پشاور قتل عام کے ٹھیک ایک ہفتہ
بعد آسام میں ناحق معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ۔ اس میں اب تک ۷۰
لوگوں کے مرنے کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں ۲۱ خواتین اور ۱۸ بچے ہیں ۔ ۳ ایسے
لوگ بھی ہیں جو اس کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے اور پولس کی گولیوں کا نشانہ
بنے اور ۲ لوگوں کو بدلہ لینے کیلئے ماردیا گیا ۔ ان واقعات پر معروف صحافی
راجدیپ سر دیسائی نے ٹویٹ کیا ’’آسام کی قتل و غارتگری ہمارا اپنا پشاور
ہے۔ نفرت اور بندوق مہلک مرکب ہے ۔ مہلوکین کیلئے دعائیں‘‘ ۔ اس ٹویٹ کے
علاوہ سوائے وزیراعظم اور وزیراداخلہ کی جانب سے مذمتی دوجملوں والے
پیغامات اور صدرمملکت و وزیراعلیٰ کے بیانات کے سوا کسی قابل ذکرہستی کا
کوئی پیغام نظروں سے نہیں گزرا۔ فیس بک پر ہلاک ہونے والے بچوں صرف ایک
تصویر ہمارے دوست شفیع مدنی صاحب نے بھیجی جس کو میں نے اپنے صٖفحہ پر اس
تبصرے کے ساتھ پیش کیا کہ’’ بچے تو آخر بچے ہیں چاہے پشاور میں ہوں یا
آسام میں‘‘ یقین کریں کسی ایک فردنے بھی اس پر نہ تبصرہ کیا اورنہ اس کو
لائیک کیا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ردعمل میں آخر یہ اتنا بڑا فرق
کیوں واقع ہو گیا؟ یہ درست ہے کہ مرنے والوں کی تعداد نصف ہے لیکن کیا
ہمارا احتجاج تعداد کے اوپر منحصر ہے؟ اور اگر ایسا بھی ہے تو نصف نہ سہی
تو کم از دسواں حصہ بلکہ ایک فیصد ردعمل تو ہوتا ؟ وہ غم و غصہ کا سیلاب ،
وہ تصاویر کا انبار، وہ فقرے، وہ شاعری ، وہ مضامین کے حوالے اور ماتم و
سینہ کوبی آخر کہاں غائب ہو گئی ؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس قدر
خودغرض ہیں کہ جب ہماری اپنی ملت کے نونہالوں کا خون بہایا جائے ہم تڑپ
اٹھتے ہیں اور جب دوسرے کا ناحق لہو بہے تو ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ہمارا
دین اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ایک انسان کا ناحق قتل ساری انسانیت کا قتل
ہے ۔ اس میں نہ تعداد کا ذکر اور نہ مقتول کے مذہب کا۔ بات صرف اور صرف
انسانیت کی ہے ۔ ایسے میں دیگر لوگوں پر ہونے والے ظلم سے ہمارا دل کیوں
نہیں تڑپتا؟
ایک اور سوال یہ ہے کہ پشاور کے سانحہ پر نہ صرف مسلمان تڑپ اٹھے تھے بلکہ
دیگر مذاہب کے لوگ بھی بے چین ہو گئے تھے ۔ پارلیمان کے اندر اور باہر،
سڑکوں اور چوراہوں پر، اسکولوں اور دفاتر میں، الکٹرانک میڈیا اور سوشیل
میڈیا کے اندر ہر جگہ ہر مقام پر لوگ اپنے جذبات کا اظہار کررہے تھے ۔ آخر
ان تمام لوگوں کو اچانک کیا ہو گیا۔ جو لوگ مسلم بچوں سے اس قدرہمدردی جتا
رہے تھے وہ خود اپنی قوم کے بچوں ، عورتوں اور بزرگوں کے قتل عام پر کیوں
کر چپیّ سادھے ہوئے ہیں ۔ کیا انہیں اپنے قوم سے زیادہ مسلمان قوم سے
ہمدردی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو دنیا بھر میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام پر
وہ کیوں نہیں بولتے۔ مثلاًغزہ کی بمباری میں جو ۲۰۰۰ شہری شہید ہوئے ان میں
ایک چوتھائی بچے تھے ۔ ان معصوموں کی موت پر کوئی آہ کیوں نہیں نکلی ؟
کیوں آنسو نہیں ڈھلکا؟ شاید اس لئے کہ ان کو ہلاک کرنے والے مسلمان نہیں
تھے ۔
اس کا مطلب کہیں یہ تو نہیں ہے کہ سارا ہنگامہ اس بات کو لے کر تھا کہ
پشاور کے حملہ آوروں کا نام اور لباس مسلمانوں جیسا تھا ۔ ان کے چہرے پر
داڑھیاں تھیں اور ان کا تعلق طالبان سے تھا۔ اگر وہ نام کے سہی مسلمان نہ
ہوتے یا بشار الاسد کی طرح سیکولر مسلمان ہوتےتو کیا تب بھی یہ طوفان برپا
ہوتا؟ اگر ایسا ہے تو یہ نہایت خطرناک رحجان ہے ۔ ظلم کی مذمت اور مظلوم کی
حمایت میں اس طرح کا تفریق و امتیاز ہر گز درست نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں
کہ شعوری طور پر اس طرح کے واقعات کا فائدہ اٹھا کر اسلام اور مسلمانوں کو
بدنام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ایسے لوگ نہیں کے برابر ہیں جو گدھ
کی مانند اس قسم سانحات کے منتظر رہتے ہیں اور ان کے رونما ہوتے ہی اسلام
پسند وں کے خلاف اپنے من بھڑاس نکالنے میں جٹ جاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ امت کے اندر ایسے بھولے بھالے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو جذبات
میں آکر ان شرارت پسندوں کا آلۂ کار بن جاتے ہیں ۔ کوئی اسلام دشمنوں کا
آلۂ کار بن کر بندوق اٹھا لیتا ہے اورمسلمانوں کی لاشیں بچھا دیتا ہے تو
کوئی الفاظ کی بندوق سے اسلام کا سینہ چھلنی کردیتا ہے اور جب اسلام کا
جنازہ اٹھایا جاتا ہے تویہ بھولے بھالے مخلص مسلمان بھی جوش و خروش کے ساتھ
اس میں شریک ہو کر کندھا دینے کو کارِ ثواب سمجھتے ہیں۔
ہم ہیجان کا شکار ہوکرخس و خاشاک کی مانند ہر آندھی طوفان میں کس طرح بہتے
چلے جاتے ہیں اس کی ایک مثال ابھی حال میں سامنے آئی۔ چاردن قبل کسی ڈاکٹر
صاحبہ نے ایک خبر گڑھی جس کامفہوم تھا اسلامی جہاد شروع ہوچکا ہے اور ایسے
میں بچوں کا قتل معمولی قربانی ہے۔ اس خبر کے برابر میں منور حسین صاحب کی
تصویر نیچے امیر جماعت اسلامی لکھا تھا ۔ یہ تصویر فیس بک سے گردش کرتی
ہوئی لکھنو کے ایک بڑے اردو اخبار کے دفتر میں پہنچی اور اخبار کے مالک کے
مضمون کے ساتھ پہلے صفحہ پر لگ گئی۔ پہلے تو اس میں منور حسین کو جو ڈیڑھ
سال قبل اس عہدے سے سبکدوش ہوچکےہیں جماعت اسلامی کا امیر بتلایا گیا۔
ٹحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ منور حسین نے ٹی وی چینل پراس سانحہ کی شدید مذمت
کرتے ہوئے اسے جہاد فی سبیل اللہ نہیں بلکہ جہاد فی سبیل الشیطان قراردیا
ہے۔ ممکن ہےمحترم کالم نگار یہ نہیں جانتے ہوں کہ پاکستان کا امیر جماعت
کون ہے ؟ انہوں نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی ہو کہ منورحسین نے کیا بیان دیا
ہے۔ کسی نے ان کی اس جانب توجہ دہانی کی بھی زحمت نہیں ہو کہ ان سے کیسی
فاش غلطی سرزد ہوئی ہے یا اگر ایسا ہوا بھی ہے تو انہوں نے معذرت پیش کرنے
کو ضروری نہیں سمجھا۔ اگر پڑھے لکھے اسلام پسندوں کی یہ حالت ہو تو بیچارے
جاہل گنوار کس شمار قطارمیں آتے ہیں۔
یہ تو عوامی سطح کی بات ہوئی اب ذراپشاور اور آسام کے سرکاری ردعمل کا
موازنہ بھی ہو جائے۔ پاکستان کی حکومت نے اس سانحہ پر تین دن کے سوگ کا
اعلان کیا اور ایوان پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کیا۔ غور وخوض کے بعد اس
کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کی ۔ ہمارے ملک میں آسام کے حوالے سے تین منٹ
کا سوگ بھی نہیں منایا گیا۔پارلیمان کا کوئی خصوصی اجلاس طلب نہیں کیا گیا
حالانکہ اجلاس کے آخری دن یہ حادثہ رونما ہوا ایسے میں ارکان پارلیمان
دہلی کے اندر ہی تھے اور انہیں خصوصی اج؛اس کیلئے طلب کرنا نہایت آسان کام
تھا۔ حکمراں جماعت کے پارلیمانی بورڈ میں روایتی مذمت کے بعدانتخابی شکست
کے باوجود کشمیر میں حکومت سازی کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کے وزیراعظم نے
بذاتِ خود پشاور کا دورہ کیا مگر ہندوستان کے وزیراعظم اپنے وزیرداخلہ
کوآسام روانہ کرکے خود اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے
مدن موہن مالویہ کے مجسمہ کو ہار پہنایا۔ اسی گھاٹ مین صفائی مہم کا جائزہ
لیا ۔ یونیورسٹی میں ایک عمارت کی سنگ بنیاد رکھی ۔ ڈیریکا کے نئے انجن کو
ہری جھنڈی دکھلائی ،ویڈیو کانفرنسنگ کی اور لوٹ آئے۔غالباً یہ اوبامہ کو
وارانسی کا دورہ کرانے کی تیاری تھی۔ عمران خان نے اپنا ملک گیر احتجاج
منسوخ کردیا لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی جھارکھنڈ میں کامیابی کا جشن منانے
میں لگی رہی جبکہ آسام میں ہلاک ہونے والے قبائل کا تعلق جھارکھنڈ اور
چھتیس گڑھ سے ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس سانحہ کی مذمت کی لیکن
ہندوستان میں مذہبی رہنما تو درکنارسونیا گاندھی اور امیت شاہ نے بھی اس
بابت خاموش رہنا پسند کیا ۔ کسی علاقائی جماعت کے رہنما کا بیان بھی ذرائع
ابلاغ میں نہیں آیا۔ اشتراکی رہنماوں کی ایک بڑی فوج مغربی بنگال میں
آباد ہے وہ بھی چپی ّ سادھے رہے۔ مذکورہ وزراء کے علاوہ راہل گاندھی وہ
واحد سیاسی رہنما ہیں جن مذمتی بیان منظر عام پر آیا۔ سارے بڑے دانشور یا
کالم نگار کشمیر میں حکومت سازی اور جھارکھنڈ میں بی جےپی کی کامیابی پر
اپنا زور قلم صرف کرتے نظر آئے کسی نے اس قتل عام کا جائزہ لے کر اس کی
وجوہات معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آسام کے وزیراعلیٰ ترون گوگوئی نے
اپنا جرمنی کا دورہ ضرور منسوخ کیا لیکن فساد زدہ علاقہ کا دورہ کرنے کے
بجائے اپنے ۶ وزراء کے ایک وفد کو روانہ فرمادیا ۔ گوہاٹی میں اخبار نویسوں
کے سامنےیہ وضاحت توکی کہ پولس کی گولی سے ۵ نہیں بلکہ ۳ لوگ مارے گئے ہیں
لیکن یہ نہیں بتلایا کہ پولس نے آخر مظاہرین پر گولیاں کیوں برسائیں اور
خاطی انتظامیہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائیگا؟ چونکہ حملہ آور مسلمان نہیں
ہیں اس لئے ان کا تعلق بنگلہ دیش کے مجاہدین سے نہیں جوڑا جاسکا لیکن کسی
کو یہ صفائی پیش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کہ ان دہشت گردوں کا کوئی
تعلق ان کے مذہب سے نہیں ہے۔ اس لئے کہ ذرائع ابلاغ کی نظر میں مسلمان تو
پیدائشی دہشت گرد ہے اس لئے ہمیں صفائی پیش کرنی پڑتی ہے کہ دہشتگردی کا
اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہےدیگردہشت گرد نہ ہندو ہوتے ہیں اور نہ عیسائی وہ
تو بس دہشت گرد ہوتے ہیں۔
(آسام کے حالیہ قتل عام کی وجوہات ان شا اللہ دوسری قسط میں) |