آسام میں پھر ہوا قتل عام، نیند میں ہے گوگوئی سرکار

باسمہ تعالی

پڑوسی ملک پاکستان کے شہر پشاورمیں واقع آرمی اسکول میں، دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کیے گئے150 معصوم طلبہ و اسٹافس کی موت پر، نرم دل، حساس طبیعت اور انسانیت نواز لوگوں کی طرف سےمذمتی بیان کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہی ہے کہ اسی درمیان ہمارے وطن عزیز کا شمال مشرقی صوبہ آسام میں "این ڈی ایف بی" (نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ) سے تعلق رکھنے والے " بوڈو دہشت گردوں" نے، اپنے انسانیت سوز حرکت سے ،کھلبلی مچادی اوردرجنوں بے گناہ غیر بوڈو قبائلی لوگوں کا قتل عام کرکے، انسانیت کو نادم و شرمسار کردیا۔ اس دہشت گردی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے انسانیت دشمن لوگوں کو، اس روئے زمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مرکزی اورریاستی حکومتیں جتنی جلدی ایسے انسانیت دشمن لوگوں کا خاتمہ کردے، معاشرہ اور سوسائٹی کے لیے اتنا ہی زیادہ مفید اور سود مندہوگا۔

آسام سے علاحدہ ہوکر، الگ "بوڈولینڈ" کامطالبہ کرنے والے "این ڈی ایف بی" کے زبردست اسلحہ سے لیس دہشت گردوں نے، گزشتہ 23/دسمبر کو سونت پور اورکوکرا جھار ضلعے کے غریب ونادار غیر بوڈو قبائل باشندگان کے گاؤں میں آکر، ان کے گھروں کے دروازے توڑ کر، جبرا داخل ہوگئے اور مرد و خواتین اور معصوم بچوں پر گولی چلانی شروع کردی۔ پھر پلک جھپکتے ہی، ان دہشت گردوں نے 52 لوگوں کو، بغیر کسی جرم کے موت کی دائمی نیند سلادیا۔ یہ وہ مفلس اور مفلوک الحال لوگ ہیں، جن کی معیشت کا دار و مدار، دن بھر چائے کے باغات میں کام کرنے پر ہے؛ تاکہ کسی طرح اپنی روزی روٹی کا انتظام کرسکیں۔

آسام پولیس کے آئی جی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 22/دسمبر کو، پولیس مہم کے دوران "این ڈی ایف بی" کے دو اہم رہنما کا قتل ہوا تھا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے "این ڈی ایف بی" کے دہشت گردوں نے ان معصوموں کے گھروں میں گھس کر ان پر حملہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بوڈو دہشت گردوں کی نظر میں، ان معصوم لوگوں کاجرم یہ ہے کہ یہ لوگ غیر بوڈو قبائل میں پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ان لوگوں کا بوڈو قبیلہ سے تعلق ہوتا؛ تو ان کے ساتھ ایسا انسانیت سوز معاملہ نہ کیا جاتا۔

جب ان بوڈو دہشت گردوں کے قتل عام کے خلاف، مظلومین اور مقتولین کے ورثاء نے گزشتہ 24/دسمبر کو مظاہرہ اور احتجاج کیا؛ تو آسام پولیس نے اپنے طاقت کے بل پر، اس مظاہرہ کو روکنے کی پوری کوشش کی؛ تا آں کہ پولیس کی فائرنگ میں مزید تین معصوم لوگوں کی جانیں تلف ہوگئیں۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان مقتولین کے ورثاء سے، پولیس نے احتجاج کا حق بھی چھین لیا۔ اس طرح دو دنوں حادثے میں 65 لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔

آسام کی سرزمین پر "نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ" سے تعلق رکھنے والے بوڈو کی دہشت گردی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے؛ بل کہ اس سے پہلے بھی کئی بار، ان لوگوں نے کھلے عام، بے گناہ شہریوں کا قتل کیا ہے۔ انہوں نے متعدد بار، بلا خوف و خطر سنتھالی قبیلہ کے لوگوں کا قتل کیا ہے۔ اسی طرح بنگالی مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے۔ اسی سال مئی کے مہینہ میں، ان ظالموں نے اپنی ہی قومیت و ثقافت سے تعلق رکھنے والے مقامی قبائلیوں اور بنگالی مسلمانوں کا کھلے عام قتل کرکے درجنوں بے گناہوں کو موت کی نیند سلایا ہے۔

تعجب اس پر ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ مسٹر راجناتھ سنگھ نے اخباری نمائندوں کو خطاب کرتے ہوئے جہاں "ضروری کاروائی" کا صرف وعدہ کیا ہے؛ وہیں ریاست کے، لاء اینڈ آڈر کے حوالے سے، ناکام وزیر اعلی مسٹر ترون گوگوئی نے کہا ہے کہ انہوں نے سینئر وزراء : نیل منی سین ڈیکا اور بسنت داس کو کوکرا جھار اور رقیب الحسین، پرتھوی ماجھی اور تنکا بہادر رائے کو سونت پور ضلع کا "دورہ کرنے کی ہدایت" دی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بوڈو دہشت گردوں نے جو کچھ کیا ہے، کیا یہ پہلی بار ہوا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی دہشت گردی کا انہوں نے بے شمار دفعہ ارتکاب کیا ہے۔ پھر اب تک مرکزی و ریاستی سرکاروں نے ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی؟! نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ کے لوگوں نے یہ جو کچھ کیا ہے، وہ دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی، دہشت گردی ہوتی ہے، چاہے کرنے والا کوئی ہو۔ ہر ایک دہشت گرد کے ناپنے کا پیمانہ ایک ہونا چاہیے، مختلف نہیں، تب جاکر ہم دہشت گردی پر قابو پاسکیں گے۔ یہ بھی ایک بڑی مضحکہ خیز حقیقت ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے دفاع میں، ایک پتھر پھیکنے پر "دہشت گرد" (Terrorist) کے لفظ سے تعبیر کرنے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے جرنلسٹس، ان لوگوں کے لیے بڑے محتاط طریقے "تشدّد پسند" (Militant) کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

اصل واقعہ یہ ہے کہ حکومت کی کرسی پر قابض سیاستداں، عوام کے مفاد کو نظر انداز کرکے، خودعیش و عشرت کی زندگی گزار نے میں مشغول ہیں۔ نہیں تو یہ ممکن نہیں کہ ایک مخصوص قبیلہ کے لوگ جس کو چاہیں، جہاں چاہیں دہشت پھیلاتے پھریں اور حکومت ان کو صرف وارننگ دے کر خاموش ہوجائے۔ در اصل صوبائی سرکار اپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کےلیے، کچھ غیر معقول تعلقات کی خاطر، ان بوڈو دہشت گردوں کو لگام کسنے میں سست رفتاری سے کام لے رہی ہے؛ جہاں آدی باسی، بنگالی مسلم اور ہندی بولنے والے لوگوں کا کھلے عام قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ بات کسی قیاس کی بنیاد پر نہیں کہی جارہی؛ بل کہ ایک نیوز چینل سے ایڈریس کرتے ہوئے، ریاست کے ایک سابق ڈائرکٹر جنرل آف پولیس نے دعوی کیا ہے۔ یہی حال مرکزی اقتدار سے لطف اندوز ہو رہی "بي جے پی" کا بھی ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے موقع سے "بی جے پی" کے ایک مقامی لیڈر بھابادیو گوسوامی نے ایک مقامی نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ وہ خود اور کچھ دوسرے پارٹی کارکنان نے"این ڈی ایف بی" (جس کا ذکر اوپر گزرا) کے ممبران سے، آنے والے لوک سبھا انتخابات میں، ان کی حمایت کے حوالے سے، گفت و شنید کی ہے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا تھا کہ یہ لوگ کانگریس حکومت سے غیر مطمئن ہیں؛ اس لیے انہوں نے "بی جے پی" کی حمایت کرنے کا طے کرلیا ہے۔

اس موجودہ سانحہ کے بعد، اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ " بی ٹي اے ڈی" کے دور دراز علاقے کےآدیباسی عیسائی باشندے، اپنی جان کی حفاظت کےلیے، اپنے گھر اور گاؤں کو خیر باد کہہ کر، کیمپوں کی طرف کوچ کررہے ہیں۔ اس موسم سرما میں، دسمبر کے مہینہ میں، لوگ اپنے گھر میں نیچے سے موٹے بستر اور اوپر سے لحاف اور کمبل کے باوجود، ٹھنڈی سے پریشان نظر آتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ ان لوگوں کا اپنے مسکن کو چھوڑ کر، دوسری جگہ کیمپوں میں جاکر زندگی گزارنا، کتنا مشکل اور دشوار ہوگا! اس حقیقت کے باوجود مرکزی اور ریاستی سرکار وعدہ اور ہدایت سے ہی کام چلا رہی ہے۔ ان کو اپنے مفاد کی خاطر، ان مظلومین کا کچھ خیال نہیں آرہا ہے۔

واضح رہے کہ"بوڈولینڈ ٹیریٹوریل کونسل" کا ماتحت علاقہ"بوڈو لینڈ ٹیریٹوریل ایریا ڈسٹرکٹ" (BTAD) کہلاتا ہے۔ بوڈولینڈ ٹیریٹوریل کونسل، جس کا قیام 2003 میں عمل میں آیا، 70% قومی دھارے سے کٹے ہوئے لوگوں کا مجموعہ ہے، جن میں بوڈو، ربہاس، گروس وغیرہ قبائلی جماعتیں ہیں۔ یہ لوگ شمال مشرقی ریاست آسام کی ماتحتی میں رہنے کے مخالف ہیں اور "بوڈولینڈ " کے نام سے، ایک علاحدہ ریاست کامطالبہ کررہے ہیں۔ یہ علاقہ جغرافیائی طور پر بھارت کا انتہائی غیر ترقی یافتہ علاقہ ہے۔ ان لوگوں کے گزر بسرکا واحد ذریعہ زراعت ہے۔ صنعت کاری اور نوکری کے دوسرے مواقع نہ کے برابر ہے۔ ٭٭
Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 176 Articles with 220027 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.