۔۔ یلغار ؛ فیصل شامی
کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے ،، جی ہاں دوستوں یہ وہ الفاظ
ہیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی شہادت سے قبل لیاقت باغ میں زور شور سے
نعروں کی صورت میں لگائے ،، جی ہاں ستائیس دسمبر کے دن لیاقت باغ میں
محترمہ بے نظیر بھتو نے عطیم الشان جلسہ عام سے خطاب کیا اور اس خطاب میں
محترمہ نے واضح کر دیا تھا کہ انکی جان کو خطرہ ہے لیکن وہ پھر بھی اپنی
جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے پاکستان پہنچ گئیں ،، بغیر کسی نتیجے کی پرواہ کئے
بغیر ،، تاہم لیاقت باغ پر حملہ ان پر پہلا حملہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل
بھی کراچی میں شاہراہ کارساز پر قاتلانہ حملہ کیا گیا لیکن بی بی سانحہ
کارساز میں محفوظ رہیں ،، جی ہاں تاہم بتلاتے چلیں کے شاہراہ کارسازپر
دھماکے میں شہید ہونے والوں کی یاد میں آج بھی شمعیں روشن کی جاتی ہیں اور
درد ناک حادثے کو سانحہ کارساز کے نام سے یاد کر کے سوگ منایا جاتا ہے ،
بہر حال کراچی کے بعد بی بی شہید پر راولپنڈی لیاقت باغ میں عین اسوقت حملہ
کیا گیا جب ، جب ،، بی بی بے نطیر لیاقت باغ میں تقریر ختم کر کے گاڑی میں
بیٹھ کر جلسہ گاہ سے نکل رہی تھیں ،، تاہم بتلاتے چلیں کہ لیاقت باغ وہی
جگہ ہے جہاں پاکستان کے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو گولی مار کر
شہید کیا گیا تھا اور عین اسی جگہ بے نطیر بھٹو کو بھی شہید کیا گیا ،، اور
بی بی کی شہادت یقینا نقصان عظیم ہی تھا ، جی ہان بی بی کی شہادت کے بعد
ملک بھر میں گویا آگ ہی لگ گئی تھی،، ہر جگہ توڑ پھوڑ ، آگ لگا دی گئی تھی
،،تاہم تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ جب بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ
ہوا عین اس سے کچھ وقت قبل موجودہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف پر بھی
حملہ کیا گیا ،لیکن جناب نواز شریف حملہ میں بچ گئے ، تاہم میاں نواز شریف
پر حملہ کی خبر نے ہر جگہ کھلبلی مچا دی تھی ، تمام سکیورٹی فورسسز کا
دھیان میاں نواز شریف موجودہ وزیراعظم پر گیا اور عین اسی وقت دہشت گردوں
نے اپنا کام دکھایا اور بی بی پر حملہ کر دیا جو جان لیوا ثابت ہوا ،،جی
ہاں کہا جا رہا ہے کہ بی بی شہید و شدید ذخمی حالات میں اسپتال لے جایا جا
رہا تھا لیکن وہ ہسپتال پہنشنے سے قبل ہی شہادت کا رتبہ حاصل کر چکی تھیں ،
اور اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال بی بی شہید کے قاتل نہ توبے نقاب
ہو سکے اور نہ ہی ،،،انکو سزا ہو سکی ،،تاہم عوام کو آج بھی ید ہے کہ جنا ب
آصف علی زرداری جب صدر مملکت پاکستان تھے تو انھوں نے عوام کو یقین دلایا
تھا کہ انھیں پتہ ہے کہ بی بی شہید کے قاتل کون ہیں اور وقت آنے پر بے نقاب
کریں گے ، لیکن آج تک وہ دن نہیں آیا ، یعنی کہ عوام کو تاحال نہیں پتہ چل
سکا کہ محترمہ کے قاتلوں کا، تاہم اگر بات کریں قاتلوں کا پتہ کرنے کی تو
تو جناب ضیاء الحق شہید کا ظیارہ بھی آسمان مین تباہ ہو گیا لیکن آج تک اس
کے اسباب بھی عوام کو نہیں معلوم ہو سکے ،، بہر حال عوام کو آج بھی یہ
انتظار ہے کہ شاید وہ دن آئے جب انھیں بی بی محترمہ کے قاتلوں کا پتہ لگ
سکے تاکہ وہ انھیں حسب خواہش سزا دے سکیں ،،بہر حال ستائیس دسمبر محترمہ کی
شہادت کی تاریخ ،اور یقینا جب بھی ستائیس تاریخ آتی ہے تو جہاں پیپلز پارٹی
کی صفحوں میں صف ماتم بچھ جاتی وہاں دنیا بھر کے عوام بھی غمگین ہو جاتے
ہیں ،،جی ہاں محترمہ کی شہادت پاکستانی میدان سیاست کو بہت بڑا جھٹکا تھا ،
جی ہاں بھٹو کے جیالے قائد کی بیٹی کی برسی ستائیس دسمبر کو انتہائی عقیدت
و احترام سے مناتے ہیں تاہم ایک دفعہ پھر ستائیس دسمبر ہے اور محترمہ کی
برسی کا موقع ہے ، اسی لئے ملک بھر سے تمام جیالے ابھی سے لاڑکانہ گڑھی خدا
بخش پہنچنا شروع ہو گئے ہیں ، جی ہاں یقینا ہر سال کی طرح اس سال بھی بی بی
بے نظیر بھٹو کی برسی کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں ، ہر سال کی طرح سادہ
پروقار تقریب کا اہتمام ہو گا ، قرآن خوانی ہو گی ،،عجیب سماں بندھا ہو گا
بی بی کی برسی کے موقع پر ،،تاہم بہت سے دوستوں کو حیرت ہے کہ بے نظیر بھٹو
کی برسی کہ موقع پر پی پی کے چئیر مین بلاول بھٹو ملک سے باہر ہیں تاہم
انکی آمد کے حوالے سے بھی بہت سی قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ آیا وہ محترمہ
بے نظیر کی برسی میں شرکے کریں گے یا نہیں کیونکہ وہ پاکستان میں نہیں بلکہ
پاکستان سے باہر قیام پذیر ہیں ،،بہر حال حقیقت تو یہ بھی ہے کہ محترمہ بے
نظیر بھٹو کے صاحبزادے قومی سیاست کے میدان میں چھلانگ لگا چکے ہیں جب کہ
محترمہ کی صاحبزادیاں آصفہ اور بختاور ٹوئٹر پر نوجوان نسل کو اپنے خیالات
سے آگاہ کر تی رہتیں ہیں تاہم ، اب دیکھنا تو یہ بھی ہے کہ بی بی کی برسی
کے موقع پر پیپلز پارٹی کے قائدین کس طرح سے اپنی قائد کی افکار پر تفصیلی
روشنی ڈالتے ہیں ،، بہر حال بہت سے دوست کہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے بہت
سے قائدین میں آپسی اختلافات پائے جاتے ہیں اسی لئے بہت سے پیپلز پارٹی کے
کارکنوں کیخواہش ہے کہ قائدین آپسی لڑائی جھگڑے ختم کریں، اور محترمہ کے
نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک و قوم کے لئے بھی سوچیں اور مشکل پڑنے میں اپنی
قائد کی طرح ملک کی خاطر جانیں دینے سے بی گریز نہ کریں تاہم بہت سے
کارکنوں کا خیال ہے کہ پی پی کے زوال کی بڑی وجہ رہنماؤں کی آپس کی لڑائیاں
ہی ہیں جو کہ ختم ہو گئیں تو یقینا پارٹی بھی جلد ترقی کر سکے گی اور ملکی
سیاست میں کھویا ہوا مقام بھی جلد حاصل کر سکے گی ،،بہر حال دعا تو ہماری
بھی یہی ہے جو کہ پی پی کے کارکنوں کی ہے یعنی کہ محتر مہ بے نظیر بھٹو کے
قاتلوں کو جلد از جد تختہ دار تک پہنچایا جائے تاکہ نہ صرف عوام سکون کا
سانس لے سکیں بلکہ عالم بالا میں محترمہ کی تڑپتی روح کو بھی قرار مل سکے
بہر حال اجازت دوستوں ملتے ہیں جلد ایک بریک کے بعد اﷲ نگھبان رب راکھا ،،، |