امریکہ میں نسلی امتیاز بڑھ رہا ہے
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
امریکی پولیس ہر سال چار سو افراد کی جان
لے لیتی ہے
پولیس حملوں میں ہفتے میں دو سیاہ فام مارے جاتے ہیں
امریکی شہر سینٹ لوئس میں پولیس نے گولی مار کر ایک سیاہ فام نوجوان کو
ہلاک کردیا ہے۔اگست میں اسی شہر میں پولیس کے ہاتھوں ایک اور سیاہ فام
نوجوان مائیکل براؤن کی ہلاکت کے بعد شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔مقامی
پولیس کا موقف ہے کہ یہ نوجوان مسلح تھا اور اس نے ایک افسر پر پستول تانی
تھی۔ برکلے میں مارے جانے والے اس نوجوان کی شناخت 18 سالہ انتونیو مارٹن
کے طور پر ہوئی ہے۔انتونیو مارٹن کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کی خبر پھیلتے
ہی مظاہرین کی بڑی تعداد موقع پر جمع ہو گئی اور امریکی پولیس کے خلاف
احتجاج کیا۔ہلاک ہونے والے اور احتجاج کرنے والے سیاہ فام نسل سے ہیں۔ جس
کے بعد شہر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔پولیس کے
ترجمان سارجنٹ برائن شیل کے مطابق منگل کی شام معمول کے گشت کے دوران دو
مشکوک افراد کی تلاشی لینے کی کوشش کی گی۔ تو ان میں سے ایک نے پولیس افسر
پر پستول تان لی۔ اپنی زندگی کو خطرے میں پاتے ہوئے اس افسر نے جوابی
کارروائی کی جس میں یہ نوجوان مارا گیا اور دوسرا موقعے سے فرار ہوگیا۔یہ
دوسرا موقع ہے، جس میں پولیس نے ایک سیاہ فام کو مار دیا ہے۔ اس سی پہلے
مائیکل براؤن کو ہلاک کیا یا تھا جو غیر مسلح تھا مارنے والے پولیس افسر کے
خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی جس کے خلاف سیا فام امریکی شہریوں نے
ملک بھر میں احتجاج کیا تھا۔ امریکا میں جہاں تمام انسانوں کو بلا تفریق
بنیادی شہری حقوق حاصل ہیں وہیں پولیس کو کسی بھی شہری کو فنا کے گھاٹ
اتارنے کے بھی خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ انہی خصوصی اختیارات کو استعمال
کرتے ہوئے امریکا کے سیکیورٹی ادارے سالانہ چار سو افراد کی جان لے لیتے
ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ فسادات پاکستان یا ترقی پذیر ملکوں ہی میں ہوتے ہیں۔
دنیا کے سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ ملک امریکہ میں خوفناک فسادات کی آگ
بڑھ رہی ہے۔ نسلی امتیاز بڑھ رہا ہے۔ جس پر امریکہ کے 90 شہروں میں آتشزنی
اور تشدد بھڑک اٹھا۔کئی شاپنگ مال جلا دیئے گئے ہیں درجنوں گاڑیاں پھونک دی
گئی ہے۔ لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے۔ گذشتہ قتل کے واقعے میں جیوری نے
پولیس اہلکار پر چارج شیٹ نہ لگانے کافیصلہ کیا تھا۔اس کے بعد سینٹ لوئی
کونٹی کے وکیل رابرٹ میکلوک نے اعلان کیاتھا کہ پولیس افسر دیرر ویلسن کے
خلاف کوئی ا مکانی وجہ نہیں ملی ہے جس کی بنیاد پر اس پر مقدمہ چلایا جائے
اس فیصلے کے بعد امریکہ کی اس ریاست میں فسادات شروع ہوگئے۔ امریکہ کی گوری
آبادی کاالزام ہے کہ گرینڈ جیوری میں سیاہ فاموں کا بول بالا ہے۔ اس لئے
ملزم کو رہا کردیا گیا ہے۔ اس میں نو سیاہ فام اور تین گورے جج تھے۔ فسادات
کو روکنے کے لئے 10ہزار سے زیادہ سیکورٹی فورس کے جوان فسادات زدہ علاقوں
میں تعینات کئے گئے 150 راؤنڈ گولیاں سیکورٹی فورس کے ملازمین پر مظاہرین
نے داغی ۔مائیکل براون کے قتل کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس میں مائیکل
براؤن کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں دکھائی دے رہا ہے۔اگست میں پولیس نے
فرگوسن میں پرتشدد مظاہروں کے بعد 31 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔ سینٹ
لوئیس کے مضافاتی علاقے فرگوسن میں یہ واقعہ 9 اگست کو پیش آیا تھا۔ جس میں
پولیس نے ایک 18 سالہ سیاہ فام نوجوان مائیکل براؤن کو ہلاک کیا تھا جس کے
بعد علاقے میں ہنگامے شروع ہوگئے تھے۔مقامی سیاہ فام آبادی میں اس نہتے
لڑکے کی ہلاکت پر علاقے کی سفید فام اکثریت والی پولیس کے خلاف شدید اشتعال
پایا جاتا تھا۔ فرگوسن میں مائیکل براؤن پر گولی چلانے والے اہلکار کی
گرفتاری کے لیے مظاہرے اب بھی جاری ہیں ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ’مشتبہ شخص
پولیس اہلکاروں کی جانب مڑا، اس نے چاقو نکالا اور پھر اہلکاروں کو للکارا
کہ ’مجھ پرگولی چلا کر دکھاؤ۔ مجھے مار کر دکھاؤ۔مائیکل براؤن کی ہلاکت کے
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اہلکار نے براؤن پر اس وقت گولی چلائی جب وہ
اپنے ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھا جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ گولی براؤن اور
ولسن کے درمیان جدوجہد کے دوران چلی۔
براؤن کے خاندان کی طرف سے ایک ڈاکٹر نے مائیکل براؤن کی لاش کا پوسٹ مارٹم
کیا گیا۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق براؤن کو چھ گولیاں ماری گئی جن میں سے
دو ان کے سر میں لگیں جبکہ ان کے جسم پر کسی قسم کی لڑائی کے آثار نہیں
ملے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ براؤن کو دو فٹ سے زیادہ فاصلے سے
گولیاں ماری گئیں کیونکہ لاش پر گن پاؤڈر کے کوئی اثرات نہیں تھے۔بعد میں
عدالت نے سفید فام پولیس افسر کو اس قتل میں بری کردیا ۔ جس عوام میں
اشتعال پھیلا ،فرگوسن میں حالات خراب ہونے کے بعد نیشنل گارڈز کو تعینات
کیا گیا ۔حالات ایسے بگڑے کہ پولیس اہلکاروں کو آنسو گیس استعمال کرنا پڑی
کیونکہ ان پر ’فائرنگ کی گئی اور پیٹرول بموں سے حملہ کیا گیا۔‘ان ہنگاموں
کے بعد .امریکی صدر براک اوباما نے بھی عوام کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے
کی تلقین کی ہے۔ انھوں نے فرگوسن کے مقامی لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ آپس
میں ’ہم آہنگی‘ پیدا کریں۔ انھوں نے کہا کہ وہ نوجوان لڑکے کی ہلاکت پر غم
و غصے کے اظہار کو سمجھتے ہیں لیکن لوٹ مار کرنے، اسلحہ لے کر گھومنے اور
پولیس پر حملے کرنے سے کشیدگی بڑھتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’اس سے انصاف کے
تقاضے پورے نہیں ہوتے۔‘ سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت پرپولیس کی بریت نے جلتی
پے تیل کا کام کیا اور پورے فرگوسن شہر میں پْرتشدد مظاہروں کا ایک نیا
سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ پولیس کی تحقیقات میں قاتل کو بری قرار دیتے ہوئے
واضح کیا گیا کہ اس نے سیاہ فام شہری پر خود کو حاصل اختیارات کے تحت ہی
گولی چلائی تھی۔امریکا وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئیکی رپورٹ کے مطابق
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سالانہ اوسطاً 400 افراد مارے جاتے ہیں۔ ان
تمام افراد کے قاتل پولیس اہلکاروں کو یہ کہہ کر بری کر دیا تھا ہے کہ
انہوں نے قانون کے اندر رہتے ہوئے گولی چلائی تھی۔رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس
امریکی پولیس کے ہاتھوں مجموعی طور پر 463 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے ایک
چوتھائی سیاہ فام امریکیوں پر مشتمل تھی جو کل آبادی کا صرف 14 فیصد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکا کی سفید فام پولیس کے ہاتھوں ہفتے میں دو سیاہ فاموں
کی موت واقع ہوتی ہے اور انہیں پھر بری کر دیا جاتا ہے۔ امریکا میں سیاہ
فاموں کی جانب سے اپنے کسی شخص کی پولیس کی فائرنگ میں ہلاکت کے رد عمل میں
پہلی مرتبہ اتنا سخت احتجاج نہیں کیا بلکہ اس سے قبل سنہ 1992 میں پولیس نے
رونی کنگ نامی ایک سیاہ فام نسل کے باشندے کو تشدد کرکے قتل کردیا تھا جس
کے خلاف پورے امریکا میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو ایک ہفتے تک
جاری رہا۔پرتشدد مظاہروں کے دوران کم سے کم 53 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو
بیٹھے اور ایک ارب ڈالر سے زاید مالیت کا قومی املاک کو نقصان پہنچا
تھا۔امریکہ میں اس نسلی تشدد پر روس کی وزارت خارجہ کے ایلچی برائے انسانی
حقوق کونستانتین دولگوو کا کہنا ہے کہ امریکا کے شہر فرگوسن میں پیش آنے
والے واقعات امریکا کو درپیش سنگین مسائل کی علامت ہیں۔ دولگوو کے مطابق
امریکی معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان اختلافات بڑھ رہے ہیں کیونکہ ملک
کے حکام اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے کچھ نہیں کررہے۔ایسے عالم میں جب حالیہ
مظاہروں نے امریکہ میں نسلی امتیاز کے مسئلے کو مرکز توجہ بنا دیا ہے باراک
اوبامہ نے کہا ہے کہ یہ مسئلہ امریکی تاریخ اور معاشرے میں اپنی جڑیں پیوست
کر چکاہے۔ اگرچہ امریکہ میں غیرسفید فاموں کے ساتھ نسلی امتیاز سنجیدہ
مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن فرگوسن اور پھر اس کے بعد نیویارک میں سیاہ فام کے قتل
میں ملوث پولیس افسر کو بری کر دیئے جانے کے بعد اس دیرینہ مسئلے کے نیچے
دبی ہوئی چنگاری شعلہ بن چکی ہے۔ امریکی سیاہ فام سمجھتے ہیں کی اس سے قبل
بھی بارہا ایسا ہوا ہے کہ اس طرح کے کیس کے ملزمین قانون کے ہاتھ سے بچ
نکلنے میں کامیاب رہے اور سیاہ فام امریکی نوجوان کے قتل کیس میں بھی ایسا
ہی ہوا۔مارتین ایک سیاہ فام امریکی نوجوان تھا جو چھبیس فروری دوہزاربارہ
میں ریاست فلوریڈا کے سنفور شہر کے ایک محلے کے گارڈ جارج زیمرمن کی گولیوں
کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگیا۔اس فائرنگ پر بھی بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے
ہوئے تھے لیکن آخرکار زیمرمن بھی الزامات سے بری ہوگیا۔امریکہ میں نسلی
امتیاز ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور اس ملک کی تاریخ و ثقافت کی جڑوں میں پیوست
ہے۔امریکہ کی تشکیل کے بعد، اس ملک کی اقتصادی و معاشی پیشرفت و ترقی کا
بھاری بوجھ ان غلاموں کے کاندھوں پر لاد دیاگیا جو افریقہ سے اسمگل کئے
جاتے تھے۔یہ معاشی منفعت سماجی اور قانونی شکل اختیارکرگیاتھا یہاں تک کہ
غلامی، کے دور کے خاتمے کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہا۔مارٹین لوتھر کنگ
کی رہبری میں غلامی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے نتیجے میں غلامی ختم
کئے جانے کے برسوں بعد سیاہ فاموں کی صورت حال بہتر ہوئی تاہم یہ دیرینہ
مسئلہ ختم نہ ہوسکا۔امریکہ کی قانونی اور سماجی تحقیقات کے نتائج سے پتہ
چلتا ہے کہ ظاہر کے برخلاف، امریکی سماج کے درمیانی اور نچلے طبقے کی تہوں
میں نسلی امتیاز بڑھتا جا رہا ہے۔اس وقت بہت سے وسائل اور مراعات جو سفید
فاموں کو حاصل ہیں، وہ غیرسفید فاموں کو میسر نہیں ہیں۔مثال کے طور پر
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر کاموں ، بالخصوص محنت کے کاموں میں سفید
فام مزدوروں کے مقابلے میں سیاہ فام اور ہیسپانوی مزدوروں کو نہایت کم اجرت
ملتی ہے۔جرائم کے ارتکاب کے سلسلے میں سیاہ فاموں کو سفید فاموں کے مقابلے
میں تقریبا بیس فیصد زیادہ سزا دی جاتی ہے۔ امریکہ میں سزائے موت یا عمرقید
کی سزا پانے والوں میں زیادہ تر سیاہ فام یا غیر سفید فام ہوتے ہیں۔امریکہ
کی تاریخ میں پہلی بار وہائٹ ہاؤس میں سیاہ فام صدر پہنچنے کے بعد یہ امید
پیدا ہوئی تھی کہ اب اس ملک کی مختلف نسلوں کے درمیان آشتی قائم
ہوجائیگی۔لیکن ایسا نظرآتا ہے کہ غیر سفید فام صدر ہونا امریکہ کی اس
دیرینہ مشکل کے حل میں نہ صرف یہ کہ معاون ثابت نہ ہوا بلکہ سروے رپورٹوں
کے مطابق اس ملک میں نسلی کشیدگی میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ امریکہ کی اس
صورتحال پر اس کا دیرینہ حریف ایران بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امریکہ
کی صورت حال، اس ملک میں حقیقی پالیسی اور حکومت کے ساتھ سماجی شراکت اور
ڈیموکریسی کے دعوؤں کے درمیان واضح فاصلے کی غمّاز ہیں۔ وزارت خارجہ کے
پریس نوٹ میں دفتر خارجہ کی ترجمان محترمہ مرضیہ افخم نے امریکہ میں نسلی
امتیاز کی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، تاکید کی کہ نسلی امتیاز کے
خلاف امریکہ کے عوام کے وسیع احتجاج اور غیر سفید فاموں کے خلاف تشدد
پسندانہ برتاؤ سے امریکہ کے معاشرے میں پائے جانے والے طبقاتی فرق کی
نشاندہی ہوتی ہے۔ مرضیہ افخم نے امریکہ کی پولیس کے رویّے اور غیر سفید
فاموں اور اقلیتوں کے خلاف تشدد اور نسلی امتیاز کے حوالے سے اس ملک کی
عدلیہ کے جانبدارانہ اقدامات پر بھی تنقید کی اورکہا کہ امریکہ کے
سیاستدانوں اور حکمرانوں کو اپنے ملک کی اندرونی صورت حال پر گہری توجہ
دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ امریکی حکومت کہ جو گذشتہ چند دہائیوں سے انسانی
حقوق کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر کے اور اپنے دوغلے رویّوں کے ذریعے،
مسلسل دیگر ملکوں کو نشانہ بنارہی ہے، خود اپنے ملک کی اندرونی صورت حال سے
غافل ہے ۔ ادھراقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسداد تشدد نے بھی امریکہ میں
سیکورٹی اداروں کی جانب سے سیاہ فام شہریوں پر تشدد اور ان کے خلاف طاقت کے
بے دریغ اور بلاجواز استعمال کی مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کی دس رکنی کمیٹی
کی رپورٹ میں امریکی حکام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اقلیتوں پر بلاجواز تشدد
اور ان کے ساتھ نسلی امتیاز روا رکھنے والے پولیس اہکاروں کے ساتھ سختی سے
پیش آئیں۔دنیا بھر میں انسانی حقوق کے موضوع کے لے کر چودھراہٹ کا مظاہرہ
کرنے والے ملک کے تعلق سے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ
میں پولیس کی طرف سے شوٹنگ یا سیاہ فام افراد کا پیچھا کیے جانے کے واقعات
اکثر و بیشتر اور بار بار نظروں سے گزرتے ہیں۔اقوام متحدہ انسانی حقوق کے
ماہرین کے پینل نے امریکی حکومت پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ انسانی
حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق امریکی عہدے داروں نے اعداد و شمار فراہم
نہیں کیے۔2006 کے بعد سے امریکہ کے ریکارڈ کے بارے میں اقوام متحدہ کے
ماہرین کے پینل کی طرف سے سامنے آنے والی یہ پہلی جائزہ رپورٹ ہے۔اقوام
متحدہ کی کمیٹی برائے انسداد تشدد کی جاری کردہ رپورٹ میں رواں برس امریکی
ریاست میزوری کے شہر فرگوسن میں سفید فام پولیس اہکار کے ہاتھوں ایک نوجوان
سیاہ فام شہری کے قتل کے واقعے اور اس کے بعد پرتشدد مظاہروں کے واقعات کو
شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی ساہ فام نوجوان کی تازہ ہلاکت پر کوئی
تبصرہ کیا گیا ہے۔ |
|