نسلی اور قبائلی تعصبات کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ خالق حقیقی
نے نسل انسانی کی افزائش کا سلسلہ ہی کچھ اس طرح رکھا ہے کہ غیر اختیاری
طور پر انسان جبلی اور فطری خونی رشتوں میں منسلک ہو تا ہے۔ لیکن اللہ
تعالیٰ نے ”سماجی حیوان“ کے طور پرمعاشرے میں زندگی گزارنے کے لئے روزاول
سے کچھایسے اصول بھی عطا کر دیے جو اعزہ و اقارب کو باہم الفت و محبت کا
پیکر بناتے ہیں۔ لیکن یہ اصول اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایسے فلاحی اور
عادلانہ نظام کو بھی ترویج دیتے ہیں جہاں قبائلی اور نسلی تعصبات پروان نہ
چڑھ سکیں۔ اور یہ بھی ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان تعصبات کے فروغ میں
بنیادی کردار جہالت اور کم علمی کا ہوتا ہے۔ بعثت مصطفویﷺ سے قبل کے دور کو
کتب تاریخ و سیرت میں ایک جامع لفظ ”دور جاہلیت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وہ
پورا کا پورا معاشرہ دیگر اعتقادی اور عملی خرابیوں کے ساتھ ساتھ قبائلی
اور نسلی تعصبات کی بھینٹ چڑھا ہوا تھا۔ قبیلوں کے سردارقابل احترام مگر
انانیت اور نسلی برتری کے خول میں بند تھے۔ اکثر و بیشتر حق و باطل کی تمیز
میں رکاٹ بھی ان کی یہی تعصبانہ ذہنیت ہوا کرتی تھی۔ دوسرے قبائل کے ساتھ
خاک و خون کا کھیل ایک معمول بن چکا تھا۔ اسی بنا پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر
جنگ و جدال کا سلسلہ شروع ہو جاتا جو کئی کئی سالوں تک جاری رہتا اور اس
میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتیں ۔ شاید اِن اشعار میں اُن ہی واقعات کی
عکاسی ہے کہ
کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کبھی گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا
یونہی ہوتی رہتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
اصلاح معاشرہ کیلئے حضورنبی کریمﷺ کے کیے گئے عملی اور دور رس اقدامات میں
سے ایک قبائلی اور نسلی تعصبات کا قلع قمع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ
الحجرات کی آیت نمبر تیرہ میں ارشاد فرمایا کہ ”اے بنی نوع انسان بیشک ہم
نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا ہے اور تمہاری باہم پہچان
اور شناخت کیلئے گروہ اور قبیلے بنا دیے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں سے وہی
قابل احترام ہے جو پرہیزگار اور متقی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ جاننے والا اور
خبر رکھنے والا ہے“۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کو واضح کردیا گیا کہ
برادریوں اور قبیلوں میں تقسیم کی حکمت فقط شناخت اور پہچان ہے۔ حقیقی
معنوں میں عنداللہ عزت و احترام کا معیار قبیلہ ہے نہ ذات۔ رنگ ہے نہ نسل
بلکہ فقط خوف خدا اوراللہ کی ذات سے مضبوط تعلق ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں
آپﷺ نے فرمایا کہ ”اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور رنگوں کو نہیں بلکہ تمارے
دلوں کی کیفیات کو دیکھتا ہے۔“ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب اللہ پاک کی
طرف سے تکمیل دین کا مژدہ جانفزا سنایا جارہا تھا تو اس موقع پر حضورﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ ”کسی عربی کو عجمی یا عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں۔
کسی گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں“
یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ کے تشکیل کردہ معاشرے میں ایران سے آنے والے حضرت
سلمان فارسیؓ، روم سے ہجرت کر کے آنے والے حضرت صعیب رومیؓ اور سرزمین حبشہ
سے تعلق رکھنے والے حضرت بلال حبشیؓ ایک اعلی ترین مقام و مرتبہ پاگئے۔ جب
حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں حضرت بلالؓ کا وصال ہوا تو کم و بیش چھبیس لاکھ
مربہ میل کے خلیفہ وقت حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ”قد مات سیدنا الیوم“ آج
ہمارا سردار دنیا سے چل بسا۔ ہجرت کے بعد جب ریاست مدینہ کا قیام عمل میں
آتا ہے تو وزارت خزانہ کا قلمدان بھی حضرت بلال ؓ کے سپرد کیا جاتا ہے جو
رنگ کے سیاہ اور آزاد کردہ غلام ہیں۔ اسی طرح مسجد نبوی شریف کے موذن ہونے
کی سعادت بھی ان ہی کے حصے میں آتی ہے فتح مکہ کے موقع پر جب حضرت بلال
خانہ کعبہ کی چھت پہ چڑھ کے اذان دے رہے تھے تو مکہ کے سردار سٹپٹائے کہ یہ
کیا ہو رہا ہے۔ طرح طرح کی بیہودہ باتیں کیں لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ
تعلیمات مصطفیٰﷺ نے رنگ و نسل کے امتیازات اور نسلی تعصبات سے انسانیت کو
چھٹکارہ دے دیا ہے اور عزت و احترام اور بود و باش کے معیار تبدیل ہو چکے
ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ کہ رنگ و نسل اور قبیلہ و ذات تو غیر اختیاری اور
فطری طور پر قدرت کی طرف سے عنائت کیے جاتے ہیں۔ جس میں بندے کی خواہش شامل
ہوتی ہے نہ مرضی۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اظہار عظمت افراد کی حسن
کارکردگی اور اختیاری معاملات میں ہونا چاہیے نہ کہ فقط برادری، رنگ اور
نسل کی وجہ سے۔ لیکن بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ آج ہماری تباہی اور بربادی
کے جملہ اسباب میں سے ایک زمانہ جاہلیت کے وہی قبائلی جھگڑے، برادری ازم کی
چپقلش اور رنگ و نسل کے امتیازات ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ سینے پہ بیج
اسلام کا لٹکایا ہواہے جو مصنوعی بھی ہو سکتا ہے اور حقیقی بھی۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
ویسے تو دنیا بھر میں مسلمانوں کی حالت اس حوالے سے پتلی ہے لیکن ہمارے
مشاہدے کے مطابق پاکستانی او کشمیری کمیونٹی میں یہ وبا اس قدر زیادہ ہے کہ
الامان والحفیظ۔ اسلامی رشتہ جسے اولیت ملنی چاہیے تھی وہ ان تعصبات کے
پردوں میں گم اور منہ چھپاتا نظر آتا ہے۔ اس کا نمبر کہیں پانچواں ہے تو
کہیں چھٹا۔ پہلے نمبر پر چوہدری، راجہ، بٹ، مغل، جنجوعہ، اعوان، ٹوانہ
اورسید وغیرہ آتے ہیں۔ دوسرے نمبر پہ پاکستانی یا کشمیری۔ تیسرے نمبر پہ
امیر یا غریب۔ چوتھے نمبر پہ شعبہ زندگیزندگی آتا ہے کہ وہ مستری ہے۔ موچی
ہے۔ نائی ہے۔ کمبہار ہے یا زمیندار یا بزنس مین اور پھر جا کے اسلام کا نام
آتا ہے کہ ہم مسلمان بھی ہیں۔ یہی وہ بتان رنگ و بو اور نسلی تعصبات کی
جاہلانہ رسومات تھیں جنہیں حضورﷺ نے اپنے پاؤں کے نیچے روندا تھا لیکن ہم
نے انہیں سر کا تاج اور فخر کا معیار بنایا ہوا ہے۔ اور ساتھ شکوہ کناں بھی
ہیں کہ ہم ذلیل و رسوا اور کمزور کیوں ہو گئے۔ایک عظیم علمی و روحانی شخصیت
صاحبزادہ سیدعلی رضا شاہ صاحب بخاری ذیب سجادہ بساہاں شریف نے اس موضوع کی
طرف توجہ مبزول کرائی۔ میں انکا شکرگزار ہوں اور احسان مند بھی۔ لیکن علمی
رموز سے نا آشنا، ادب کی وادی سے ناواقف اور اسرار تصوف سے بے بہرہ ہونے کے
سبب کچھ اسی کے مصداق ہے کہ
کچھ کلیاں ان کے گلشن کی، کچھ تنکے اپنے نشیمن کے
جوکچھ بھی ملا ساماں لیکر ہم انکی گلی میں آنکلے |