پاکستان میں توہین کے قانون کی بلا تفریق عملداری ثابت ہو گئی۔
(Chaudhry Muhammad Rashid, Jeddah)
جنید جمشید پر درج ہونے والی رپورٹ سے ایک
بات تو واضح ہو گئی کہ توہین کے قانون سے کوئی بھی مبرا نہیں چاہے ان پڑھ
عیسائی آسیہ ہو یا لاعلم مشہور و معروف مسلمان سابقہ گلوکار-
پاکستانی عدالتوں کو از خود نوٹس لے کر اس قانون کا اطلاق سلمان رشدی اور
تسلیمہ نسرین پر بھی کرنا چاہیے۔ تا کہ دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ خاتم
النبیین آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کسی بھی صورت
میں قابل قبول نہیں۔
بات یہاں یہ ہونی چاہیے کہ وہ کون سے کردار ہیں جن کو توہین کے قانون پر
اعتراضات رہتے ہیں۔
جنید جمشید پر مقدمہ ہونے سے حالت غیر اب ان دانت بجانے والے مغرب زدہ،
بھارتی چوہے سر والے پنڈتوں کے یار غیر مذہب اور غلیظ دماغوں کی ہو گی جن
کو ہر اسلامی بات پر درد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسلام کا نام سن کر ان کی
حالت غیر ہو جاتی ہے-
وہ انتہا پسند جن کو امریکہ سام انکل کی صحبت حاصل ہے۔ ایک طرح کے جاسوس
قسم کے کردار۔ ان کا کوئی دین نہیں، کوئی مذہب نہیں۔ غلیظ قسم کی انا کے
غلام بدکردار سے حیوان نما انسان۔ در بدر ٹھوکریں کھاتے اور اپنے ملکوں سے
بھاگتے اپنے ہی لوگوں کے دشمن۔ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا، جھوٹی
افواہیں پھیلانا، کہانیاں گھڑ گھڑ کر امریکہ اور مغرب سے پیسہ لینا جن کا
شعار ہے-
ان کی جاہلیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ اپنی من گھڑت کی
کہانیاں بیچنے کے لیے کروڑوں لوگوں اور کئی کئی ملکوں کو مغرب اور امریکہ
کے نشانے پر لانا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ قلم اور فلم کا سہارا لے کر یہ
جھوٹے اور لعنتی چہرے مغرب کی طوائف اور اپنے ملکوں سے طلاق یافتہ کی سند
لیے دربدر گھومتے نظر آتے ہیں- وہی جو پاکستان، ایران اور عرب ملکوں سے
بھاگ کر در بدر ذلیل ہوتے پھرتے ہیں۔ |
|