اپنے اقوال و افعال میں زبان اور دل کی موافقت بڑی اہمیت
کی حامل ہوتی ہے۔ ان میں باہمی تفاوت منافقت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
دینی عقائد و شعار ہوں یا اخلاقی اصول و ضوابط ہر جگہ اہمیت سچائی اور
وفاداری کو ہی دی جاتی ہے۔ عادتا جھوٹ بولنے والا بھی جھوٹ کے فضائل بیان
کرنے کی جرائت سے قاصر رہے گا اور بڑے سے بڑا ”حرام خور“بھی حرام کی خوبیاں
بیان نہیں کرسکتا۔ اکثر و بیشتر اخلاقی خوبیوں کا تعلق دل کی صفائی اور
زبان کی شفافیت سے ہے۔معاشرے کو پر سکون اور ماحول کو سازگار رکھنے کیلئے
سب سے اہم چیز اخلاقی تعلیمات کا پرچار اور ان پر عمل درآمد ہوا کرتا ہے
اور ان جملہ تعلیمات کا تعلق عمومی طور پر ہمارے خداداد اعضاء و جوارح سے
ہے۔ اگر ان کا استعمال موزوں انداز میں کیا جائے تو اعمال اور معاملات خوش
اخلاقی کے زمرے میں آتے ہیں اور اگر ان کے استعمال میں کوتاہی برتی جائے تو
اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اگر اس اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہوا جائے تو
پھر مشاہدات گواہ ہیں کہ سماج میں افرا تفری، گھروں میں چپقلش اور حکومتی
ایوانوں سے لیکرکوچہ و بازار تک بد دیانتی اور کرپشن کا دور دورہ ہوتا ہے۔
بد قسمتی سے جتنی منافقت، بد دیانتی اور کھوٹ مسلمان معاشروں میں نظر آتی
ہے وہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ حالانکہ جو اخلاقی اصول اسلام نے ہمیں
سکھائے ہیں وہ کسی دوسرے مذہب و ملت کے پاس الہی تعلیمات کے طور پر من و عن
محفوظ نہیں ہیں۔ غیبت، چغلی، جھوٹ، دھوکہ دہی اور بد دیانتی ایسی اخلاقی
برائیاں ہیں کہ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں جن سے سختی کے ساتھ روکا
گیا ہے۔ ان کے نتیجے میں آنے والے وبال اور سزاؤں کو بیان کیا گیا ہے لیکن
اس کے باوجود انفرادی اور اجتماعی زندگی میں احتیاط بہت کم برتی جاتی ہے۔
کسی کے منہ پر اس کی تعریفوں کے قصیدے بیان کرتے ہوئے زمین و آسمان کے
قلابے ملا دیں گے لیکن جونہی نظروں سے اوجھل ہوا تو برائیاں بیان کرنی شروع
کردیں۔ اولاد اور ماں باپ کے رشتوں میں بھی تقدس کا فقدان ہے۔ میاں بیوی کے
رشتے بھی ان اخلاقی کمزوریوں کی وجہ سے ایسے چل رہے ہیں جیسے ایک ٹرین میں
سفر کرنے والے ایک ہی منزل کے دواجنبی مسافر۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
اچھائی اور سچ کا پرچار کرنے والے بھی موجود ہیں لیکن ان کی تعداد کم
دکھائی دیتی ہے۔ ہمارا المیہ اور عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہر ایک کو
دوسروں کی برائیاں ڈبل ٹرپل ہو کے دکھائی دیتی ہیں لیکن اپنی کمزوریوں کی
طرف دھیان ہی کبھی نہیں گیا جیسے کہ دودھ کے دھلے ہوں۔ ہر مجلس اور مجمع
میں دوسروں پر بجا یا بے جاتنقید ہمارا مشغلہ ہے لیکن اپنی اصلاح کی طرف
توجہ نہیں۔ بہادر شاہ ظفر خاندان مغلیہ کے آخری بادشاہ تھے انہوں نے ایک
خوبصورت بات کہی تھی کہ
نہ تھی حال کے جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے لوگوں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو جہان میں کوئی برا نہ رہا
اصل میں معاملہ سارا دل کا ہی ہے جو ان تمام اعضاء کا بادشاہ ہے۔ باقی تمام
کے تمام اجزائے بدن اس کے ترجمان ہیں۔ اگر دل صاف اور شفاف ہو تو زبان بھی
سچ بولے گی، کان حسن سماعت کا مرقع بن جائیں گے اوردماغ کی سوچ بھی صحیح
سمت اپنا لے گی۔ لیکن اس کا بگاڑ تباہی اور بربادی کا موجب ہوتا ہے۔ عجب
بات یہ کہ اپنے قلب و باطن کے اصلاح و بگاڑ کا صحیح اندازہ بھی ہم خود ہی
لگا سکتے ہیں نہ کہ کوئی دوسرا۔
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارے وجود میں گوشت کا ایک
ایسا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ درست ہو جائے تو تو پورے وجود کا نظام صحیح ہو جا
تا ہے اور اگر وہ بگاڑ کا شکار ہو جائے تو پورے وجود انسانی میں بگاڑ آجا
تا ہے۔ اور وہ گوشت کا لوتھڑا تمہارا دل ہے“
دل میں جب اخروی جوابدہی کی فکر ہو تو اعمال و اخلاق کی اصلاح کا عمل
برقرار رہتا ہے اور اگر یہ محو ہوجائے یا مدہم پڑ جائے تو غفلت، سستی، بے
عملی اور بد عملی کی طرف رجحان بڑھ جا تا ہے۔ بسا اوقات اس کے بھیانک نتائج
برآمد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان کو شعوری قوتوں سے نوازا ہے۔
ان کو بروئے کارلاکر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا ہر فرد کی اپنی ذمہ داری
ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج بھی ہیں اور
معالج بھی۔ اسی طرح روحانی اور قلبی بیماریاں بھی اصلاح طلب ہوتی ہیں اور
ان کی اصلاح کی حقیقی ذمہ داری انبیاؑء و رسل ؑکے ذمے رہی ہے اور اب وہی
بندگان خدا یہ عظیم کام سانجام دے سکتے ہیں جو قلب و باطن کی روشنی رکھتے
ہوں، عقائد اسلامیہ پر کاربند اور حقیقی معنوں میں متبع رسولﷺ ہوں۔ دنیا کی
زندگی جتنی بھی ہو ایک دن ختم ہی ہونی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو زندگی کے
ا ن قیمتی لمحات کی قدر کرتے ہیں۔ فکر آخرت کے حوالے سے ایک صوفی بزرگ کا
کلام یقینا باعث اصلاح ہو گا جو فرماتے ہیں۔
کوئی بن گیا رونق پکھیاں دی، کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کوئی پلیا ناز تے نخریاں وچ، کوئی ریت گرم تے تھل چلیا
کوئی بھل گیا مقصد آون دا، کوئی کر کے مقصد حل چلیا
اتھے ہر کوئی فریدمسافر اے، کوئی اج چلیا کوئی کل چلیا
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اخلاقی برائیوں کا تجزیہ کیا جائے۔ ان کے اسباب و
عوارض کا کھوج لگایا جائے۔ اور پھر اصلاح احوال کیلئے مؤثر اقدامات کیے
جائیں۔نصاب تعلیم میں وہ مؤثر تبدیلیاں لائی جاہیں جو حسن اخلاق اور اعلیٰ
کردار سے آراستہ افراد تیار کرسکے۔ محراب و منبر اور مسند و سجادہ سے اٹھنے
والی آوازیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان آوازوں میں بھی خاصہ عنصر
اصلاحی مواد پر مبنی ہو تو یہ بھی ایک مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
حقیقی دوست وہ ہوتا ہے جو منہ پر مثبت تنقید کر کے اپنے دوست کی اصلاح کرے
اور اس کی عدم موجودگی میں اس کی خوبیاں بیان کرے۔ لیکن ہماریہاں اس حوالے
سے بھی گنگا الٹی بہ رہی ہے۔ بہر کیف اصلاح احوال کے لئے اپنی بساط کے
مطابق کاوشیں جاری رکھنا ہی روشن مستقبل کی امید دلا سکتا ہے۔
میرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں
سر دیوار لکھتا ہوں، پس دیوار کے قصے
|