بھارت میں نئی شدھی تحریک’’گھر واپسی‘‘

یہ 1923ء کی بات ہے۔ بھارت میں ایک ہندو رہنما سوامی شردھانند نے ’’بھارتیہ ہندو شدھی مہا سبھا‘‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ تنظیم کا بنیادی مقصد صاف اور واضح طور پر بتایا گیا کہ اس کا مقصد ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہونے والے لوگوں کو شدھی یعنی ’’پاکیزہ‘‘ کرنا اور انہیں دوبارہ ہندو مذہب میں داخل کرنا ہے۔ کہا گیا کہ مسلمان اور ان سے پہلے عیسائی اس خطے میں بعد میں آئے۔ اس سے قبل سارے لوگ تو ہندو تھے لہٰذا ان سب کو دوبارہ ہندو بنانا ضروری ہے۔ اس تحریک کو ہندو اکثریت کے خطے ہندو رہنماؤں کی بھرپور تائید حاصل ہوئی تو ہندوؤں نے غریب اور لاچار مسلمانوں کو دھونس اور دباؤ کے ساتھ پیسے کا لالچ دے کر ہندو بنانا شروع کر دیا۔ میو آبادی کا علاقہ میوات شدھی تحریک کا خاص نشانہ بنا۔

لگ بھگ تین سال بعد تحریک نے بتایا کہ کئی ہزارمسلمانوں کو ہندو بنا دیا گیا ہے ۔پھر 23دسمبر 1926ء کا دن آنا پہنچا جب عبدالرشید نامی ایک غیرت مند مسلمان نوجوان دہلی کے نیا بازار میں واقع سوامی شردھانند کے گھر میں داخل ہو گیا اور پھر اسے وہیں گھر میں داخل ہو کر واصل جہنم کر ڈالا۔اس کی ہلاکت پر ہر طرف کہرام مچ گیا۔ بھارت کی تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی نے 25دسمبر کو اپنی پارٹی کے گوہاٹی (آسام) میں منعقدہ اجلاس میں ایک تعزیتی قرارداد پیش کر کے ساری قوم سے سوگ منانے کی اپیل کی۔ پھر وہ دن اور آج کا دن خنجر کے ایک ہی وار سے کروڑوں ہندو ’’شدھی تحریک‘‘ کا نام لینا بھول گئے تاآنکہ نریندر مودی کی بھارت میں حکومت آئی ہے۔ وہی ملعون سوامی آج بھارت کی قومی ہیرو شخصیات میں سے ایک ہے اور اس کا ایک بڑا مجسمہ ٹاؤن ہال نئی دہلی کے سامنے نصب ہے۔

آج ایک مرتبہ پھر 25دسمبر آیا ہے تو بھارت میں اسی سوامی کے پیروکار جو پھر سے ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں ۔بھارت میں ایک سیاسی تنظیم گورکشا پیٹھا دھیشور اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کے جبری تبدیلی مذہب کو’’ گھر واپسی‘‘ قرار دیا ہے توبھارتی مسلمانوں کو ہندو بنانے کی نئی شدھی تحریک ’’گھر واپسی‘‘ میں ہندو انتہا پسند تنظیموں نے زبردست تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔

بھارتی انتہا پسند ہندوؤں کی سب سے بڑی تنظیم جس کے رکن موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی ہیں ،کے سربراہ موہن بھگوت نے مسلمانوں کی جبری تبدیلی مذہب کے معاملے کی حمایت کرتے ہوئے کھل کر کہا ہے کہ جو بھی شخص ہندو دھرم سے بھٹک کر دوسرے دھرم (اسلام) میں چلا گیا ہے وہ اسے گھیر لائیں گے، آر ایس ایس سربراہ نے گزشتہ دنوں کھل کر کہا ہے کہ جو لوگ بھی ’’دھرم ‘‘سے بھٹک گئے ہیں ہم انہیں واپس لائیں گے۔ اگر کسی شخص کو یہ پسند نہیں تو اسے روکنے کے لئے کوئی قانون بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی کی مذہب تبدیل کرنے کے لئے باہر نہیں نکلے ہیں لیکن اگر ہندو تبدیلی نہیں لائیں گے تو ہندو دھرم کبھی نہیں بدلے گا۔

جس وقت آر ایس ایس کے سربراہ نے یہ بیان دیا اسی وقت بھارتی ہندو تنظیم دھرم جاگرن سمیتی کے علاقائی صدر راجیشور سنگھ نے کہا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کوہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ہندوستان ہندوؤں کیلئے اور پاکستان مسلمانوں کیلئے ہے۔ راجیشور سنگھ نے اعلان کیاکہ 31دسمبر 2021ء سے قبل ہندوستان میں اسلام اور عیسائیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور یہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان یا عیسائی بننے والوں کے لئے ہمارے دلوں میں نرم گوشہ ہے اور ان لوگوں کو دوبارہ ہندو مذہب اختیار کرنے کے لئے تمام سہولیات دی جائیں گی لیکن جو مسلمان اور عیسائی غیر ممالک سے یہاں آئے ہیں انہیں یہ ملک چھوڑنا ہو گا۔ آزادی کے بعد عیسائیوں نے ملک چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے اور برطانوی پارلیمنٹ بھی اسے منظوری دے چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان اور عیسائی ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو بننا پڑے گا۔ راجیشورسنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ابھی تک وہ 3 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی’’ گھر واپسی ‘‘کروا کر انہیں ہندو بنا چکے ہیں۔

اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کے معاملے نے دھرم جاگرن سمیتی کا خط سامنے آنے کے بعد ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کو تبدیلی مذہب پروگرام پر کافی پیسہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے لہذا کارکنوں کو دل کھول کر چندہ دینا چاہئے۔ آر ایس ایس کی ایک شاخ ’’دھرم جاگرن منچ‘‘ کے علاقائی سربراہ راجیشور سنگھ کے اس خط میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو ہندو بنانے پر فی کس 5 لاکھ روپے اور عیسائی کو ہندو بنانے پر دو لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔’’ ایک ہزار ‘‘بھارتی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے رامیشور سنگھ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ یہ مناسب وقت ہے کہ مختار عباس نقوی، شاہ نواز حسین اور نجمہ ہیبت اﷲ ’’گھر واپسی پروگرام‘‘ میں شامل ہو جائیں۔ آر ایس ایس سے وابستہ دھرم جاگرن منچ کے اترپردیش سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ 25 دسمبر کو 15 ہزار مسلمانوں کا مذہب تبدیل کروا کر انہیں ہندو بنایا جائے گا۔ ( یہ پروگرام شدید مخالفت کے باعث عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے لیکن مہم پوری شدت سے جاری ہے۔) حال ہی میں 387 مسلمانوں کی ہندو مذہب میں ’’گھرواپسی‘‘ کرائی گئی تھی لیکن بعد میں ان لوگوں نے نماز ادا کی اور کہا کہ وہ مسلم ہی ہیں۔

بابری مسجد کی شہادت میں کلیدی کردار ادا کرنے والی ایک بڑی انتہا پسند تنظیم وشو اہندو پریشدنے مرکزی حکومت سے تبدیلی مذہب (ہندوؤں کے مسلمان ہونے پر) پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کا شرانگیز جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ تنظیم مذہب تبدیل نہیں کرواتی بلکہ دوسرا مذہب اختیار کرنے والوں کو پھر سے پرانے رشتے سے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ وی ایچ پی کے جنرل سیکرٹری چمپت رائے نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’1947ء سے قبل ہندوستان کی صورتحال کیا تھی اور آج کیا ہے؟ اب لوگ اپنے گھر واپس آنا چاہتے ہیں۔یہ بہت اچھی بات ہے۔میں لوگوں کو واضح طور پر یہ بات بتا دینا چاہتا ہوں کہ وی ایچ پی کسی کا مذہب تبدیلی نہیں کراتی بلکہ محبت سے اپنے آباء واجدادسے جوڑتی ہے‘‘۔یعنی بھارت کے ہندو ہر صور ت سارے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہر صورت ہندو بنانے پر تلے بیٹھے ہیں اور انہوں نے اس کا کئی ماہ سے پوری سرگرمی کے ساتھ پروگرام بھی چلا رکھا ہے جسے وہ ہر روز مزید تیز تر کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔

22دسمبر کو خبر آئی کہ وزیراعظم نریندر مودی کے آبائی صوبہ گجرات میں وشو اہندو پریشدنے 100 سے زیادہ قبائلی عیسائیوں کا جبری طور پرمذہب تبدیل کرا کر انہیں ہندو بنایا ہے۔ وی ایچ پی کی جانب سے گھر واپسی کے نام پر ہفتہ کو دوپہر ولساڈ ضلع کے کاپردا تعلقہ کے ارنٹی گاؤں میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وی ایچ پی اور کچھ دیگر مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں کی موجودگی میں 6 گاؤں کے قبائلیوں نے ’’اشنان‘‘ کیا اور پوجا (ہون) میں حصہ لیا۔ اس کے بعد نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے ’’گنگاجل‘‘ چھڑک کر ان کا ’’شدھی کرن‘‘ کیا۔

بھارت میں مودی کی حکومت آنے کے بعد ہر روز اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اب انتہائی قلیل آبادی رکھنے والے عیسائیوں کے خلاف بھی شکنجہ تنگ سے تنگ اور سخت سے سخت تر ہورہا ہے جس پر دنیا میں کو ئی بھی کہیں بات تک کرنے کو تیار نہیں۔اگر اس کے عشر عشیر کوئی افواہ بھی کسی مسلم ملک خاص طور پر پاکستان کے بارے میں مشہور ہو جاتی تو دنیا میں ایک کہرام مچ چکا ہوتا۔اب تو دیکھنا صرف یہ ہے کہ کب کوئی نیا عبدالرشید پیدا ہوتا ہے جو اس نئی شدھی تحریک کا کریا کرم کرتا اور عالم اسلام کی خاموشی توڑتا ہے کیونکہ ہندوؤں کو ایک عبدالرشید کے بعد ایک صدی تک شدھی کا ’’پاکھنڈ‘‘ رچانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.