مہاتما گاندھی بابائے قوم ہیں ۔
ہندوستان کی آزادی کے مسیحا ہیں ۔ ہندوستان کی شناخت ہیں۔ عدم تشدد کے علم
بردار رہے ہیں ۔ہندوستان کی آزادی کی خاطر انہوں نے بے دریغ قربانیاں دی
ہیں ۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی انہیں رہناپڑا ہے۔ آلام ومصائب اور
مشکلات کی پرخار وادیوں کو عبور کرنے کے بعد ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا
تھا ۔ 15 اگست 1947کو ہندوستان کی آزادی کا اعلان ہواتھا۔
ان کا اعزاز اور اکرام ملک سے وفاداری کا اولین تقاضاہے ۔ہرہر فرد کا ان کے
خیالات سے اتفاق کرنا ۔ انہیں اپنالیڈر تسلیم کرنا ۔ ان کی خدمات کو
سرآنکھوں سے لگانا ملک سے محبت کی دلیل ہے۔ اگر کوئی ان کے بارے میں شک
کرتا ہے ۔ ان کے کردار پر انگلیاں اٹھاتاہے ۔ ان کی خدمات کو تاریخ کے
صفحات سے مٹانے کو شش کرتا ہے ۔ ان کی تعلیمات میں تحریف کرنے کی کوشش کرتا
ہے ۔ ان کے خیالات میں ردوبدل کرتا ہے ۔ ان کے عزائم اور اراے کے بارے میں
کسی بھی طرح کی بکواس کرتا ہے تو یقینی طو رپر وہ پورے ملک کا مجرم ہے ۔
غدار وطن ہے ۔ ملک دشمن ہے کیوں کہ یہ سب کچھ ایک محسن ملک کے ساتھ کیا
جارہا ہے ۔ اس شخص کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہے جس نے ہندوستان کو
آزادی دلائی۔ عدم تشد کی تحریک چلاکر عالمی پیمانے پر ہندوستان کی ایک نئی
شناخت قائم کی۔
لیکن آج کل ہمارے ملک میں اس بابائے قوم کے ساتھ وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جس
کا تصور ناممکن تھا ۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی آج تک یہ نہیں آیا تھا کہ
بابائے قوم کے قاتل کی تاج پوشی کی جائے گی۔ اسے اعزازواکرام کی نگاہ سے
دیکھاجائے گا ۔اس کے جرم کو بھول چوک سے تعبیر کیا جائے گا۔ اسے محب وطن
قرار دیا جائے گا۔ قوم پرست کے لقب سے نوازا جائے گا۔ اس کے نظریات کو
فلوکرنے کی باتیں کی جائیں گی۔ چوک چوراہوں پر اس کے مجسمے نصب کئے جائیں
گے ۔ اس کی عظمت کے ترانے گائے جائیں گے ۔ لیکن آج یہ سب ممکن ہوچکا ہے ۔
بابائے قوم مہاتماگاندھی کے قاتل کو عام ہندوؤں کے ساتھ وہ شخص بھی محب وطن
قراردے رہا ہے جسے گاندھی کی قربانیوں کے بعد پارلیمنٹ میں جانے کا موقع
ملا ہے ۔بی جے پی کے لیڈر شاکسی مہاراج کہتے ہیں کہ گوڈسے ایک محب وطن شخص
تھا۔انہوں نے بھول سے کچھ کیا ہوگا پر وہ قوم کے مخالف نہیں تھے وہ ایک قوم
پرست تھے۔
ہندو مہا سبھا اس غدار وطن اورقاتل ناتھور ام گوڈسے کا مجسمہ لگانے پر بضد
ہے۔جس نے 30 جنوری 1948 کو نئی دہلی میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے سینے
میں بہت قریب سے تین گولیاں داغ کر ان کا قتل کر دیا تھا۔
ہند مہا سبھانے حکومت سے دھمکی بھرے لہجے میں یہ بھی کہ دیا ہے جلد ازجلد
جگہ کی تعین کرکے گوڈسے کا مجسمہ نصب کیاجائے ورنہ ہم از خود جہاں چاہیں گے
گوڈسے کا مجسمہ نصب کردیں گے ۔ اس تنظیم کے صدر نے کوشک یہ بھی کہاہے گوڈسے
محب وطن تھا ، قوم پرور تھا مہاتما گاندھی کا قتل کرکے اس نے صحیح کیا ۔
ہندومہاسبھا کے اس طرز عمل کے تئیں حکومت خاموش ہے ۔ جس پارلیمنٹ کو
مہاتماگاندھی نے انگریزوں سے چھینا تھا آج اس میں بیٹھے ہوئے لوگ ان کے
قاتل کی حمایت کررہے ہیں ۔ جس ہندوستان کو انہوں نے آزادی کو دولت سے ہم
کنار کیا تھا وہاں کے رہنے لوگ ہدیہ تشکر پیش کرنے اور ان کے تئیں ممنون
ہونے کے بجائے ان کے قاتل کی پیٹھ ٹھپٹھپارہے ہیں ۔ اور حکومت خاموش
تماشائی بنی ہوئی ہے ۔اس طرح کی بیہودہ بکواس کرنے والوں کے خلاف کاروائی
کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کررہی ہے ۔
مہاتما گاندھی کے قاتل کا مجسمہ نصب کرنا ۔ اسے عزت اور احترام کی نگاہ سے
دیکھنا ملک کے ساتھ غدار ی ہے ۔ ملک دشمنی پر مبنی ہے ۔ حکومت کا فریضہ ہے
کہ وہ اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو جیل رسیدکریں ۔ دہشت گردوں ، غداروں
اور خطرناک مجرموں کی حمایت کرنے والوں کو عبرتناک سزا دیں۔ |