1983ء پاکستان میں کمپرس نیچرل گیس (سی
این جی )عوام میں سستے ایندھن اور ماحول دوست فیول کے طور پر متعارف کرائی
گئی جو رفتہ رفتہ ملکی معیشت کی ترقی کا اہم جزو بن گئی جس کی وجہ سے اس
وقت پاکستان سی این جی استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے جبکہ اس
صنعت میں چار سو ارب سے زائد کی سرمایہ کاری بھی کی جاچکی ہے ۔ محتاط
اندازے کے مطابق ملک بھر میں 50 لاکھ سے زائد گاڑیاں سی این جی استعمال
کررہی ہیں اور 33سو سے زیادہ سی این جی اسٹیشن بھی قائم ہوچکے ہیں ۔ اس
صنعت سے ایک طرف لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے تو دوسری جانب جبکہ پبلک
ٹرانسپورٹ میں یہ بنیادی اور اہم جزو کا کردار ادا کررہی ہے ، لیکن بد
قسمتی یہ ہے کہ ملک میں ابھی تک کسی بھی حوالے سے مربوط اور دیر پا
پالیسیاں نہیں بنائی گئی ہیں جس کے سبب دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ سی این جی
سیکٹر بھی متاثر ہورہا ہے اور وطن عزیز اقتصادی ترقی کی وہ منازل نہیں طے
کر پا رہا جس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔
پاکستان میں ہائیڈرو کاربن ڈیویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ وہ ادارہ ہے جس نے ملک میں
دی سی این جی کو سستا اور ماحول دوست فیول متعارف کروایا ، البتہ یہ بات
سمجھ سے بالاتر ہے اس ماحول دوست فیول کو متعارف کرتے ہوئے یہ بات کیوں نہ
محسوس کی گئی کہ ملک میں گیس کے ذخائر اسے پورا کر نے کیلئے ہیں بھی یا
نہیں ۔ لگتا ہے کہ منصوبہ سازوں نے ملک میں موجود گیس کے ذخائر کے بارے میں
محض قیاس آرائیوں سے کام لیا گیا اور حکومتی سطح پر سی این جی کے فروغ
کیلئے سرمایہ کاروں کو اسٹیشن لگانے کی ترغیب دی گئی۔ کھربوں کی سرمایہ
کاری ہوئی لیکن بعد کی حکومتوں نے گیس قلت کو جواز بناکر اس صنعت کو قدرتی
ذخائر کا ضیاع کرنے والی صنعت قرار دیدیا اور اس کی بندش کیلئے پالیساں
بنائی گئیں اور اس پر مختلف قسم کے ٹیکس لگادئے گئے یعنی سستے ایندھن کو
ٹیکسوں کے بوجھ سے لاد دیا گیا ۔ پانچ سال پوری کرنے والی ذرداری حکومت پر
الزام ہے کہ اس صنعت کو صدر آصف علی ذرداری اور ان کے قریبی دوست سابق مشیر
پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے نقصان پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ،
جنہوں نے ذاتی طور پر مخالفت کرتے ہوئے سی این جی کو بند کرنے کی کوشش بلکہ
سازش کی ۔ علاوہ ازیں ایل پی جی اور ایل این جی لانے کی منصوبہ بندی کی ۔
حکومت کے فیصلے کے مطابق عام صارفین کو پہلی ، بجلی گھروں اور عام صنعت کو
ترتیب وار دوسری اور تیسری ترجیح جبکہ سیمنٹ کو چوتھی اور سی این جی سیکٹر
کو گیس کی فراہمی آخری ترجیح میں شامل کیا گیا ہے لیکن صورتحال اس کے برعکس،
کشیدہ اور انتہائی تشویشناک ہے کہ گھریلو صارفین عرصہ دراز سے عدم فراہمی
یا کم پریشر کی وجہ سے مشکلات سے دوچارہیں ۔ یہ مسئلہ موسم گرما میں کسی حد
تک قابل برداشت ہوتا ہے البتہ سردیوں کی آمد کے ساتھ سر اٹھانے لگتاہے ۔
پنجاب ، خیبر پختونخوا ، سندھ بالخصوص بلوچستان جو ملک بھر میں گیس کی
فراہمی کا منبع ہے جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر جاتا ہے وہا ں گیس کی
فراہمی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جوعوام کیلئے موسم کی سختیوں کو برداشت
کرنے میں ناممکن ہے ۔ لوگ مجبوراً نایاب جری بوٹیوں اور جنگلات کو کو بطور
ایندھن استعمال کرتے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتی ہے اور اس پر
حکومتی سطح پر خاموش تماشائی کاکردار المیہ سے کم نہیں ۔ مشرف دور میں چنگ
چی رکشوں کی آمد اور پبلہر طرح کی ٹرانسپورٹ کو سی این جی پر کرنے سے عوام
کو جو مسائل کا سامنا اب اٹھانا پڑرہا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے ریلیف کے
اقدامات نہیں ۔ سوائے صوبہ ء سندھ کے پورے ملک میں موسم سرما میں سی این جی
کی بندش سے سفری اخرجات بڑھ گئے ہیں جبکہ سندھ میں ایک روز سی این جی کی
فراہمی اور ایک روز عدم فراہمی نے عوام کو نفسیاتی کیفیت میں مبتلا کردیا
ہے ۔ کراچی شہر میں اب سے دوماہ پہلے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو
جواز بناکر عوام کو لوٹا جارہا تھا البتہ اب کمی کے بعد یہ جواز بناگیا ہے
کہ پیٹرول سے ایوریج سی این جی نسبت کم ہوتی ہے لہٰذا کرایوں میں کمی ممکن
نہیں جبکہ حکومت اس معاملہ میں ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں یرغمال بنی دکھائی
دے رہی ہے ۔یہ وہ مسئلہ ہے جس سے اخرجات میں اضافہ ہورہا ہے جس پر شاید
عوام کسی بھی طرح سے برداشت کررہے ہیں مگر اس بڑھ کر روزگار کا مسئلہ ہے جو
گیس کی عدم گؤفراہمی کے باعث درپیش ہے ۔پنجاب میں فیصل آباد اور گوجرانوالہ
جو ٹیکسٹائل صنعت کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے
زیادہ گیس کی عدم فراہمی کا مسئلہ ہے جس کے سبب کئی صنعتیں بند اور لاکھوں
افراد کوبیروزگارکرکے نان شبینہ کا محتاج کردیا ہے ۔سیمنٹ فیکٹریوں کی بندش
سے کئی ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں اور جاری منصوبوں کی لاگت میں کئی
گنا اضافہ ہوچکا ہے ۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور لاکھوں
خاندان اس سے وابستہ ہیں جن کی مسلسل اور انتھک محنت کی وجہ سے ملک میں
ضروریات پوری ہوتی ہیں اور ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن جب سے
سی این جی سیکٹر کو وسعت دی گئی ہے ملک میں یہ شعبہ بھی دیگر کی طرح تنزلی
کی جانب جارہا ہے ۔ اس کی وجوہات بے شمار ہیں لیکن ان میں بجلی کی عدم
فراہمی یا مہنگی بجلی کی دستیابی کے ساتھ ساتھ غیر معیاری اور مہنگی کھاد
کی فراہمی ہے کیونکہ ملک میں گیس نہ ہونے سے کئی کھاد فیکٹریا ں بند پڑی
ہیں ۔ مثال کے طور پر ضلع میانوالی میں قائم ایگری ٹیک فرٹیلائزر پلانٹ گیس
کی عدم دستیابی کے باعث نومبر 2013ء سے بند پڑا ہوا ہے جس کی بنا پر ایک
جانب کھاد تیار نہیں ہورہی ہے تو دوسری جانب سینکڑوں کا روزگا ر داؤ پر لگ
گیا ہیے جبکہ ECH نے اس پلانٹ کو سال 2014ء کو 165000میٹرک ٹن پروڈکشن کا
ٹارگٹ دیا ہے۔ OGDCL نے SNGPL کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ گیس کا
پریشر بڑھ جانے کی وجہ سے 4.5 ملین کیوبک یومیہ گیس کی پیداوار اور 500بیرل
یومیہ تیل کی پیداوار کے خسارے کا سامنا ہے جو کہ ایگری ٹیک کو گیس فراہم
کرکے پورا کیا جاسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں کوئی پاور سیکٹر SNGPL کے اس نیٹ ورک
سے منسلک نہیں ۔ یہ ایک کھاد پروڈیوس کرنے کا ایک پلانٹ ہے جس کی بندش سے
نہ صرف سینکڑوں ملازمین بے روز گار ہوجائیں گے بلکہ OGDCL کو بھی کرڑوروں
کا نقصان بھی اٹھانا پڑرہا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کاگیس کے حوالے سے دنیا میں نمایاں مقام ہے ۔ ملک
میں 55ٹریلین ایکٹر فٹ(TCF ) قدرتی ذخائر موجود ہیں جو دنیا کے 25ویں بڑے
ذخائر میں شمار ہوتے ہیں ، 51 ٹریلین ایکٹر فٹ SHALE GAS ذخائر ، 40 کھرب
ٹریلین ایکٹر فٹ TIGHT GAS ، 21ٹریلین ایکٹر فٹ LOW BTUگیس کے ذخائر موجود
ہیں جن کی مالیت 36 کھرب ڈالر بنتی ہے اور یہ پاکستان کی 100 کی ضروریات
کیلئے کافی ہیں ۔ ملک میں 33فیصد گیس بجلی کیلئے استعمال ہورہی ہے جبکہ
ہمارے پاس پانی، ہوا ، سورج اور دیگر ذرائع سے سستی اور ماحول دوست بجلی
بنائی جاسکتی ہے جبکہ 10فیصد گیس گاڑیوں استعمال کررہی ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق سب سے زیادہ گیس سی این جی صورت میں ہمارے یہاں
گاڑیوں میں استعمال ہورہی ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں 4th
Genration Gas Appiancess جبکہ پاکستان میں 1st Genration زیر استعمال ہے ۔
گیس کمپنی کا کہنا ہے کہ آئے روز پائپ لائنوں اور فیلڈ پر عسکر ی گروپوں کی
جانب سے حملوں کے باعث گیس ضائع ہوجاتی ہے ۔ حالانکہ ان واقعات پر قابو
پانے کیلئے اگر موثر عملی حکمت کے تحت اقدامت کئے جائیں تو گیس کا ضیا ع کم
ہوسکتا ہے ۔
پاکستان میں سی سین جی کا مستقبل تنزلی کا شکار ہے جو اس قدر قابل رحم نہیں
کہ اس کیلئے اقدامات کئے جانا ضروری ہوں البتہ ملک میں صنعتوں کا بند ہونا
اور اس کے ذریعہ ملک میں بیروزگاری کی عفریت کا وسعت پانا یقینا پاکستان کی
ترقی و خوشحالی کی ضمانت نہیں ۔ ملک میں کئی نئی گیس فیلڈ دریافت ہورہی ہیں
اور امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا جس سے ممکنہ حد تک مسائل کا حل ہوسکے
گا ، لیکن ضرورت اس امر کی ہے حکومتی سطح پر وزارت آئل اینڈگیس سنجیدگی کا
مظاہرہ کرے تاکہ عام صارفین سے لیکر صنعتوں کی بحالی تک گیس کی بھر پور
فراہمی یقینی بنائی جاسکے جو ملک میں اقتصادی صورتحال کی بہتری کیلئے
ناگزیر ہے ۔ |