سنجیدہ سیاست کے ماتھے کا جھومر

برادر اطہر ہاشمی نے جب یہ بتایا کہ 26دسمبر آرہی ہے پروفیسر غفور احمد کی رحلت کو دو سال ہو جائیں گے اچانک یہ احساس ہوا کہ وقت کتنی تیزی سے پر لگا کر اڑ رہا ہے یہ تو جیسے کل ہی کی بات ہو کہ اب سے دو سال قبل ہم ادارہ نور حق میں غفور صاحب کی نماز جنازہ پڑھ رہے تھے لیکن یہی کیا اس سے قبل کئی عشروں کی باتیں اور یادیں بھی ایسے ہی لگتی ہیں جیسے کہ یہ کل ہی کی بات ہو یہ8مارچ1977کا دن ہے میں اپنے گھر سے باہر آیا تو دیکھا کہ گلی اختتام پر سڑک پر لوگ دیوانہ وار مشرق سے مغرب کی طرف دوڑ رہے ہیں ،فطری طور پر میرے اندر بھی یہ شوق ابھرا کہ چل کر دیکھا جائے کہ مسئلہ کیا ہے ،میں نے بھی دوڑ لگادی سڑک پر جا کر دیکھا تو کونے پر اسرائیل ہوٹل پر لوگوں کا رش دیکھا قریب گیا تو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ کسی کو گھیرے ہوئے کھڑے ہیں استعجاب میں مزید اضافہ ہوا دونوں ہاتھوں سے لوگوں کے درمیان راستہ بناتے ہوئے بھیڑ کے اندر جا پہنچا یہ دیکھ کر تھوڑی سی حیرت اور بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ غفور صاحب ایک سمنٹ کے چبوترے پر بیٹھے ہیں اور لوگ انھیں گھیرے کھڑے مختلف قسم کے سوالات کررہے ہیں کہ اب آئندہ قومی اتحاد کا کیا پرگرام ہے قومی اسمبلی کے انتخابات تو دھاندلی کی نذ ر ہو گئے غفور صاحب نے کہا ابھی آپ لوگوں کو تفصیل بتاتے ہیں ۔تھوڑی دیر بعد غفور صاحب نے ہوٹل سے کرسی منگوائی اور اس پر کھڑے ہو کر موقع پر موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج صبح قومی اتحاد کا اجلاس ہو اہے جس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چونکہ پی پی پی کی حکومت نے 7مارچ کے انتخابات میں بے پناہ دھاندلی کی ہے اور قومی اتحاد کی جیت کو ہار میں تبدیل کردیا ہے اس لیے 10مارچ کے صوبائی انتخابات کا منظم اور بھر پور بائیکاٹ کیا جائے اس وقت لوگوں نے زبردست نعرے لگائے اور کہا کہ ہم کسی کو ووٹ ڈالنے نہیں دیں گے غفور صاحب نے کہا دیکھئے آپ محبت اور نرمی سے لوگوں کو سمجھائیں کو وہ ووٹ ڈالنے نہ جائیں اس لیے کہ یہ ہماری مہم کا آغاز ہے اور اس میں کسی طرح بھی تشدد کا رنگ نہیں آنا چاہیے اس کو بالکل پر امن رہنا چاہیے پھر بعد میں ہمیں نظم کی طرف سے یہ ہدایت ملی کہ لوگ اپنی گلیوں اور محلوں میں رہیں وہیں سے لوگوں کو اس بائیکاٹ کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار کریں اور پولنگ اسٹیشنوں پر سناٹا رہنا چاہیے ہمیں یاد ہے کے بڑے پرامن اور منظم انداز میں یہ مہم چلی تھی صوبائی انتخابات والے دن حقیقتاَپولنگ اسٹیشنوں پر ہو کا عالم تھا میں نے خود کئی پولنگ اسٹیشنوں پر جاکر دیکھا تھا اندر پولنگ کا عملہ سکون سے بیٹھا ہوا تھا اور یہ بائیکاٹ کی ایسی مہم تھی جس میں قومی اتحاد نے اس قسم کا کوئی جملہ نہیں بنایا تھا جو ووٹ ڈالنے آیا اس کی انگلیاں کاٹ دی جائیں گی یا پی پی پی کے امیدواروں یہ دھمکیاں دی گئیں ہوں کہ بیٹھ جاؤ یا لیٹ جاؤ۔اس کے بعد ہم اور غفور صاحب پیلی کوٹھی سے ہوتے ہوئے اعظم نگر کی طرف گئے راستے میں غفور صاحب نے بتایا کہ اجلاس میں یہ طے ہوا تھا کہ تمام ممبران اور امیدوار حضرات خود اپنے اپنے حلقوں میں جاکر عوام کو بائیکاٹ کا فیصلہ سنائیں اور بائیکاٹ کی فضاء بنائیں ۔ اس لیے میں گھر سے اٹھ کر سیدھا لیاقت آباد آگیا ۔غفور صاحب کو لیاقت آباد سے خصوصی انسیت تھی وہ اکثر اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ یہ وہ علاقہ جہاں کے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت نے قیام پاکستان کے وقت عظیم قربانیاں دی ہیں اور استحکام پاکستان کے لیے بھی جان و مال کی قربانی دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ جلدہی قومی اتحاد کے دیگر تمام رہنماؤں کیساتھ غفور صاحب کو بھی گرفتار کرلیا گیا ان کے بعد غفور صاحب کی بیگم نے ان کی جگہ محاذ سنبھال لیا وہ اس پوری مہم میں انتہائی متحرک رہیں ۔غفور صاحب کے بعض سیاسی جملے تاریخی اہمیت اختیار کر گئے تھے ،مثلاَبھٹو دور میں جسارت بار بار بند ہوتا اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے بحال ہو جاتا ۔ایک دفعہ جسارت میں اسٹیٹ بینک کو گورنر غلام اسحقٰ کے خلاف ایک اداریہ لکھا جو بہت سخت تھا اس پر جسارت بند ہوا تو پھر اس کے اجراء کے امکانات معدوم ہو گئے ہر پروگرام میں غفور صاحب سے سوال کیا جاتا کہ جسارت کب نکلے گا تو ایک دفعہ انھوں نے جواب دیا اب جسارت اور بھٹو ایک ساتھ نکلے گا۔پھر ایسا ہی ہوا کہ بھٹو صاحب کے جانے کے بعد جسارت بحال ہوا ۔1973میں جب مستقل دستور نافذہوا تو اس سے قبل بڑی طویل اور جانگسل مہم چلائی گئی ایک دفعہ اسی دوران جب دستور سازی کے سلسلے میں متحدہ اپوزیشن کے بھٹو سے مذاکرات چل رہے تھے تو بھٹو نے ایک بیان دیا کہ میں نے جو دستور دیا ہے ہو اسلامی ،جمہوری اور وفاقی ہے دوسرے دن مولانا مودودی کا جوابی بیان آیا کہ بھٹو صاحب نے جو دستور پیش کیا ہے وہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اور نہ وفاقی ہے ۔پھر جب بھٹو صاحب نے اپوزیشن کے اچانک تمام مطالبات منظور کر کے متفقہ دستور بنالیا تو اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا کہ کل تک جو دستور نہ اسلامی تھا نہ جمہوری تھا نہ وفاقی تھا آج وہ اسلامی بھی ہو گیا جمہوری بھی ہو گیا اور وفاقی بھی ہوگیا یہ دراصل مولانا مودودی کے بیان کا طنزیہ جواب تھا ۔ایک جلسے میں بھٹو صاحب کے اس بیان کے جواب میں غفور صاحب نے کہا کہ ایک گھنٹے پہلے ایک شخص کافر ہوتا ہے اور وہ جب کلمہ پڑھ لیتا ہے تو مسلمان ہو جاتا ہے تم نے تو ہمارے چھ میں سے پانچ نکات منظور کرلیے تھے اس لیے یہ دستور اسلامی ہو گیا ۔ایک دفعہ غفور صاحب کی ایک تصویر شائع ہوئی کہ وہ داتا گنج بخش کے مزار پر موجود ہیں اس پر جماعتی حلقوں بڑی کھلبلی مچ گئی ایک پروگرام میں غفور صاحب سے اس حوالے سے شدید قسم کے سوالات ہوئے کہ آپ نے داتاگنج بخش کے مزار پر چادر چڑھائی ہے انھوں نے جواب دیا کہ میں چادر نہیں چڑھائی اور جہاں تک مزار پر حاضری دینے کا سوال ہے تو میں اس کے بعد مولانا مودودی سے ملا ہوں منصورہ میں اور ساتھیوں سے ملا ہوں لیکن کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا انھوں نے کہا بھائی میں مسکن بھی بریلوی ہوں اور مسلکاَبھی بریلوی ہوں یعنی مسلک کے اعتبار سے بریلوی اور غفور صاحب رہنے والے بھی بریلی کے تھے ۔انھوں نے کہا کہ جماعت میں ہر مسلک کے لوگ ہیں اور مجھے بھی اپنے مسلک پر عمل کرنے کی آزادی ہے ۔

غفور صاحب انتہائی سنجیدہ اور متین سیاستداں تھے انھوں نے کبھی کسی کے خلاف اخلاقی معیار سے گری ہوئی زبان استعمال نہیں کی ،شدید غصے کی حالت میں بھی وہ الفاظ کا چناؤ سخت سے سخت تو کرتے تھے لیکن اخلاق و شائستگی کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے تھے ۔جب تقریر کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو جاتے تو لفظ آپ سے تم پر آجاتے تھے ۔حالانکہ بھٹو نے اپنے سیاسی مخالفین کو مختلف نام دیے ہوئے تھے اصغر خان کو آلو عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل کہتے تھے اور اسی طرح اور رہنماؤں کے حوالے سے بھی ان کا انداز تخاطب نامناسب ہوتا تھا لیکن غفور صاحب کے لیے کبھی کوئی بات نہیں کی بلکہ جب بھی نام لیا تو ادب و احترام سے نام لیا ۔اس کی ایک خاص وجہ شاید میرے نزدیک یہ تھی غفور صاحب نے ہمیشہ دوسروں پر تنقید تو کی اور بڑی شدید تنقید کی لیکن تہذیب کے دائرے میں رہ کر کی ۔وہ ایم کیو ایم کے خلاف بھی بات کرتے تھے لیکن اس انداز میں کرتے تھے کہ جلسے میں اگر ایم کیو ایم کو لوگ بھی ہوتے تو وہ بھی برا نہیں مانتے بلکہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ۔بہر حال آج ہم جب اپنے موجودہ سیاست دانوں کی تقاریر اور ان کا دوسروں کے حوالے سے انداز تخاطب دیکھتے ہیں تو پھر غفور صاحب شدت سے یاد آتے ہیں اور پھر غفور صاحب ہی نہیں مولانا مفتی محمود ،شاہ احمد نورانی ،نواب زادہ نصراﷲ خان سب ہی کی تصویریں ایک ساتھ نظروں میں گھوم جاتی ہیں اسی لیے آج ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کے یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں سنجیدہ سیاست کے ماتھے کا جھومر تھے ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.