میں کسی حد تک سچائی بھی ہے ۔لیکن ایک کی سچائی سے دوسرا اختلاف کرتا ہے ۔اس کا آسان سا حل ہے ۔۔اپنی اپنی سچائی کو چھوڑ کر اس سچائی کو مان لیا جائے ۔

دین اسلام میں سیاست الگ نہیں ہے جیسا کہ ہمارے ملک کے بہت بڑے دانشور فرما رہے ہیں کہ مذہب ہر فرد کا انفرادی معاملہ ہے اسے حکومت ،قانون،آئین سے الگ کر دیا جائے وغیرہ اسے شائد علم نہیں کہ پاکستان بنا ہی اسلام کے نام پرتھا لیکن اسلام کا نفاذ نہ ہو سکا وجوہات جو ہیں ان کو دور کرنے کی بجائے قیام پاکستان کے مقصد سے ہی ہٹ جانا کہاں کی دانش مندی ہے اور اس بات کوناممکن خیال کیوں کر لیا گیا ہے اس سے کیوں مایوس ہو گئے ہیں کہ مسلمانوں کے مسالک میں اتحاد ممکن نہیں ہے ۔ایسا ترکی،سعودیہ اور دیگر بہت سے ممالک میں ہو چکا ہے کہ مذہب کو حکومت نے اپنی ذمہ داری بنا لیا ہے۔ اصل میں مشکل ہمارے مختلف مسالک کے علما ء کا کسی ایک طرز حکومت،شریعت پر متفق ہونا ہے۔ مشکل ہے ناممکن نہیں ہے اس کے لیے حکومت کوشش کرے تو سب مسالک ،مذاہب ،فرقے اس بات کو جان چکے ہیں کہ اگر انہوں نے اتحاد نا کیا تو دشمن ان کو ایک ایک کر کے ختم کر دے گا اور یہ بھی کہ(اس پر میں ایک کالم پہلے لکھ چکا ہوں کہ) دشمن کی نظر میں تمام فرقے مسلمان ہیں پھر یہ بھی کہ تمام فرقے، مسالک، مذاہب،خود بھی فرقہ پرستی کے خلاف ہیں اگر حکومت کوشش کرے تو ان کا اب اتحاد کر لینا مشکل نہیں ہے۔ مذہب سے سیاست الگ چیز نہیں ہے ۔ اگر سیاست سے مذہب نکال دیا جائے تو بقول حضرت علامہ اقبال باقی چنگیزی رہ جاتی ہے ۔
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا۔۔۔۔جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

مذہبی اصول پر چلنے اور چلانے میں حکومت کو بڑاعمل دخل ہے ۔اس کو جزا و سزا کا قانون نافذ کرنے والی قوت کہا جا سکتا ہے ۔ایک صالح معاشرہ ،سوسائٹی کی تشکیل کرنے کے لئے جو کام کرنے چاہیے ان میں سے ایک تعلیم (یکساں نصاب ،ایک ہی نظام تعلیم )، تبلیغ کے لیے مساجدوغیرہ اور ان دونوں مکاتب میں تربیت ہے ، دوسری چیز قانون ہے ،آئین ہے مخلوق کا بنائے ہوئے قانون کی بجائے خالق کے بنائے ہوئے قانون کا نفاذ ۔ اس کے ساتھ آئین و قانون کے نفاذ کے لئے قوت ۔جزا و سزا کا انصاف پر مبنی نظام عدل،عدالت جہاں سفارش ،رشوت کا نام و نشان نہ ہو ۔ یہ صرف دو کام ہو جائیں پاکستان میں امن بھی ہو جائے گا ۔اور قیام پاکستان کا مقصد بھی اس طرح افراد معاشرہ میں سے کچھ کو یکساں نظام تعلیم وتربیت راہ راست پر لے آئے گئی ا ور جو اس سے بھی نہ بدلیں ،شیطان کی راہ پر ،فساد کی راہ پر چلیں ان کو قانون کا شکنجہ سیدھا کر دے گا جیسا کہ اوپر لکھا گیا قانون کا پوری قوت سے نفاذ ۔ اور قانون اسلامی ،فلاحی ،جمہوری بنایا جائے جس کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے لیے ہمارے آباو اجداد نے قربانیں دیں تھیں ۔نیا پاکستان ،اسلامی پاکستان ،قائد اعظم کا پاکستان ،فلاحی پاکستان ،کا نعرہ لگانے والی تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں سانحہ پشاور کی وجہ سے ایک ہو چکی ہیں حکومت کو چاہیے کہ اب پاکستان کی تنظیم نو کر لے جس کی اس وقت بہت ضرورت ہے ۔
Muhammad Yaseen Siddiq
About the Author: Muhammad Yaseen Siddiq Read More Articles by Muhammad Yaseen Siddiq: 18 Articles with 26718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.