برکتوں رحمتوں ، رنگ و نور کے
مہینہ ربیع الاول کا آغاز ہوچکا ہے - دیوانے اس ماہ پرنور کی آمد پر خوشی و
فرحت سے جھوم جاتے ہیں - شرع کے مفتی کہتے ہیں کہ محرم ، صفر شعبان اور
رمضان افضل مہینے ہیں جبکہ عشق کا قاضی فرماتا ہے کہ ربیع الاول سارے
مہینوں سے افضل ہے ۔ عشق دلائل کا محتاج نہیں ہوتا مگر کیا کریں کچھ خشک
لوگ دلائل دیکھ کر بھی نہیں مانتے ۔ جس رآت قرآن اترا اسے لیلہ القدر کہتے
۔ جس سہانی صبح صاحب قرآن آئے اسے صبح النور کہتے ہیں ۔ حدیث کے مطابق جس
دن آدم علیہ السلام پیدا ہوے وہ دن دنوں میں افضل ہے ۔ عشق کے قاضی کے
مطابق جس دن آمنہ کے لال تشریف لائے اسے دنوں کا پیر کہتے ہیں۔
ایک طرف دیوانے جشن مناتے ہیں تو دوسری جانب خشک ملاں فتوؤں کی بارش کردیتے
ہیں ۔ کچھ تو جاہل مفت خور مفتی میلاد منانے کو شرک تک کہہ دیتے ہیں ۔ میں
نے ایسے ہی ان پاڑ ( روٹی توڑ ) مفتی سے کہا جناب آپ میلاد منانے کو شرک
کہتے ہیں ذرا شرک کی تعریف کر دیجئیے - فرمانے لگے ایسا فعل جو الله کے
لئیے خاص ہو کسی اور کے لئیے کیا جائے اسے شرک کہتے ہیں مثال کے طور پر
سجدہ صرف الله کے لئیے اگر کسی اور کو کیا جائے تو شرک ہوگا ۔ میں نے عرض
کیا اب جلدی سے الله کی ولادت کا دن مہینہ اور سال بتا دو ۔ مفتی جی کی
زبان گنگ آنکھیں آسمانی اور گلا صاف کرتے ہوئے بولے لم یلد ولم یولد نہ
الله نے کسی کو جنا نہ اسے کسی نے جنم دیا ۔ الله پیدا ہونے سے ولادت سے
پاک ہے ۔ میں نے کہا اوہ ابوجہل کی جہالت کے وارث - جب الله کی ولادت کا دن
ہی نہیں تو حضور صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کا دن منانا شرک کیسے ہوا ؟
جہاں میلاد ہے وہاں شرک ہو ہی نہیں سکتا ہم اپنے آقا علیہ السلام کا میلاد
مناکر شرک کی بیخ کنی کرتے ہیں ہم بارہ ربیع الاول کو میلاد مناکر دنیا کو
درس دیتے ہیں کہ چاند کا کلیجہ چیرنے والا سورج کو موڑنے والا ۔ عرش پر
جانے والا کنکروں سے کلمہ پڑھانے والے اتنی قوت اور طاقت کے مالک آقا کو
خدا یا اسکا شریک نہ سمجھنا یہ آقا بارہ ربیع الاول کی صبح پیدا ہوئے - جو
پیدا ہو وہ خدا اور خالق نہیں ہوسکتا بلکہ وہ مخلوق اور الله کا بندہ ہوتا
ہے ۔
آقا خدا کو مانا ہے دیکھ کر تجھ کو
اسکی شان جمیل تو ہے
خدا کی ہستی کی میرے نذدیک
سب سے روشن دلیل تو ہے
جب شرک ثابت نہیں کرپاتے تو بدعت کی آغوش میں پناہ لیتے ہیں اور فرماتے ہیں
کہ میلاد منانا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ انھی کے بقول لغوی طور پر
بدعت کا معنیٰ ہے!کسی چیز کا ایسے طریقے سے ایجاد کرنا جس کی پہلے کوئی
مثال نہ ہو۔جبکہ اصطلاحاً بدعت کہتے ہیں!شریعت میں کوئی نئی چیز گھڑ لینا
جس کی قرآن و سنت میں کوئی دلیل نہ ہو۔ انکی خدمت میں گذارش ہے کہ میلاد
النبی صلی الله علیہ وسلم کی اصل محبت رسول اور تعظیم نبی صلی الله علیہ
وسلم اور اسکے دلائل اور شواہد سے قرآن و حدیث بھرے پڑے ہیں مگر انھیں
دیکھنے کے لئیے دل حب نبی صلی الله علیہ وسلم کی شمع سے منور ہونا چاہئیے
اور آنکھوں پر احمد رضا بریلوی والی عینک ہونی چاہئیے ۔ ان دو چیزوں کا
اہتمام کرکے قرآن کھولو الحمد سے والناس تک پورا قرآن تمھیں نبی پاک صلی
الله علیہ وسلم کا قصیدہ لگے گا ۔
آیتوں سے ملاتا رہا میں آیتیں
پھر جو دیکھا تو نعت نبی بن گئی
یا محمد محمد میں کہتا رہا
نور کے موتیوں کی لڑی بن گئی ۔
ابنِ حجر عسقلانی، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں : البدعة أصلها : ما
أحدث علی غير مثال سابق. ’’بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ
کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘ ( ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253 )۔ ابنِ
حجر عسقلانی رحمہ اﷲ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے
ہیں ۔ محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں
کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔
لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو
یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں
لغوی بدعت کو نہیں۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے
بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔ ذکورہ بالا تعریفات سے
یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی
اصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ
’’بدعت‘‘ ہے، لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ
صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متصادم ہو۔
اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے، معروف غیر ُمقلد عالم دین نواب صدیق حسن خان
بھوپالی لکھتے ہیں ، بدعت ضلالہ جو کہ حرام ہے وہ ہے جس سے کوئی سنت چھوٹ
جائے اور جس بدعت سے کوئی سنت نہ چھوٹے وہ بدعت نہیں ہے بلکہ اپنی اصل میں
مباح ہے۔ ( وحيد الزمان، هدية المهدی : 117 ) ۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں
کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کے لئے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :
1۔ دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔
2۔ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو
توڑے۔
میلاد کی اصل قرآن و حدیث میں موجود ہے - قرآن میں آدم علیہ السلام کا
میلاد ہے تو کہیں مریم کی ولادت اور کہیں عیسی ابن مریم کا میلاد تو کہیں
موسی علیہ السلام کا میلاد بیان ہوا ہے ۔ لجامع ترمذی شریف میں ایک باب ہے
"باب ماجاء في ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم" جو امام ترمذی نے
باندھا ہے۔ تب تک میلاد النبی منانا بدعت نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بدعت کا
بہتان بہت بعد کی ایجاد ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ 604 ہجری کے بعد
میلادالنبی منانے کا رواج پڑا۔ جبکہ امام ترمذی 209 ہجری میں پیدا ہوئے اور
279 میں فوت ہوئے۔ اور اس الزام کا پردہ چاک ہوا۔
سورۃ یونس میں اللہ عز وجل کا ارشاد ہے۔ قُلْ بِفَضْلِ اللّه
وَبِرَحْمَتِه فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
اے محبوب کہہ دیجئیے جب الله کا فضل اور اسکی رحمت ہو تو مل کر اجتماعی
خوشی مناؤ ۔ میرے آقا علیہ السلام سے بڑھکر اور کیا فضل اور رحمت ہوگی لہذا
میلاد شریف کی اصل موجود ہے پس یہ نہ شرک ہے نہ بدعت ۔
حشر تک ڈالیں گےہم پیدائش مولا کی دھوم
مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گئے
خاک ہوجائیں عدؤ جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر انکا سناتے جائیں گئے |