ملک عزیز کی جو ابتر صورت حال ہے،
شاید ہی کوئی باشندہ ایسا ہو، جو اس صورت حال سے پریشان نہ ہو۔ کہ ہر آنے
والا دن کسی نئے سانحہ کی آواز کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ پشاور میں جو دل خراش
واقعہ پیش آیا ہے اور وہ معصوم بچے جن کو معلوم نہ تھا، کہ چاقو اور خنجر
کسے کہتے ہیں، ان پر گولیاں برسائی گئی ہیں، اور والدین کے وہ ننھے منے
پھول جو صرف اسکول جانے کے واسطے کچھ دیر کے لیے اپنے گھر سے جدا ہوتے تھے،
آج انہیں ہمیشہ کے لیے ان کے والدین کی آغوش سے جدا کردیا گیا۔ ان کو خون
آلود کپڑوں میں لتھڑا ہوا ان کے والدین کے سپرد کیا گیا!ان معصوموں کی خون
میں رنگی شہادت پر وزیر اعظم میاں نواز شریف، وزیر اعلی خیبر پختونخوا
پرویز خٹک، جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کو پوری قوم اور
بالخصوص ان بچوں کے والدین اور ان کے بہن بھائیوں سے معافی مانگنی چاہیئے
کہ انہوں نے جس ذمہ داری کا حلف اٹھایا تھا اس کو پورا نہ کرسکے جس کے
نتیجے میں یہ سانحہ ہوا! اس کے ساتھ ساتھ فی الوقت ان معصوموں کے گھر والوں
کی ہر ضرورت کھلے دل سے پوری کی جائے!
اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیزپاکستان کو درپیش بنیادی چیلنجوں میںدہشت
گردی بھی شامل ہے، قومی سلامتی پر اس کے مضمرات واضح ہیں، جن سے صرف
نظرکرنے کی وجہ سے ہی پشاورجیسے الم ناک،اندہ ناک ،جگرپاش ودل خراش سانحے
وقوع پذیرہوتے ہیں،جب دشمن نے دیکھاکہ صوبائی حکومت کے تمام تروسائل ملک
کوجام کرنے میں اوروفاقی حکومت کی تمام ترتوجہ اس کوشش کوناکام بنانے پرہے
تواسے یہ انتہائی مکروہ کھیل کھیلنے کاموقع ملا،کہ جن چوکیدارغافل ہوجائے
توچورکوموقع ملاہی کرتاہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اندرونی چیلنجز کئی
طریقوں سے پاکستان کے بیرونی ماحول سے بھی منسلک ہیں، اس لیے کہ ایک پرامن
پڑوس پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے تاکہ بیرونی محاذسے یک سوہوکر ملکی
مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی جاسکے۔ بدقسمتی سے پاکستان کوافغانستان
اوربھارت کی طرف مسلسل خطرات کاسامناہے۔ دونوں محاذ پائیدار سیکورٹی مخمصوں
کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان کئی سالوں سے دو محاذوں پر الجھنے
سے بچنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔امریکی محور بھی پاکستان کے سیکورٹی چیلنجوں
کے لیے کافی نتیجہ خیز ہے۔
برطانوی ویب سائٹ ٹویٹر پر ملٹی نیوز پی کے نامی اکانٹ نے اپنے ٹویٹ میں
دعوی کیا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے پشاور میں آرمی اسکول پر دہشتگرد حملے کے
ماسٹر مائنڈ کو تلاش کرلیا ۔بھارتی قومی سلامتی کے مشیر، انٹیلی جنس افسر
اجیت دوول پشاور حملے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ایک اوررپورٹ کے مطابق پشاور میں
آرمی پبلک اسکول پر حملے کی منصوبہ بندی پاک افغان سرحدی علاقے میں ہوئی۔ان
رپورٹوں سے بھی معلوم ہوتاہے کہ ہمیں بھارت اورافغانستان کے حوالے سے چوکس
رہناہوگا۔
بھارت توہے ہی ہماراازلی دشمن،جہاں تک افغانستان کاتعلق ہے تواسے ہم نے
خودہی اپنادشمن بنارکھاہے۔کیوں کہ جب سے افغانستان میں امارت اسلامیہ
کاسقوط ہواہے،ہماری مغر بی پٹی حالت جنگ میں ہے،پھرشمال میں اپنوں کی بے
تدبیری سے جوآگ لگی ہوئی ہے ،اس نے اس معاملے کی حساسیت میں مزیداضافہ
کردیاہے،بدنام زمانہ ڈکٹیٹرکی جانب سے ایک فون کال کے نتیجے میں ملک کے
ہوائی اڈے دشمن کودینے اوراس کی جنگ کودرامدکرنے سے ملک میں دہشت گردی میں
اضافہ ہی نہیں ہوا،بلکہ ہماری مغربی سرحدبھی نہ صرف غیرمحفوظ ہوکررہ گئی ،بلکہ
افغانستان میں بھارت نوازحکومت کے قیام سے ہمارے دشمن بھارت کوایک طاقت
ورحامی اورہمیں ایک ایسے دشمن سے سابقہ پڑگیا،جوآستین کے سانپ کی طرح ہمارے
دشمنوں کونہ صرف پناہ دے رہاہے ،بلکہ ان کے لیے ایک محفوظ کمین گاہ بھی بن
گیاہے،کہ وہ وہاں سے جب چاہیں حملہ کردیں۔سانحہ پشاورکے بعدآرمی چیف کے
افغانستان کے ہنگامی دورے اوراشرف غنی سے دشمن کی حوالگی کے مطالبے سے اس
تاثرکومزیدتقویت ملی ہے۔
غیروں کی جنگ کواپنی جنگ سمجھنے اورنام نہادانسداددہشت گردی کی جنگ میں
فرنٹ میں اتحادی بننے ہی کی وجہ سے آج ملک میں یہ عدم استحکام ہے،ملک کے
باسی انھی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی فوج کے مقابل آئے ،جس کاملک دشمن
قوتوں نے بھرپورفائدہ اٹھایا،جن میں بھارت ،اسرائیل اورافغانستان سرفہرست
ہیں،ان دشمن ممالک کے تشکیل کردہ ''طالبان''کی حقیقت ماضی میں بھی کئی
باران کے جسموں پرکھدے ٹیٹوکے نشانات ،ان کے غیرمختون ہونے جیسے ناقابل
تردیددلائل سے سامنے آچکی ہے۔آپریشن ضرب عضب کے ثمرات سے انکارنہیں ،تاہم
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصل ملزمان کی ایک بڑی تعدادافغانستان اوردیگرممالک
کوفرارہوچکی ہے،جسے واپس لائے اورکیفرکردارتک پہنچائے بغیرشایدمکمل امن کی
گارنٹی نہ دی جاسکے،اس لیے کیاہی اچھاہوتاکہ ہماری سیاسی وعسکری قیادت
سزائے موت کی بحالی کے ساتھ ساتھ پاک افغان بارڈرسیل کرنے کابھی اعلان
کردیتی۔ہمارے سیکورٹی ادارے اس با ت سے بہ خوبی آگاہ ہیں کہ افغانستان میں
ہی دہشت گردپناہ لیے ہوئے ہیں اورجب چاہتے ہیں اپنامکروہ کھیل کھیل
کرفرارہوجاتے ہیں۔
دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہماری عسکری وسیاسی قیادت نے کئی
ہنگامی اقدامت کیے ہیں ،جولایق تحسین ہیں ،تاہم صرف سزائے موت سے پابندی
اٹھالیناکافی نہیں ،بلکہ اس کے بلاامتیازنفاذکی بھی ضرورت ہے۔اسی طرح
افغانستان سے مجرموں کی حوالگی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ
بلاتاخیرپاک افغان بارڈرسیل کردیاجائے،تاکہ آیندہ کسی قسم کی دراندازی
کاخطرہ نہ رہے۔اس صورت میں معاشی نقصان سے انکارنہیں ،لیکن اہ ل وطن کی
جانیں اس سے زیادہ عزیزہیں۔کاش!ڈرون حملوں میںبے گناہ انسانوں کی قربانی
پیش کرکے ڈالرسمیٹنے والے حکمرانوں کویہ بات سمجھ میں آجائے۔
یہ ملک ہم سب کا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اورسانحہ پشاورکے حوالے سے قوم یک
آوازہے۔رات کے اندھیرے سے صبح کی روشنی پیداکرنے والے رب نے اس شرسے ایک
خیریہ بھی پیدافرمائی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام قومی جماعتیں
بھی اپنے اختلافات بھلاکر متحدہوچکی ہیں،بے مقصددھرنوں سے بھی قوم کونجات
مل چکی ہے اورامیدہے کہ معصوم طلبہ کی قربانی کی برکت سے وطن عزیزمیں
پائیدارقیام امن کی کوئی سبیل نکل آئے گی،ایسے میں چندموسمی بٹیرے اس واقعے
کی آڑ میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مہم جوئی میں مصروف ہیں،محب وطن مذہبی
ودینی جماعتوںکے خلاف اپناپرانابغض ظاہرکرکے موقعے سے فائدہ اٹھانے کے درپے
ہیں،جوایک طرف توسیاسی مجرموں کی پھانسی کی صورت میں ملک جام کرنے کی دھمکی
دے رہے ہیں تودوسری طرف علمائے حق علمائے دیوبنداوردینی مدارس کے خلاف
مورچہ زن ہوچکے ہیں۔علمائے حق کے خلاف آج ایک بارپھرہرقسم کے باطل کاایکااس
بات کاواضح ثبوت ہے کہ اس ملک میں اسلام کی حقیقی خدمت ،اس کادفاع اورتحفظ
کرنے ولاے یہی بوریہ نشین ہیں ،یہی وجہ ہے کہ انھیں بدنام کرنے اوران کی
کردارکشی کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیاجاتا۔نام نہادسنی نامی اہل بدعت
بھی اس ایک نکاتی ایجنڈے پرمتحدہیں کہ علمائے دیوبندکاناطقہ بندکیاجائے ،این
جی اوزبھی یہی رٹ لگارہی ہیں اورنام نہادسیاست دانوں کابھی یہی مطالبہ ہے ،مگراہل
باطل اوران کے کاسہ لیسوں کویادرکھناچاہیے
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا
مدارس دشمن بھی اپنی گزگزبھرزبانیں نکالے مدارس کے خلاف اوٹ پٹانگ بیان
بازی میں مصروف ہیں۔دھرنوں کی مسلسل ناکامی سے دل کامریض بننے والامداری
بھی مدارس کی بندش کی باتیں کررہاہے،بھیڑیے بھی بھیڑوں کے نگہ بان بننے
جارہے ہیں،جن کے نامہ ہائے عمل بے گناہوں کے خون سے ترنترہیں وہ بھی دینی
مدارس پرالزام تراشی کرہے ہیں،جب سانحہ پشاور ہوا تو اس کی تمام علمائے
کرام اور اربابِ مدارس نے بھرپور مذمت کی۔ اس کے باوجود بعد بلاسوچے سمجھے
اور بغیر تحقیق کے کئی دانشوروں نے اس کا سارا الزام مدارس پر لگاتے ہوئے
طرح طرح کے سوالات اٹھانا شروع کردیے۔ ایک بڑا اعتراض یہ کیا گیاکہ مدارس
میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے ۔ایسے میں وزیر داخلہ کا یہ بیان نہایت
ہی حوصلہ افزا ہے کہ 90 فیصد دینی مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
مدارس کو بے جاتنقید کا ہدف نہ بنائیں۔ مدارس سے وابستہ جید علمائے کرام
دہشت گردی کے خلاف قوم کے ساتھ ہیں۔ اس بیان کاعلمائے دیوبندکی جانب سے
خیرمقدم کیاگیاہے ،لیکن ہماری باقص رائے یہ ہے کہ وزیرداخلہ صاحب کوئی
ایسابھی اعلان کریں کہ دینی مدارس کی کردارکشی قابل مواخذہ جرم
تصورہوگی۔ہمیں جن دس فیصدمدارس کے حوالے سے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے
خدشات ہیں ،ان کے خلاف ہم خودکارروائی کریں گے۔کیوں کہ ارباب وفاق
بارہاحکومت سے یہ کہ چکے ہیں کہ اگر حکومت کو کسی مدرسے کے بارے میں تحفظات
ہیں اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت ہیں تو ان کے منتظمین اور
وفاق المدارس سے رابطہ کریں۔ ارباب مدارس اور حکومت کے مابین تعاون کا
مربوط نظام قائم کیا جائے۔ مدارس پر براہ راست چھاپوں کے بجائے منتظمین سے
رابطہ کیا جائے۔
ہماری سانحہ پشاورکی آڑ میں فرقہ واریت اورنفرت کی فصلیں کاشت کرنے والوں
سے گزارش ہے کہ اپنے آقاؤں کی نمک حلالی کرتے ہوئے قوم کے حکومت وپاک فوج
پرغیرمتزلزل اعتمادکوتباہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ غیرملکی طاقتوں کی پشت
پناہی سے کھیلاجانے والا یہ کھیل اب پوری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔ان شاء
اللہ ایسے عناصراپنے مکروہ مقصدمیں کام یاب نہیں ہوں گے اوروہ دن دورنہیں
،جب آرمی پبلک اسکول پشاورمیں فرعون کے نقش قدم پرچل کرقوم کے مستقبل کے
معمارننھے منے بچوںکے خون کی ہولی کھیلنے ،ادھ کھلے گلابوں کوپیروں تلے مسل
ڈالنے اورظلم وسربریت کی سیاہ ترین تاریخ رقم کرنے والوں کے پالیسی
ساز،مالی معاون،ماسٹرمائنڈ،تھنگ ٹینک اورپشتی بان وبہی خواہ اپنے بدترین
انجام سے دوچارہوں گے،آہ!وہ پھول جو اپنی لطافت کی دادپانہ سکے اوربن کھلے
مرجھا گئے،وہ پھول جنھوں نے ابھی پائلٹ، ڈاکٹر، صحافی، سیاستدان، انجینئر،
فوجی، بینکار بن کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی تھی، وہ بچے جن کی ماؤں نے
ان کے سہرے کے پھول دیکھنے تھے، سب منوں مٹی تلے جا سوئے۔میرارب غیورہے،اس
کے ہاں دیرہے اندھیرنہیں ،وہ ان کے معصوم خون کابدلہ اس دنیامیں ہی لے
گاورضرورلے گا۔ان شاء اللہ!
|