جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے نتائج
کی اہم اور خاص بات یہ ہے کہ لوک سبھا کے انتخابات کے بعد یہ بی جے پی کی
کسی انتخاب میں پہلی بڑی ناکامی ہے جبکہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کا
’’مشن 44+‘‘ناکام رہا اور اپنے بل پر جموں و کشمیر میں حکومت بنانے اور
ریاست میں بی جے پی کا وزیر اعلیٰ (وہ بھی غیر مسلم) بنانے کا اس کا پرانا
خواب فی الحال چکنا چور ہوگیا ہے لیکن اگر عمر عبداﷲ اور محبوبہ مفتی کی
ملی غیرت اقتدار کی بھوک و حرص کی نذر ہوجائے تو بی جے پی نہ صرف اقتدار
میں شریک ہوسکتی ہے بلکہ نصف مدت کے لئے بی جے پی کا وزیر اعلیٰ جموں و
کشمیر پر مسلط ہوسکتا ہے جو نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے لئے
ہی نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کا شرشرمناک المیہ ہوگا جس کے
لئے مفتی باپ بیٹی (مفتی سعید اور محبوبہ مفتی) اور عمر عبداﷲ کو معاف نہیں
کرے گی۔
جس وقت یہ سطور قلم بند کی جارہی ہیں نتائج کا اعلان ہونے صرف چند گھنٹے
ہوئے ہیں۔ نہ مختلف جماعتوں کا موقف واضح ہوا ہے اور نہ ہی وزارت سازی کے
سلسلے میں کوئی صورت حال واضح ہوئی ہے اندازوں، قیاست اور امکانات کا بازار
گرم ہے ویسے ٹی وی چینلز کی یہ عین خواہش واضح ہوچکی ہے کہ بی جے پی کسی
بھی طرح اقتدار میں شریک ہوجائے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پی ڈی پی کے بعض
قائدین ٹی وی چینلز پر اس قسم کے اشارے دے رہے ہیں کہ جیسے پی ڈی پی ، بی
جے پی کے ساتھ اقتدار میں ساجھے داری کرسکتی ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ تمام
قائدین جو بی جے پی سے اتحاد کی باتیں کرتے ہیں انہیں گزشتہ چند دنوں کی آر
ایس ایس اور بی جے پی بلکہ سنگھ پریوار کی حرکتیں ان کے بیانات وغیرہ اور
ان کے عزائم و ارادوں کے بارے میں سب کچھ ان قائدین کے علم میں ہوگا اس کے
باوجود بی جے پی سے اتحاد کی باتیں کرنے والے اقتدار کی خاطر پستی کی آخری
حدتک گرچکے ہیں؟ اسی طرح عمر عبداﷲ اور غلام نبی آزاد (جن کے مسلمان ہونے
سے تو ہم انکار نہیں کرسکتے ہیں لیکن ان کو مسلمانوں کا قائد نہیں مان سکتے
ہیں بلکہ وہ خود کو بھی مسلمانوں کے قائد نہیں کہتے ہیں اس لئے یہ کچھ بھی
کرسکتے ہیں ویسے کانگریس کا موقد ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی شرائط پر ہی
اقتدار میں شریک ہویا حکومت کیء باہر سے تائید کریں بلکہ کانگریس خود خاصی
حدتک مجبور ہے۔ گوکہ بی جے پی کو اس کی تمام 25 نشستیں صرف جموں میں ملی
ہیں وادی میں باوجود پانی کی طرح روپیہ خرچ کرنے پر بھی بی جے پی کو عوام
نے یکسر نظر انداز کیا ہے۔ وادی اور لداخ کی 50 نشستوں میں سے ایک بھی نشست
نہیں ملی ہے اور وادی میں بی جے پی کو گزشتہ مرتبہ کے مقابلے میں ووٹ کم
ملے ہیں۔ اس کو ایسے تمام حلقوں میں کامیابی ملی ہے جہاں رائے دہندگان کی
اکثریت ہندو یا سکھ ہے۔ جموں و کشمیر میں مودی لہر کی تو چل نہ پائی ہاں
فرقہ پرستی کا جادو کام کرگیا۔ سجاد لون جیسے موقع پرستوں کے سبب وادی میں
ترقی اچھی حکمرانی اور مہنگائی میں کمی، کرپشن کے خاتمے وغیرہ کی دھوکے کے
دلدل میں کچھ مسلمان ضرور پھنس گئے تھے۔
جو بھی بی جے پی سے اتحاد کرے گا کیا بی جے پی سے 1998اور 1999 ء کی طرح
سیکولر پارٹیوں کو دئیے گئے تیقنات حاصل کرسکے گا؟ جن میں اہم یہ تھے (۱)
مسلم پرسنل اور دفعہ 370 کی منسوخی اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی
تعمیر کے مسئلے نہیں اٹھائے جائیں گے اور ان کو این ڈی اے حکومت برف دان
میں رکھ دے گی۔ واجپائی حکومت ان مطالبات کو قبول کرنے پر مجبور تھی لیکن
اب بی جے پی کو ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے لیکن بی جے پی اقتدار کی خاطر کچھ
بھی کرسکتی ہے کسی بھی حدتک جاسکتی ہے اور کچھ بھی کرسکی ہے جس طرح 1998ء
میں سیکولر پارٹیوں نے بی جے پی سے اتحاد کرے کے خود کو مطعون اور اپنے
سیکولرازم کو مشکوک کرلیا تھا لیکن پھر بی وہ وقت اور تھا ملک میں سیکولر
پارٹیاں مضبوط تھیں ان کی کئی ریاستوں میں نہ صرف حکومت تھی بلکہ دبدبہ تھا
لیکن آج ہندتو کے علم برداروں کا اقتدار بھی ہے اور دبدبہ بھی ہے۔ آج آر
ایس ایس کے صدر موہن بھاگوت کھلے بندوں ہندتو کے ایجنڈے کو نہ صرف نافذ
کرنے بلکہ اس کو اعلان و سرکاری ٹی وی دور دورشن کی کئی چینلز سے کرتے ہیں
تب واجپائی وزیر اعظم تھے (جن کو خراب پارٹی کا اچھا آدمی کہا جاتا تھا)
اور اب وزیر اعظم مودی ہیں! مسلمانوں کے حوالے سے مودی کے بارے میں کچھ
کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان حالات میں اگر محبوبہ مفتی اور عمر عبداﷲ بی جے
پی کو شریک اقتدار کریں گے تو یہ سیکولر ازم ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے بھی
غداری ہوگی۔ جس پارٹی کو وادی کے تمام 46 حلقوں کے عوام نے مسترد کردیا ہو
اقتدار کی حرص و ہوس میں بی جے پی عمر عبداﷲ اور محبوبہ مفتی کو پرکشش بلکہ
للچانے والی پیشکش بھی کرسکتی ہے اب یہ ان دونوں کو تاریخی فیصلہ کرنا ہے
پی ڈی پی کے لئے بی جے پی کو ساتھ لے کر حکومت بنانا آسان ہے کیونکہ
(53)=(28+25) کے بعد مزید کسی جورکوڑکی ضرورت نہ ہوگی جبکہ عمر عبداﷲ کو
ساتھ لینے سے (45)=(17+25) سے حکومت بن سکتی ہے لیکن عمر عبداﷲ کے (17)
امیدواروں میں دو آزاد امیدوار شامل ہیں اوریہی جوڑ توڑ ہوگا۔ نیز نیشنل
کانفرنس و پی ٹی پی کا اتحاد محبوبہ مفتی کو پسند نہیں ہے ان کی اسی بات سے
گمان ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی سے اتحاد قبول کرسکتی ہیں۔ نیز ٹی وی چینلز پر
اور خود محبوبہ مفتی بی جے پی سے اتحاد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے
بی جے پی سے نظریاتی اختلاف کی بات کرتی ہیں تو دوسری طرف پی ڈی پی کے
ترجمان یہ بھی کہتے ہیں کہ بی جے پی ’’شجرممنوعہ‘‘ نہیں ہے۔ دوسری طرف تا
حال کانگریس یا نیشنل کانفرنس سے اتحاد سے محبوبہ مفتی کی عدم دلچسپی بھی
قابل غور ہے۔ یہاں یہ ذکر بے جانہ ہوگا کہ اگر جموں و کشمیر میں نیشنل
کانفرنس اور کانگریس مل کر الیکشن لڑتیں تو بی جے پی کا موقف موجودہ موقف
سے بھی کمزور ہوتا توپی ڈی پی بھی اتنی طاقتور نہ رہتی۔ جو ہونا تھا وہ
ہوچکا لیکن اب یہ باپ بیٹی پر منحصر ہے کہ وہ ’’زعفرانی عذاب‘‘ کو اپنے او
پر مسلط نہ کریں اور نہ صرف کشمیر بلکہ مسلم مفادات کو ملحوظ رکھیں اور خود
کو سجاد لون سے بدتر ثابت نہ کریں کیونکہ سجاد لون نے تو بی جے پی سے اتحاد
کو صرف پسند کیا تھا لیکن محبوبہ مفتی اگر بی جے پی سے اتحاد کریں تو اس
مذموم منصوبہ کو روبہ عمل لائیں گی۔
بی جے پی یا مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد عوامی فلاح و بہبود کا کوئی
قابل ذکر اور اہم کام نہیں کیا۔ مودی کی ساری توجہ ریاستوں کے انتخابات میں
کامیابی، بیرونی دورے اور صفائی ستھرائی اور لوگوں کے بینک کھاتوں تک محدود
رہی ہے۔ ہاں مودی حکومت ہندتو ایجنڈے پر عمل پیرا ضرور ہے ۔ وزارت تعلیم
میں ایسا نصاب تیار ہورہا ہے جس کو ہندتو کے چوکھٹے کے اندر رکھا جاسکے گا
مسلم دور حکومت کا ذکر نہ صرف کم ہوگا بلکہ اس کا ذکر یوں ہوگا جیسے آج
برطانوی دور کا ذکر ہم کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور
تمام غیر ہندوں کو 2021 ء تک ہندو بنانے کا بھی منصوبہ ہے۔ بی جے پی قائدین
کھلے ہندوں بھڑکاو اور اشتعال انیز بیانات دے رہے ہیں لیکن حکومت خاموش ہے
ملک کے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ سیکولر اور شریف غیر مسلموں کو بھی ملک کی
فرقہ وارانہ صورت حال پر تشویش ہے۔ قدامت پسندی اور احمقانہ قیاس آرائیوں
کا یہ حال ہے کہ ہزاروں سال قبل پلاسٹک سرجری، ہیلی کاپٹر اور ڈران طیاروں
کے ہندوستان میں وجود اور استعمال کا ذکر بے شرمی سے کیا جاتا ہے۔ اگر ایسی
پارٹی سے (جو مسلمانوں اور سیکولرازم کی دشمن ہے قدامت پرست اور دروغ گو ہے
جس کا وزیر اعظم مسلمانوں سے الگ تھلک رہتا ہے۔ ترقی خوش حالی اچھے دنوں کے
صرف سبز باغ دکھاتا ہے) اتحاد کہاں تک کسی بھی پارٹی کے لئے مناسب ہے؟ یہ
فیصلہ محبوبہ مفتی اور عمر عبداﷲ کو کرنا ہے اگر اقتدار کی خاطر ان کو
’’زعفرانی عذاب‘‘ کو جنت نظر کشمیر پر مسلط کرنا منظور ہے تو تاریخ ان کو
میر جعفر اور میر صادق سے بھی بڑا مجرم اور گناہ گار قرار دے گی اور خود ان
کا سب کچھ جلد ختم ہوجائے گا۔ |