نظمیہ شاعری کا آفتاب چندر بھان خیالؔ

چندر بھان خیال ؔکی نظمیہ شاعری اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اس ما بعد جدید یت سے نئے عہد کی تخلیقیت کے عالمی،قومی اور مقامی منظر نامہ میں غیر معمولی معنویت و اہمیت کی حامل ہے۔اِس ما بعد جدید دور میں چندر بھان خیالؔ ایک اہم شاعر ہیں۔ جنھوں نے اپنی نظمیہ شاعری کے ذریعہ اُردو ادب میں ہو رہی تبدیلی کی آہٹ کو محسوس کرایا۔ چندر بھان خیال ؔنے جب اپنے شعری سفر کا آغاز کیا تھا، اُس وقت ترقی پسندی کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جدیدیت دم توڑ رہی تھی۔ایسے حالات اور ماحول میں انھوں نے اپنا راستہ خود بنایااورترقی پسندی اور جدیدیت کے بندھے ٹکے نظریے سے انحراف کرتے ہوئے اپنی آزادئی فکر و نظر کے ذریعہ اپنی نظمیہ شاعری کی ابتدا کی۔ چندر بھان خیال ؔکی نظمیہ شاعری میں ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت کا عنصر غالب ہے۔اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنے ایک انٹر ویو میں معنی خیز اور فکر انگیزخیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بدلتی ہوئی ادبی فضا کا اثر سب پر ہے۔جس طرح جدیدیت نے نئے تو نئے،پُرانے ترقی پسندوں کو بھی بالواسطہ طور پر متاثر کیا تھا،اسی طرح میرا خیال ہے کہ اس وقت سینئر جدید شعرا بھی (جو ہنوز فعال ہیں) ما بعد جدید فکر کا اثر قبول کر رہے ہیں۔ بعد کی شاعری کا تو مزاج ہی الگ ہوتا چلا گیا۔ ادھر بیس برسوں میں شاعری کی دُنیا خاصی بدل گئی ہے۔ اب نرے اشکال پر زور نہیں۔ ابلاغ کی آڑ میں جس مہملیت اور غیر ضروری داخلیت پر توجہ تھی وہ بھی رد ہوتی چلی گئی ہے۔ اب نظر ترسیل پر اور قاری سے جڑنے کے عمل پر ہے۔ براہ راست انداز بیان کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا،البتہ ایمائیت اور رمزیت پر توجہ بڑھی ہے اور نئی شاعری ایک ایسی دھرتی اور کھلے آسمان کے نیچے آ گئی ہے جہاں اشیا یاس زدہ اور بجھی بجھی نہیں۔ ان لکھنے والوں میں صلاح الدین پرویز، عنبر بہرائچی،ستیہ پال آنند،لقمان شوق، ذی شان ساحل،نصیر احمد ناصر،علی احمد فرشی کو پڑھئے اور بیس برس پہلے کی شاعری کو پڑھئے،فرق صاف نظر آئے گا کہ پوری فضابدل گئی ہے۔فقط یہی لوگ نہیں،اور بھی بہت سے ہیں جہاں رویوں کا فرق نمایاں ہے۔ شین۔کاف۔نظام، شاہد کلیم، پرت پال سنگھ بیتاب،عبدالاحد ساز،رؤف خیر،چندر بھان خیالؔ، عزیز پریہار،جینت پرمار،حیدر قریشی،سلیم آغا قزلباش، ابرار احمد،شکیل اعظمی،سلیم انصاری اور بھی کئی ہیں۔ ان کی شاعری کو دیکھیں تو یکسر بدلا ہوا منظر نامہ سامنے آئے گا جو اجنبیت،بیگانگی،لایعنیت اور شکستِ ذات کے بیس تیس برس پُرانے ایجنڈے سے کوسوں دور نظر آئے گا۔ یہ شاعری نہ نری علامیّت کا شکار ہے نہ غیر ضروری ابہام زدگی کا، اس کا جہانِ معنی، اس کی شعریات بدلی ہوئی ہے۔‘‘
(جدیدیت کے بعد :ص۵۶۴)

چندر بھان خیالؔ کا پہلا شعری مجموعہ ’’شعلوں کا شجر‘‘ ۱۹۷۹؁ء،دوسرا شعری مجموعہ’’گمشدہ آدمی کا انتظار‘‘ ۱۹۹۷؁ء،’تیسرا شعری مجموعہ’’لولاک‘‘ ۲۰۰۲؁ء اور چوتھا شعری مجموعہ ’’صبح مشرق کی اذاں‘‘ ۲۰۰۸؁ ء میں شائع ہو کر منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔چندر بھان خیالؔ کی نظمیہ شاعری نئے عہد کی نِت نئی اضافی تخلیقیت، نِت نئی اضافی معنویت اور نِت نئی اضافی فنّیت سے مملو و روشن ہے۔ انھوں نے عام روش سے ہٹ کر شاعری کی ہے۔ اُن کی ابتدائی دور کی نظمیہ شاعری میں باغیانہ،انقلابی، احتجاجی اور جنسی پہلو جا بجا نظر آتے ہیں مگر اُن کی شاعری کا وہ رنگ و آہنگ نظر نہیں آتا ہے جو اُس دور کے شعرا کے یہاں ملتاہے۔ وہ ہنگامہ نہیں کرتے ہیں،نہ شور مچاتے ہیں اور نہ ہی وہ نعرہ لگاتے ہیں بلکہ نرم و نازک لہجہ اور سادہ و سلیس زبان کا استعمال بڑے ہی فنّی بصیرت کے ساتھ کیا ہے۔ جس سے نظمیہ اُن کی شاعری میں انفرادیت صاف طور پر دکھائی دیتی ہے ۔مشہور و معروف ادیب و شاعرکُمار پاشی نے چندر بھان خیالؔ کی نظمیہ شاعری کے ضمن میں اپنے عالمانہ خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’صاف لگتا ہے کہ خیالؔ جلوس میں قدم سے قدم ملا کر چلنے کے عادی نہیں ہیں۔ انھیں تنہا چلنا زیادہ عزیز ہے لیکن ان کے بارے میں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ انھوں نے بنے بنائے راستوں سے الگ اپنے لیے کوئی مخصوص راہ دریافت کر لی ہے۔ ظاہر ہے اُس کے لیے ایک طویل مدّت کی تخلیقی ریاضت درکار ہے لیکن جس لگن کے سارھ انھوں نے اپنا شعری سفر شروع کیا ہے وہ لگن بھی کم لوگوں کو میسّر آتی ہے۔‘‘
(شعلوں کا شجر : ص ۱۲)

چندر بھان خیال ؔ کی ابتدائی دور کی نظموں میں’’ تنہا شجر‘‘، ’’شہر اور میں‘‘،’’نئی روشنی نئے خواب‘‘، ’’سمندر کا سکوت‘‘، گناہوں کے ٹیلے پر‘‘، ’’نیوٹر ن کا داخلہ‘‘،’’ایک دن کی زندگی‘‘، ’’اور وہ آج بھی‘‘،’’صدمہ‘‘،’’ اندھے چاند کی پیدائش‘‘،’’ پھیلی جو صبح‘‘،’’ خاموشی کا درد‘‘،’’وقت کی آنکھیں‘‘،’’ شہرِ تاریک‘‘، ’’عذاب در عذاب‘‘،’’اب نہیں تم تو‘‘،’’جسم کے صحراؤں میں‘‘ ،’’جسم کی جوالا‘‘،’’بتّیاں گُل نہ کرو‘‘،’’اگر قریب سے دیکھو‘‘،’’آنچ کا بستر‘‘،’’قطرہ قطرہ احساس‘‘،’’آج پھر درد اُٹھا‘‘،’’ڈریگن کے پروں میں‘‘،’’کوششِ رائگاں‘‘،’’شکستِ ساز تمنّا‘‘، ’’آوارہ گرد لمحے‘‘،’’خواہشوں کے آس پاس‘‘،’’شورِشبستاں‘‘،’’نیند کے تعاقب میں‘‘، ’’فرار‘‘، ’’مداوا‘‘ اور ’’مستقبل‘‘ قابلِ ذکر و فکر ہیں۔ جس میں اُن کی ذہنیت اور فنّیت منوّر ،مملو و روشن ہے۔اُن کی نظم’’ نیوٹرون کا داخلہ‘‘ ایک کامیاب ترین نظم ہے۔اس نظم میں نیوٹرون کے زلزلہ پیماں کی تصویر اورتبدیلی کی آہٹ کو خیا ل ؔ نے محسوس کیا ہے اور اپنے خیا لات،تجربات،مشاہدات اور محسوسات کو انھوں نے نظمیہ اشعار کے پیکر میں ڈھال کر بہت ہی فنّی حسن و جمال کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جس میں ما بعد جدیدیت کا عنصرخاص طور پر نمایاں نظر آتا ہے اور جس سے چندر بھان خیالؔ کی شعری انفرادیت کی معنویت و اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتاہے۔’’نیوٹرون کا داخلہ‘‘ کے چند نظمیہ اشعار خاطر نشیں ہو:
آسماں بے خواب تاروں کی نگاہیں نیم خواب
بستیاں احساس کی بیدار لیکن پُر عذاب
رات کی اُکھڑی ہوئی سانسوں سے اُٹھتا دھواں
یہ دھواں جو پھیل کر نیوٹرون بنتا جائے گا

اور تہذیبیں نکل جاتی ہیں جنگل کی طرف
دیکھتی ہے زندگی یوں اپنے آنچل کی طرف
ریگزاروں میں کسی سوکھی ندی کو جس طرح
پیاس کی ماری ہوئی ہرنی نہارے دم بہ دم

خاک ہو جاتے ہیں فن اور علم کے سارے بھرم
عقل کی دیوی طوائف بن کے جب رکھے قدم
چاٹتا ہے خون اپنی ہی رگوں کا ہر وہ ذہن
شاطرانہ آگ کی گرمی جسے راس آ گئی

ہاتھ میں نیوٹرون بم لے کے سرِ بازار
گر ہلاکو کی طرح بن گئے خونخوار ہم
شہرِ مستقبل بھیانک غار میں چھُپ جائے گا
اور زمیں کے سب نظارے بے کشش ہو جائیں گے

مندروں میں گھنٹیاں اور مسجدوں میں جا نماز
بھاگتے لمحوں سے پوچھیں گے زباں بندی کا راز
پھر نہ تقریریں نہ تحریریں نہ تقدیریں کہیں
صرف خاموشی کے منظر اور جمودِ جاں گسل

اکیسویں صدی کے اس ما بعد جدید دور میں چندر بھان خیالؔ کی نظمیہ شاعری میں ہمیں مابعد جدیدیت سے نئے عہدکی تخلیقیت تک کا فنّی اسلوب نظر آتا ہے۔ اُن کے شعری آئینہ خانے میں ہمیں تیزی سے بدلتا ہوا شعری و ادبی تخلیقیت افروز منظر نامہ،عالمی،قومی اور مقامی علاقائی تہذیب و ثقافت کا شدید احساس، جاگیردارانہ عہد کے وضع کردہ ادبی اور جمالیاتی پیمانوں سے انکار،ہندوستانی ثقافت کے مشترکہ عناصر و اقدار، غیر مثروط روحانیت،بے مرکزیت،تکثیریت،رنگا رنگی، بوقلمونی،کثیرالمعنویت اور حقیقی آزادئی فکر و نظر ملتی ہے۔چندر بھان خیالؔ کی نظمیہ شاعری کی اہمیت و افادیت کی بابت فکر انگیز ،فکر آلود اور معنی خیز خیالات کا اظہار نظام صدیقی اپنے مضمون ’’چندر بھان خیالؔ کا شاہنامۂ محمّد ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’لولاک چندر بھان خیال ؔکا نہ صرف شاہنامۂ محمّد ہے بلکہ وہ چندر بھان خیالؔ کی حقیقی انسانی شخصیت اور ارتفاعی فکر و فن کا جمالیاتی اور اقداری آئینہ کانہ بھی ہے۔’’لا آدمی‘‘ کی نقابوں کی دُنیا میں’’شعلوں کا شجر‘‘ چندر بھان خیالؔ کو اپنے بیکراں ذہنی،قلبی اور روحانی اضطراب کے باعث اس ’’گمشدہ آدمی کا انتظار‘‘ تھا جو آدمی انسان کی ارتفاعی،وجودی اور عرفانی منزل سے گزر کر از سرِ نو سچّا کھڑا آدمی ہو گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

چندر بھان خیالؔ کا شاہنامۂ محمّد ’’لولاک‘‘ مسعود نشاط آگہی،مسعود سعادت کُل اور مسعود انبساطِ جاں سے لبریز ہے۔ انھوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی حسیت،تخلیقی بصیرت اور الوہی اور قدسی عشق و آگہی کے شعری وظیفہ سے انسانی ذوق،ذہن اور شعور و آگہی کو حقیقی شستگی،قلبی و روحانی تہذیب، تطہیر اور تنویر عطا کی ہے۔ وہ دھرتی کے نمک ہیں،اُن کی حقیقی نمکینی(انسانیت) زندہ،تابندہ اور پائندہ ہے۔ اُن کا درخشندہ نام و کام سیلِ رواں پر انسانی دستخط کے مترادف نہیں ہے کہ ثبت بھی نہیں ہوتا اور یک ثانیہ میں مٹ جاتا ہے۔ یہ تو ابدیت کے صفحہ پر خدا کے دستخط کے مانند ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔‘‘
( لولاک نمبر’لمحے لمحے‘: ص۱۵۹ و ۱۷۰)

چندر بھان خیال کی طویل نظمیہ تخلیق’’لولاک‘‘ اُردو ادب کاایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ شاعر نے اس طویل اور مسلسل نظم میں سیرت کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی خاکہ پیش کرنے کی بھرپور طور پر کوشش کی ہے اور اُس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ اس طویل نظمیہ تخلیق میں چندر بھان خیال کی فکری گہرائی،گیرائی اور اونچائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اُن کی اس غیر معمولی نظمیہ شاعری میں ہمیں منفرد لب و لہجہ،منفرد رنگ و آہنگ،منفرد غور و فکر اور بے پناہ شدت ِحسیات و تصورات کی جھلک صاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اُن کی شاعری کا سب سے بڑا فنّی حسن و جمال یہ ہے کہ وہ کسی بندھے ٹکے نظرئے،رجحان اور فکر کے اسیر نہیں ہیں بلکہ وہ سوچتے ہوئے دماغ،دیکھتی ہوئی آنکھوں اور محسوس کرتے ہوئے دل سے اپنے وجدانی تجربات کو نہایت شاعرانہ انداز میں منکشف کرتے ہیں۔

چندر بھان خیال کی نظمیہ تخلیق ’’لولاک‘‘ اکیسویں صدی کے اس ما بعد جدیددور میں نئی تخلیقیت افروز وجودیاتی اور عرفانیاتی معنویت اور وقعت کی امین ہے۔اس میں حضرت محمدمصطفی ﷺکی حیات مبارکہ کے اہم سوانحی،تواریخی،اخلاقی اور روحانی حقائق کا بیان شاعر نے نہایت ہی والہانہ محسوسات و تصورات کے ساتھ نِت نئے اور انوکھے نظمیہ پیرائے میں بڑے ہی فنّی لطافتوں کے ساتھ ادا کیا ہے۔جس میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شخصیت ،فکری اور پیغام کی روح کو بھرپور طریقے سے شاعر نے منکشف کیا ہے۔اس نظمیہ تخلیق کو شاعر نے چھ حصّوں میں منقسم کیا ہے۔نظم کی ابتدا رسول اﷲ کی ولادت با سعادت سے قبل کے واقعات و حالات سے ہوتی ہے۔ بعد ازاں ولادت،نبوت،ہجرت،جہاد اور نصرت کا بیان نِت نئے اور انوکھے نظمیہ رنگ و آہنگ میں بڑے ہی پُر کیف اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔حضرت محمد مصطفی ﷺ کے جہاد کا مقصدعہدِ حاضر کے جہاد سے نہیں ہے۔ جہاد کے جس مفہوم کو آج کے اس دور میں بیان کیاجاتا ہے وہ بے معنی، بے بُنیاد ،غلط اور نئی نسل کے لوگوں کے لئے گمراہ کُن ہے۔نبی کا جہاد اقوام کی فلاح اور بہبود کے لیے تھا۔ جس پر عمل کرکے انسان برائیوں سے پاک اور ایک بہتر انسان بن سکتا ہے۔ جہاد کا مقصد نفرت اور برائیوں کو دور کرنا اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے ہوتا ہے۔ رسول کے جہاد کا مقصد پوری کائنات میں امن و امان، دوستی،محبت،اخوت،انصاف،کردار و اعمال کی تابانی اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دینا تھا تاکہ پوی کائنات میں قوم دین و ایمان کے راستے پر چلے اور انسانیت کا پرچم لہرا سکے۔ چندر بھان خیال نے حضرت محمد مصطفی ﷺکے جہاد کے مقصد کو بڑی وضاحت کے ساتھ نظمیہ پیکر میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں’’لولاک‘‘ کے نظمیہ اشعار جہاد کے حوالے سے خاطر نشیں ہو:
صحبتوں کے اجالے راس نہیں ظلمت کو کسی بھی صورت میں
تاریک شبوں کو ملتا ہے آرام جنوں کی صحبت میں
زنداں کی نحوست میں لپٹا ہر فتنہ اُبھرنے کی خاطر
پُر امن فضا کے چہرے پر الزام اُگلنے لگتا ہے

بیمار بدن سنّاٹے میں شیطان اُچھلنے لگتا ہے
نیکی کو جلانے کی دھن میں خود آگ پہ چلنے لگتا ہے
زہر یلا دُھواں منظر منظر اُٹھ اُٹھ کے تھرکتا ہے اور پھر
احساس ستانے لگتا ہے باطل کو شکستہ پائی کا

دہشت کو جسے ایماں کی طرح کچھ لوگ سروں پر دھرتے ہیں
انجام سے بے پروا ہو کر دم اوجِ انا کا بھرتے ہیں
تخلیق کے روشن محلوں میں وحشت کا دھواں بھر دیتی ہے
آدابِ عمل سے نا واقف افراد کی یہ دہشت گردی

اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے باطل کی مکمّل پسپائی
گمراہ بشر کی راہبری،حق راہ کی ہمّت افزائی
بے دین کی دہشت گردی سے اُکتائے ہوئے دیں داروں کو
امن اور اماں کے سائے میں تبلیغ و سفر کی آزادی

اﷲ کی دھرتی پر سب کو جینے کے ہُنر کو آزادی
انسان کو ظاہر و باطن میں پروازِ نظر کی آزادی
زندانِ جہالت مین سمٹے اذہان کو آنکھوں کی نعمت
اور وقت کے جامد صحرا کو تحریکِ حقیقت مل جائے

اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے توحید کو رفعت مل جائے
بے ہودا رواجوں کی حامل آواز کو عبرت مل جائے
صحبوں کا مقدس اُجلا پن،شاموں کی مبارک شوخ ادا
بیمار عقیدوں کی زد سے محفوظ رہے موسم موسم

اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے انصاف کے گیسو لہرائیں
ہر فرد کی سانسوں کو رب کے پیغام خوشی سے مہکائیں
تفریق و تنفّر کی لعنت اور بارِ مظالم دنیا کو
اب اور نہ بانٹ کے رکھ پائے سود اور زیاں کے خانوں میں

اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے کردار و عمل کی تابانی
حکمت کو راحت کا ساماں، پسماندہ گروہوں کو وقعت
محتاج کو راحت کا ساماں، پسماندہ گروہوں کو وقعت
طاقت کے نشے میں ڈوبے سبھی سلطانوں کو عبرت حاصل ہو

اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے اسلام کی ہلچل بڑھ جائے
وحدت کے اُجالے میں ہر سو ایّام کی ہلچل بڑھ جائے
مغرور تجارت پیشہ کی منحوس سیاست سے عاجز
معصوم و ملائم لوگوں کو چھٹکارا ملے وحشی پن سے

’’لولاک‘‘ کے آخری حصّے میں شاعر نے رسول کے انسانیت کے پیغام کو اپنے فکر ی شعور وو آگہی کی روشنی میں بڑے ہی فنّی لطائف کے ساتھ نظم کیا ہے۔رسول نے امن و آشتی کا روح افزا اور بر تراعلیٰ پیغام عوام کو دیا تھا۔ رسول کا آخری پیغام پوری کائنات کے لیے معنی خیزاور فکر انگیز ہے۔ جہاں ایک طرف کفار مکّہ کے قتلِ عام کا حکم صادر ہوتا ہے تو دوسری طرف حضور عوام کو اپنا پُر مغز اور معنی خیز پیغام دیتے ہیں کہ بزرگوں کو نہ مارو، بچّوں کو نہ مارو،عورتوں کو نہ مارو، جو تمہیں دیکھ کر گھر کا دروازہ بند کر لیں تم اُن سے نظر یں بچا لو۔چندر بھان خیالؔ نے نبیؐ کے انسانیت اور امن و آشتی کے پیغام کو بڑے ہی فکر انگیز اور پُر اثر انداز میں نظمیہ رنگ و آہنگ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں ’لولاک‘‘ کے نظمیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
رہو گے دین کے پابند دُنیا میں تو دیکھو گے
ریا کاری، فریب و مکر سے تم دور ہو کوسوں
جہاں میں صرف راہِ راست پر جاری سفر رکھنا
مری ہربات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا

سبھی اولادِ آدم ہیں، سبھی کا حق بھی یکساں ہے
کسی بھائی سے اس کا مال جبراً چھین مت لینا
کُشادہ دامنِ دل، صاف اور ستھری نظر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا

نہ گمراہی کی زد میں آ کے حق سے دور ہو جانا
نہ باہم قتل و خوں کی وارداتوں میں الجھنا تم
صداقت کا اُجالا ساتھ اپنے عمر بھر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا

یہ قرآں روشنی ہے راہ میں انسان کی، سن لو
اسی قرآں میں موجود حل سارے مسائل کا
کلامِ پاک کو ہر حال میں تم معتبر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا

میں انساں ہوں مجھے بھی ایک دن دُنیا سے جانا ہے
خُدا سے وصل ہی انسان کا اصلی ٹھکانا ہے
مری سنّت کا مقصد آگہی کی رہنمائی اور
تمہاری زندگی کی راہ کو آساں بنانا ہے

نبی کوئی نہ میرے بعد اب آئے گا دُنیا میں
بڑھے جانا کتاب اور میری سنّت کے سہارے تم
جدھر اﷲ کی مرضی قدم اپنا اُدھر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا

چندر بھان خیال نے اُردو ادب میں بے شمار نظمیں تخلیق کی ہیں ۔’’ آہ بھوپال‘‘ ،’’نذرِ آتش ‘‘،’’سیاستوں کی حقیقت ‘‘،’’دیکھو تم پچھتاؤگے‘‘ ،’’برے دن آئے‘‘،’’کل نہ جانے کیا ہوگا‘‘،’’کل ملاکر موت کا انتظار‘‘،’’سردیوں کی دھوپ میں‘‘،’’اُس کے شہر میں‘‘،’’میٹھی موت کا رقص‘‘،’’تپتی دوپہر جنگل کی‘‘،’’وجود سے لپٹا ہوا سانپ‘‘،’’وقت آپس میں الجھنے کا نہیں‘‘،’’جنگ‘‘،’’گمشدہ آدمی کا انتظار‘‘،’’صبح ِ مشرق کی اذاں‘‘،’’نئی صبح‘‘،’’طغیانی‘‘،’’تیسری دُنیا کا درد‘‘،’’پھر خاموشی کیسی‘‘،’’شہر میں‘‘،تماشا‘‘،’’سازش ‘‘،’’المیہ‘‘ او ر ’’ دھماکہ‘‘ وغیرہ اُن کی کامیاب ترین نظمیں ہیں۔جس میں زندگی ہے موت نہیں ہے۔انھوں نے اپنے آس پاس کے ماحول اور زندگی کی تلخ حقیقتوں اور سچّائیوں سے آنکھیں نہیں چرائی ہیں بلکہ انھوں نے اپنی فکری اور فنّی شعور و آگہی کی روشنی سے اُس کو موتی کی لڑیوں میں پروکراپنی نظمیہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔دسمبر ۱۹۸۴ء کے گیس المیہ سے متاثر ہو کر چندر بھان خیال نے نظم ’’آہ ! بھوپال‘‘ کی تخلیق کی۔اس نظم کے چند بند خاطر نشان ہو :
شہر بھوپال میں جس طرح قیامت آئی
بڑھ گیا اور بھی احساس شکستہ پائی
تجربہ ہے کہ حلاوت کی تمناؤں میں ہم
جو بھی ہاتھ آئے اسے زہر بنا لیتے ہیں

جس نے بچّوں کے سہاروں کا گلا گھونٹ دیا
سیکڑوں چاند ستاروں کا گلا گھونٹ دیا
اب تو معماروں سے مایوس ہوا جاتا ہے
لاش در لاش بھٹکتا ہوا مستقبل

جو محافظ ہے حقیقت میں ہے وہ قاتل بھی
یہ بیاں ہو تو لرزتا ہے قلم کا دل بھی
ایسی تہذیب سے جنگل ہی بھلے ہیں کہ جہاں
اصل چہروں میں درندوں سے ملاقات رہے

چندر بھان خیال ؔایک حسّاس دل کے مالک ہیں۔ جن کے سینے میں دل ہے اور اس دل میں ماں کی میٹھی میٹھی لوریاں، گاؤں کے چھوٹنے کا درد، اپنوں سے بچھڑنے کا غم اور گاؤں کی سوندھی سوندھی مٹّی کی خوشبوموجود ہے۔ جس سے اُن کی نظمیہ شاعری کا رنگ دوبالا ہو گیا ہے ۔ انھوں نے بڑے ہی فنّی حسن و جمال کے ساتھ شعری پیکر میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس ضمن میں اُن کی مشہورِ زمانہ نظم ’’گاؤں کیا چھوٹا ہمارا․․․․․․․‘‘ کے چند بند پیش کئے جا سکتے ہیں:
شکل آئینے میں دیکھی اور خود سے ڈر گئے
اشک آنکھوں میں نہ جانے کیوں اچانک بھر گئے
سیکڑوں صدمے دلوں پر چوٹ لاکھوں کر گئے
گاؤں کیا چھوٹا ہمارا، ہم تو یارو مر گئے

جی رہے ہیں تنگ و تیرہ راہ پر چلتے ہوئے
چند سوکھی روٹیوں کی آس پر پلتے ہوئے
اور مہنگی موٹروں کو دیکھ کر جلتے ہوئے
گاؤں کیا چھوٹا ہمارا ہم تو یارو مر گئے

یاد آتی ہیں ہمیں وہ میٹھی میٹھی لوریا
وہ کسانوں کی کنواری بیٹیاں، وہ گوریاں
سیٹھ کے باغوں سے کچّے سنتروں کی چوریاں
گاؤں کیا چھوٹا ہمارا، ہم تو یارو مر گئے

چندر بھان خیال ؔ کی ذاتی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اُن کی ذاتی زندگی ہولناک درد وغم کے آنسوؤں سے لبریز ہے۔ دِل میں اتنے زخم ہیں کہ بیان نہیں کئے جا سکتے ہیں لیکن اپنی نظمیہ شاعری کے ذریعہ زندگی میں ہونے والے واردات وحادثات ،دِل کے درد و کرب اور رنج و غم کوبڑے ہی ٖفنّیت اور حسنیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ چندر بھان خیالؔ کا سب سے بڑا وصف و کمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنی نظمیہ تخلیقیت کے ذریعہ قاری کو اپنے درد و غم اور رنج و الم میں شریک کرتے ہیں اور اُن کو اپنی زندگی کا حصّہ بناتے ہیں۔ چندر بھان خیالؔ کے والدین ۱۵ فروری ۲۰۰۲؁ء کو صبح رسوئی گیس کا سلنڈر گھر میں اچانک پھٹنے کی وجہ سے بہت بری طرح سے جھلس گئے اور اُسی دن شب کو بھوپال کے ایک نجی اسپتال میں اُن کی ۷۶ سالہ ماں کا انتقال ہو گیا اور اُسی کے چھ گھنٹے بعد ۸۲ سالہ والد اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے۔ہوشنگاباد کے پاس نرمدا ندی کے جنوبی ساحل اُن کے والدین کو ایک ساتھ چِتا پرلِٹا یا گیا اور اُن کے آخری رسوم ادا کیے گئے۔ اِس ہولناک منظر کو دیکھ کر چندر بھان خیال ؔکا دِ ل دردو غم کے عالم میں ڈوب گیا۔چندر بھان خیالؔ کو چِتاکی آگ دیتے وقت جو اشعار وارد ہوئے تھے ،اُس کو انھوں نے نظمیہ اشعار کے پیکرمیں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ نظم ’’ والدین کی چِتا کے آگے‘‘ سے چند اشعار خاطر نشیں ہو:
بڑا غمناک منظر ہے غروبِ آفتاب اے دل
لہو کا اک سمندر ہے یہ منظر پُر عذاب اے دل
ندی مغرب کی جانب جا رہی ہے سست قدموں سے
لہو کا یہ سمندر جس کی عبرت ناک منزل ہے

اداسی امرکنٹک سے اتری نرمدا دیکھو
بجائے نوحہ خوانی ہو گئی ہے بے نوا دیکھو
چِتا کی آگ کے آگے کھڑا میں موم سا پگھلوں
مرے آگے پگھلتا ہے کئی یادوں کا وندھیاچل

مجھے معلوم ہے کیا کیا گزرتی ہے غریبوں پر
زمانہ ظلم کیسے توڑتا ہے بد نصیبوں پر
مگر اب کیوں بتاؤں میں چتا کی آگ کے آگے
مجھے بس یاد ہے اک بات وہ جو ماں بتاتی تھی

میری ماں روز ہی اک وقت جب چولہا جلاتی تھی
سلگتی آگ چولہے کی دکھا کر مسکراتی تھی
یہی وہ آگ جس نے ہم سبھی کو زندگی دی ہے
یہی وہ آگ ہے جو ایک دن ہم کو مٹا دے گی

جہنّم اور جنّت کے نظارے بھی دکھاتی ہے
محبّت اور نفرت کی گزر گاہوں پہ لاتی ہے
یہاں آغاز تا انجام کھیل اس آگ ہی کا ہے
یہی چولہے کی آگ اب لے کے آئی ہے یہاں ماں کو

نہ جانے کس گپھا میں لے کے جائے گا دھواں ماں کو
وہ میرا زخم خوردہ باپ ڈھونڈھے گا کہاں ماں کو
ندی کے اُتّری ساحل پہ مندر کے دیے روشن
سرکتے صاف پانی کے لبوں پہ جھلملا اُٹھّے

چندر بھان خیالؔنے ہندوستانی دیو مالا اور اساطیر سے اپنی نظمیہ شاعری کی داخلی فضا کی راہ ہموار کرنے کی کامیاب ترین کوشش کی ہے۔ جس سے اُن کی شاعری میں روحانیات عرفانیات،قُدسیات اور الوہیات کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔’’پریت پوجا‘‘،’’سازش،بھیڑ اور پتھر‘‘،’’کہاں جائے گا‘‘،’’تیسری دُنیا کا درد‘‘،’’جنگل کی پیاسی دُنیامیں‘‘،’’قربان گاہ‘‘،’’تپش اور لو کے موسم میں‘‘،’’شہرزادہ‘‘،’’پیاسا جنگل‘‘،’’اس کی انگیا کا ناگ پاش‘‘اور’’بھگوان رام‘‘وغیرہ نظمیں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔جس میں دیوتا، مندر، پجاری،سمادھی،سادھو،شنکھ، دھوجا،دھوپ،نریل، پشاچ، نشاچر،اپسرا،راکشس،ناگ،اجگر اور وش دھر جیسے الفاظ کا استعمال کرکے اپنی نظمیہ شاعری کی داخلی فضا میں جادوئی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔چندر بھان خیال کی نظم’’تپش اور لُو کے موسم میں‘‘سے نظمیہ اشعار ملاحظہ ہو:
کسی اجگر کے ٹھنڈے پیٹ میں گھسنے کی خواہش بھی
انوکھا رنگ لاتی ہے
کہ بس گھوڑوں کی ٹاپوں کی صدا ئیں ہی کچل جائیں
سراپا ناز کے مغرور میناروں کو پل بھر میں
لچک اور ایک پتھر میں
کہاں سے آ گئی یہ جان لینا بھی ضروری ہے
مگر یہ جان لیوا ہے
چھتوں پر بیٹھ کر کچھ منتر پڑھتا لُو بھرا موسم
کسی سادھو کی دھونی کی طرح شعلہ فگن ہوگا
سمادھی میں مگن ہوگا
کہیں اُجڑا ہوا مندر
پُرانے موسموں کی عظمتوں کی زرد لاشوں کو
اکٹھّا کر رہا ہوگا
کسی دن جنگ سے لوٹیں گے سارے دیوتا آخر
سمندر بھی اگل دے گا حلاوت اپنے باطن سے
یہ لاشیں جی اُٹھیں گی پھر
نشانِ زندگی بن جائے گی
ہر اک نئی کونپل

چندربھان خیال ؔ ہندوستان کی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کے امین ہیں۔ وہ فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں قومی یکجہتی، یگانگت،اخوت، دوستی ،امن و آشتی اوربھائی چارہ قائم رہے ۔ فرقہ واریت کی اُن کے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اپنی نظمیہ شاعری کے ذریعہ فرقہ پرستی کو وہ جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔’’زبان کھولو ذرا سنبھل کر‘‘،’’یہ نندی گرام․․․․․ہائے رام‘‘ اور ’’ہاں! وے مسلمان ہیں‘‘ وغیرہ نظمیں ردّ عمل کے طور پر خیال ؔ نے تخلیق کی ہے۔اِن نظموں میں شاعر نے فرقہ پرست طاقتوں کو قرارا جواب دیا ہے۔ چاہے وہ سیاست داں ہو یا ادیب۔ وہ حقیقت اور سچّائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ہیں اور نہ اپنے سر کو جھکاتے ہیں بلکہ وہ ڈٹ کر اُس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز سے نظم کے پیرائے میں ہندوستان کی قدیم تاریخ اورانسانیت کے پیغام کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ’’ہاں! وے مسلمان ہیں‘‘ نظم کوچندر بھان خیال ؔ نے ہندی شاعر دیوی پرشادمشر کی نظم ’’مسلمان ‘‘ کے ردّ عمل کے طور پر تخلیق کی ہے۔ ’’ہاں! وے مسلمان ہیں‘‘ کے نظمیہ اشعار خاطر نشان ہیں:
ہاں! وے مسلمان تھے
ٹھیک کہتے ہو
وہ آسمان سے نہیں اُترے تھے
لیکن آسمانی دھوپ لے کر آئے تھے
وے مساوات، مساوات چلاتے آئے تھے
وے یقیناً یہیں کہیں دور سے آئے تھے
اور آریوں کی طرح آئے تھے
فرق بس اتنا تھا
آریوں نے کھدیڑا تھا اناریوں کو
وندھیاچل کے اس پار تک
جو بچے رہ گئے تھے وہ سیوک بنائے گئے
یعنی بھنگی،چمار،نائی،دھوبی وغیرہ وغیرہ
لیکن وے مسلمان تھے
اہلِ قران تھے․․․․․․․․․․․․․․․․․
مسلمان نہ ہوتے تو
قبیلوں،ورنوں،طبقوں اور جاتیوں کے
جنگل میں
تنفر کی آگ لگی ہوتی
جنگل جل چکا ہوتا
پھر آرکشن کی دھوپ میں کیسے سینکتے
آرکشن کاورودھ کون کرتا
جمہوریت کی مینا کہاں چہچہاتی
سمتا، سنتولن،سماج سُدھار شبدکوش میں دھرے رہتے
اینٹ پتھر کی عمارت کوئی بھی بنا سکتا ہے
شہر بستے ہی رہتے ہیں
وے نہ ہوتے تو بہت کچھ نہ ہوتا
وے ہیں تو دقّت کیا ہے؟
وے مسلمان ہیں․․․․․․․․․․․․․․․
ہاں! وے مسلمان ہیں
دو سو برس سے زیادہ انگریزوں سے لڑتے رہے
انھوں نے پاکستان بنایا
وے پاکستان کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے
وے مسلمان ہیں
ان کے پُرکھوں کی ہڈیاں یہیں دفن ہیں
وے کہیں سے نہیں آئے
وے کہیں نہیں گئے․․․․․․․․․․․․․․․․․․
وے کہیں نہیں جائیں گے
وے پاکستان سمیت پھر آئیں گے
کیوں کہ وے مسلمان ہیں
وے اہلِ ہندوستان ہیں

خیالؔ نے ہندوستان کے سیاسی اور ادبی شخصیات کے علاوہ صوفیائے کرام پر بھی بے شمار نظمیں تخلیق کی ہیں۔ انھوں نے اپنی نظمیہ شاعری کے ذریعہ اُن کے جاہ و جلال، اُن کی عظمت اور شخصیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’ہم نہرو کی سنتان‘‘،’’ایک نامِ معتبر---اندرا گاندھی‘‘،’’سرتاجِ شہیداں‘‘،’’دیش کی طاقت ---اندرا گاندھی‘‘،’’داغِ فراقؔ‘‘،’’امن کی دیوی کا قتل‘‘،’’قتل پھر گاندھی ہوا‘‘،’’اُداس لمحوں کا شاداب شاعر‘‘،’’غریب نواز خواجہ اجمیری․․․‘‘،’’میاں نواز شریف کے نام‘‘، ’’اُستاد ذوق ؔ کے مزار پر‘‘،’’نظم۔۔ ۔مخمورسعیدی کے لیے‘‘،’’نیک دل انسان‘‘،’’ایک نظم کمار پاشی کی یاد میں‘‘اور ’’اُردو اور گوپی چند نارنگ‘‘وغیرہ چندر بھان خیال ؔکی اہم اور کامیاب ترین نظمیں ہیں۔ ’’اُردو اور گوپی چند نارنگ‘‘ نطم میں چندر بھان خیال ؔنے اپنے دلی جذبات ،احساسات و تجربات اور مشاہدات کو بہت ہی فنّی حسن و جمال اور فنّی لطائف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ادیب، ناقد، محقق و دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کو صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے پدم بھوشن کا خطاب دیے جانے اور اُن کے ۷۴ویں یوم پیدائش کے مبارک موقع پر انیس اکادمی دلّی کی جانب سے ۱۱ فروری ۲۰۰۴؁ء کو انڈیا انٹر نیشنل سینٹر،نئی دھلی میں منعقد جشن استقبالیہ میں چندر بھان خیال ؔ نے جو نظم پیش کی تھی۔ وہ بے مثل اور لاجواب ہے۔ چندر بھان خیالؔ کی نظم’’اُردو اور گوپی چند نارنگ‘‘ کے چند نظمیہ اشعار خاطر نشیں ہو:
یہ ما بعدِ جدید احساس اور انداز ہے سنئے
نئے خوابوں، نئی دُنیاؤں کی آواز ہے سنئے
ادب کی آرزوؤں کو اجالا دینے والے کو
نظر کی جستجوؤں کو سنبھالا دینے والے کو
چوہترواں جنم دن اور پدم بھوشن مبارک ہو
محبّت سے بھرا پورا حسیں خرمن مبارک ہو
مری اس بات سے سب لوگ ہم آہنگ بھی ہوں گے
جہاں پائیں گے اُردو کو وہاں نارنگ بھی ہوں گے

خیال ؔ کی ابتدائی دور کی نظمیہ شاعری میں احتجاجی ،باغیانہ اور انقلابی پہلو جا بجا نظر آتے ہیں لیکن اُن کے الفاظ میں گھن گرج اور جوش نظر نہیں آتا ہے بلکہ وہ اپنی نظمیہ شاعری میں دھیمے، نرم، نازک اور سادہ و سلیس زبان کا استعمال بڑے ہی فنّی لطائف کے ساتھ کرتے ہیں۔ جس سے اُن کی غیر معمولی نظمیہ شاعری میں فنّی حسن و جمال پیدا ہو گیا ہے۔وہ نعرہ نہیں لگاتے ہیں ،وہ شور نہیں کرتے ہیں،وہ ہنگامہ نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی جلوس میں شامل ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے فکری و فنّی شعور و آگہی،منفرد لب و لہجہ،دیو مالائی اثرات اور مختلف رنگ و آہنگ سے قاری کو نظمیہ شاعری سے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ،اُن کو غور و فکر کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں اور اُن کوروحانی اور قلبی سکون عطا کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اُردو نظمیہ شاعری میں چندر بھان خیالؔ اپنی شعری انفرادیت کی وجہ سے معاصر نظم گو شعرا میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں ۔ اکیسویں صدی کے اس ما بعد جدید سے نئے عہد کی تخلیقیت کے تناظر میں چندربھان خیال کی نظمیہ تخلیقیت اُردو ادب میں ایک بے بہا اضافہ ہے اور انھوں نے اپنی غیر معمولی شاعری سے اُردو ادب کو مالا مال کر دیاجس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح اگر یہ کہا جائے کہ ما بعد جدید دور میں چندربھان خیالؔ نظمیہ شاعری کے آفتاب ہیں تو شائد مبالغہ نہ ہوگا۔

Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 78749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.