خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کی برسی
کے حوالے سے خصوصی تحریر
طاہرہ زہرہ :کراچی
پروین شاکر اردو شاعری کا فخر ہیں۔ پروین شاکر وہ واحد شاعرہ ہیں ،جنہوں نے
اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کروایا۔پروین شاکر سے پہلے جتنی شاعری ہے
، وہ بلا شبہ لاجواب تخلیقات ہیں ،جی کی نظیر نہیں ملتی ، لیکن اس تمام ادب
میں نسوانی احساسات کی تر جمانی میں تشنگی نظر آتی ہے۔پروین شاکر نے اردو
شاعری کو نازک احساسات و جذبات کے آہنگ سے سجایا۔ایک نو عمر لڑکی کن
احساسات سے گزرتی ہے ، کس طرح رنگ،ستارے، خوشبوئیں، شامیں، ہوائیں، چاند اس
کو اپنے ہمراز لگنے لگتے ہیں ۔ ہر وقت اس کے اپنے اس کے پاس موجود رہتے ہیں۔
لیکن جب وہ بکھرتی ہے ، تو قلم اس کا غمگسار رفیق بن جاتا ہے،جو اس کی زیست
کے زخموں کوکا ترجمان بن جاتا ہے ۔
پروین شاکر نے حسن کو زبان دی۔اس نے ہر جگہ حسن کو درق کیا ، اس حسن کو
صفحہء قرطاس پر بکھیرا ،جو قاری کی روح کو بھی سیراب کر گیا۔لیکن جب پروین
شاکر ایک شکوہ کرتی ہوئی بھی نظر آتی جیسے
ُوہ قحطِ حسن ہے کہ سبھی خوش جمال لوگ
لگتا ہے کوہ قاف پر رہتے ہیں ان دنوں
پروین شاکر نے ہواؤں سے گلے بھی کیے ہیں مثلاــــ
بس کوئی چیز ہے کہ سلگتی ہے دل کے پاس
یہ آگ وہ نہیں ہے جسے نسبت ہوا سے ہے
ان کی شاعری کو پڑھ کر لگتا ہے کہ ہواؤں نے ان کو رلایا بھی ہے اور مسکرانے
کی وجہ بھی بنی ہیں۔کسی کے ملبوس کی خوشبو بھی ان تک پہنچائی ہے جس کو پا
کر اہیں بہت خوشی کا احساس ہوا ۔ ہواؤں نے ان کے زخموں پر خاک اڑائی ، جس
سے ان کے روح کے زخموں نے انہیں بہت اذیت دی ۔
انسانی زندگی بہت سے احساسات سے عبارت ہے ۔ان میں تنہائی بھی اہم ترین
احساس ہے۔تنہائی کی ابتدا انسانی خلقت سے ہوئی اور اس کا اختتام زندگی کی
آخری سانس تک نہیں ہوتا۔بلکہ لحد میں تنہائی تا قیامت ساتھ رہنے والی واحد
رفیق ہے۔پروین شاکر نے ان احساسات کو لفظوں کا جامعہ یوں پہنایا
ُتنہا ہے اگرازل سے انسان
یہ بزمِ کلام کیوں سجی تھی
خلت نہیں ہے ساتھ تو بخت بھی نہیں
کچھ دن یہی رہے گا اور تخت بھی نہیں
انسان جمال پرست واقع ہوا ہے ۔جب سے کائنات وجود میں آئی ہے ،حسن انسان کو
متاثر کرتا آیا ہے۔انسان کی جمالیاتی حس عالم ارواح میں بھی موجود تھی
،شاید اسی لیے جنت کو بنایا گیا ،تا کہ انسان کی جمالیاتی حس تسکین
پائے۔انسان جنت میں موجود تھا،پھر اپنے ازلی تجسس کی بنا پر شجر ممنوعہ کو
کھا کر زمین پر سزا کے طور پر پٹخ دیا گیا اور یہ سزا آج تک ہم بھگت رہے
ہیں۔اسلاف کی غلطی کی سزا ۔ پروین شاکر نے حسن کو زبان دی ۔ حسن ان کو
متاثر کرتا تھا ۔ کبھی اداس شاموں کا حسن، کبھی خزاں کی برستی بارشوں میں
تنہا ئیو ں کی وحشتوں کا حسن،کبی اپنوں کی بے اعتنائی،کبھی اپنوں کی بے لو
ث محبتو ں کا حسن،کبی چاند کا کبھی ستاورں کا حسن انہوں نے شاعری کے ذریعے
قاری کی تسکین کا سامان بنا ۔
ستاروں کے بارے میں پروین شاکر نے بے پناہ حسین تشبیہات و استعا رات کا
استعمال کیا ہے۔ ستاروں سے بے پناہ محبت کرنے والی پروین شاکر نے اپنے آنچل
کو ستاروں سے بھرنے کا خواب دیکھا تھا۔ مگر افسوس ! ستارے آنچل میں آئے کہ
نہیں مگر اتنا ضرور ہوا کہ زیست کی سفرمیں ان کے پاؤ ں آبلہ پا ہو گئے
۔پروین شاکر نے کہا تھا کہ زمین سے آسما ن تک سیڑھی ہو اور وہ اس پر چلتی
جائیں۔اور ان کا آنچل ستاروں سے جگمگا اٹھے ۔
پروین شاکر سول سروسز میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھیں۔ اس کے باوجود ان کی
شخصیت میں حلم اور عاجزی نمایاں تھی۔یہی خوبیاں ان کی شخصیت کو ہر دلعزیز
بناتی تھی۔وہ نہایت دھیمے لہجے میں بات کرتی تھیں۔ان کا شیریں انداز
،خوبصورت لہجہ ،ان کی شخصیت کو الوہی حسن دیتا تھا۔ ان کے لہجے کی خوبصورتی
اور ٹہراؤ ان کو اس دور کے شعراء میں مقبول بناتا ہے۔
پروین شاکر نے ان شاموں کا ذکر کیا ہے ،جو انسانی زندگی میں آتی ہیں ،یا تو
انسان کا دامن خوشیوں سے بھر دیتی ہیں یا پھر خالی پن کے ساتھ آتی ہیں کہ
انسان کے باطن کا خلاء پوری دنیا کی موجودگی بھی پورا نہیں کر سکتی ۔ایسی
ہی خلاء پرور شامیں پروین شاکر کی زندگی میں آئی تھیں۔جن کا کرب انہوں نے
اپنی شاعری میں سمویا ہے ۔
پاکستانی معاشرے میں بچوں پر ظلم کی عکاسی بھی پروین شاکر کے حساس قلم نے
کی ہے۔ وہ عمر جس میں بچے سکول جاتے ہیں، اس عمر کے بچوں کو جب وہ اخبار
بیچتاہوا دیکھتی ہیں تو تڑپ اٹھتی ہیں۔وہ اہل قلم تھیں ،وہ قلم کی حرمت کو
جانتی تھیں۔ وہ ارض پاک کے بچوں ے ہاتھ میں قلم دیکھنا چاہتی تھیں۔وہ ارض
پاک کے پھولوں کو علم کی آبیاری سے مہکتا ہوا دیکھتا چاہتی تھیں۔
پروین شاکرایک نازک گڑیاجیسی ،خوبصورت لڑکی سے ایک بہادر خاتون کیسے
بنیں؟؟؟اس بننے کے عمل میں ان کی شخصیت کے کن پہلوؤں کو جلاء ملی ،اور کن
پہلوؤں کی نفی ہوئی ، یہ سب کچھ ان کے کلام سے عیاں ہے۔پروین شاکر کی اولین
شاعری میں ایک نو عمر لڑکی کے کومل جذبات،اور سوچوں کی عکاسی ہوتی
ہے۔مثلاََ لباس سے ہم رنگ میک اپ ، پسندیدہ خوشبو کا انتخاب، انتہائی دلکش
ملبوس ، اور بہت حسین لگنے کی خواہش اور کو شش ۔یہ تمام احساسات ان کی کتاب
خوشبو میں ملتے ہیں۔پروین شاکر کا علم اور حلم سے لگتا تھا کہ وہ انتہائی
تہذیب یافتہ خاندان کی باسی تھیں۔ان کے اخلاق سے تہذیبِ نفس کی خوبصورتیاں
جھلکتی تھیں۔وہ چپڑاسی سے لے کہ ایک افسر تک سب کے ساتھ نہایت اخلاق سے پیش
آتی تھیں۔
پروین شاکر کو مٹی کی خوشبو نہایت لبھاتی تھی ،اس سونی خوشبو کی وہ دیوانی
تھیں۔اسی لیے شاید وہ اسی مٹی کا حصہ جلد بن گئین ۔وہ مٹی جس کی خوشبو ان
کی روح میں بسی تھی اور ان کی شاعری میں سے محسو س کی جاتی ہے۔
شاعر اور ادیب ہمیشہ سے ہی دنیا سے ہٹ کر سو چتے ہیں ۔وہ اس آنکھ سے دنیا
کے روز و شب کو نہیں دیکھتے جس سے ہم دیکھتے ہیں۔ تخلیقار جب بھی سو چتا ہے
وہ اپنے جدا گانہ انداز فکر سے زمانے کی مخالفت مو لیتے ہیں ۔ شاید اسی لیے
پروین شاکر نے کہا ہے! ؑؑؑ ـــہے زمانہ خفا تو بجا ہے کہ میں !
اس کی مرضی کے منافی رہی
پروین شاکر۶۲ دسمبر کو ایک دھند آمیز صبح کو حادثے میں ہم سے بچھڑ گیں۔ ْ
|