نفرتوں کی فصل پر امن کی آشا۔ ۔ ۔ ۔

امن کی آشا..... نا سمجھ دیوانوں کا خواب

گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے دو بڑے میڈیا گروپس نے پاکستان اور بھارت میں ”امن کی آشا“ کے عنوان سے سروے کرائے، اس سروے رپورٹ کے مطابق 72 فیصد پاکستانیوں اور 66 فیصد بھارتیوں نے پرامن تعلقات کے حق میں رائے دی، اس سروے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں مردوں، عورتوں، بچوں اور بڑوں سمیت سب کی رائے ایک سی ہے، جبکہ پاکستان میں خواتین کی نسبت مرد امن کے زیادہ حق میں ہیں، قابل غور بات یہ ہے کہ ”امن کی آشا“ پراجیکٹ کے تحت کیے گئے سروے کے دوران 64 فیصد پاکستانیوں کی رائے یہ تھی کہ” ذہن میں بھارت کا نام آتے ہی کشمیر کا خیال آتا ہے“، یوں تو امن کی آشا کا مطلب امن کی خواہش یا امن کی امید ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ خیال برا نہیں، لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس سروے میں شامل کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو اس بات کا علم ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نزاعی معاملات کی اصل اور بنیادی نوعیت کیا ہے؟ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس سروے رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے صرف ایک دن پہلے پاکستان سمیت دنیا بھر کے اخبارات میں بھارتی آرمی چیف جنرل دیپک کپور کی وہ تقریر بھی شائع ہوئی، جو دہلی میں ایک سیمینار میں کی گئی تھی، اس سیمینار میں جنرل دیپک کپور نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ بھارت، پاکستان اور چین کے ساتھ بیک وقت جنگ کرنے بلکہ جیتنے کے امکانات پر کام کر رہا ہے اور اس حوالے سے بنیادی ہوم ورک تیار کرلیا گیا ہے، دیپک کپور کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے فوج کو اسپیشل ٹریننگ بھی دی جارہی ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ بھارتی فوج نے پاکستان اور چین کے ساتھ بیک وقت جنگ کی تیاری شروع کر دی ہے اور نئی جنگی اور جارحانہ ڈاکٹرائن پر شملہ کے آرمی ٹریننگ کمانڈ سینٹر میں کام بھی جاری ہے، جس کا مقصد روایتی اور غیر روایتی صورتحال میں جنگی حکمت عملی اور تیاریاں ہیں، بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ ڈاکٹرائن کے سست آغاز اور بھارتی فوج کی جنگی پوزیشن میں تاخیر سے آنے کی وجہ سے پاکستان کو اپنا دفاع مضبوط بنانے اور بین الاقوامی برادری کو مداخلت کا موقع مل گیا ہے، بھارتی آرمی چیف جنرل دیپک کپور نے سیمینار کے دوران یہ بھی بتایا کہ بھارت ملکی ساختہ وار اور ڈاکٹرائن میں موجود خامیاں دور کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اب بھارتی فوج فوری جنگ کیلئے تیار ہے، سیمینار میں جنرل دیپک کپور نے دعویٰ کیا کہ پاکستان اور چین کے ساتھ لڑنے کیلئے بھارتی افواج کو شملہ میں جنرل اے ایس لامبا کی سربراہی میں تربیت دی جاچکی ہے، بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان اور چین کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہے اور دشمن کی سرزمین پر96 گھنٹوں میں قبضہ کیا جاسکتا ہے۔

بھارتی آرمی چیف نے جس نئی جنگی ڈاکٹرائن کے پانچ حصوں کی نشاندہی کی ہے اس کے مطابق ملک کی چاروں سرحدوں پر جارحانہ حملہ کی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے بھارت نے 2001 ء میں جنوب مغربی آرمی کمانڈ قائم کی اور اب وہ چین کے ساتھ جنوبی سیکٹر میں جنگ کی تیاریوں کیلئے اقدامات کے ساتھ مغربی اور شمال مشرقی محاذوں پر بھی مقابلے کی صلاحیت پر کام کررہا ہے، بھارتی آرمی چیف کے مطابق جنگی ڈاکٹرائن کا دوسرا اہم حصہ فوج کو روایتی جنگ سے نمٹنے کے لئے تیار کرنا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال اور سائبر دہشت گردی سے نمٹنا بھی شامل ہے، اس نئی ڈاکٹرائن کا تیسرا نقطہ خلیج فارس سے آبنائے ملاکہ تک دفاعی صلاحیت اختیار کرنا ہوگا، چوتھا نقطہ بری، بحری، جنگی آپریشن میں آزادی حاصل ہوگی، جبکہ جنگی حکمت عملی کا پانچواں نقطہ جدید ٹیکنالوجی کا حصول ہے، جس میں فضائی آپریشن، نگرانی، انفارمیشن اور الیکٹرانک وار ہیڈز کی صلاحتیں شامل ہیں، بھارت کی اِن جنگی حکمت عملیوں اور تیاریوں کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ بہت جلدی میں ہے اور پاکستان و چین کے خلاف فتح حاصل کرنا چاہتا ہے۔

لیکن شاید وہ یہ بات بھول رہا ہے کہ جنگیں صرف اسلحے کے زور پر لڑی اور جیتی نہیں جاسکتیں، جنگ جیتنے کیلئے اُس جوش، جذبے اور ولولے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل طارق مجید نے کہا کہ بھارتی فوج کے سربراہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارتی افواج کیا کر سکتی ہے اور پاکستان کی مسلح افواج کیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے انہوں نے کہا کہ چین کی بات تو چھوڑیں، جنرل دیپک کپور اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بھارتی مسلح افواج کتنے پانی میں ہے اور ان کی مسلح افواج عسکری اعتبار سے کیا کر سکتی ہے، جنرل طارق مجید کی یہ بات دراصل پوری قوم کی آواز ہے کہ بھارتی چیف کو علم ہے کہ پاک فوج کیا کر سکتی ہے، جنرل طارق مجید کے اس بیان سے ہر کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ پاک فوج دشمن کے مقابلے کے لئے ہر قسم کے اسلحے اور جذبہ ایمانی سے لیس اور ہمہ وقت اپنے ملک و قوم کے دفاع کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے تیار ہے واضح رہے کہ اس سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اب جنرل طارق مجیدکا دشمن کیلئے منہ توڑ بیان قوم کے دلوں کی آرزو اور دشمن کیلئے مؤثر پیغام کا درجہ رکھتا ہے۔

در حقیقت بھارت روز اول سے ہی پاکستان کے وجود کے خلاف اور اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے کوشاں ہے، اب چونکہ بھارت کو اس حوالے سے امریکہ کی مدد اور سرپرستی بھی حاصل ہے، اسی تناظر میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول ایٹمی معاہدہ کیا اور افغانستان میں امریکہ نے بھارت کو وہ کردار دیا ہے جس کا کسی بھی طرح کوئی جواز نہیں بنتا تھا، یوں بھارت نے افغانستان کی سرزمین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہر سطح پر سازشوں کا وہ جال بچھا دیا ہے کہ آج پورا ملک دہشت گردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے، بھارت ایک طرف جہاں کشمیر یوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے تو دوسری طرف امریکی آشیرباد سے وہ ہمارے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں حالات خراب کرانے اور پاکستان مخالف جذبات پیدا کرنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہا ہے، شاید اپنی انہی سازشوں کی وجہ سے بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اس کے لئے ترنوالہ ثابت ہوگا، لیکن پاکستان کے ساتھ جنگوں میں اس کا جو حشر ہوا ہے اس کے باوجود بھی اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا مقابلہ کرنا آسان ہوگا تو یہ اس کی خام خیالی اور اس کی پیٹھ ٹھونک کر جنگی تیاریاں کرانے والی طاقتوں کی لاعلمی ہے کہ پاکستان نہ تو افغانستان ہے اور نہ ہی عراق۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ملک پہ اگر کوئی مشکل گھڑی آن پڑی تو پاک فوج کی تو بہادری اور جاں فروشی کی زندہ تاریخ اپنی جگہ پاکستان کی سترہ کروڑ عوام بھی ملکی سلامتی اور دفاع کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کے لئے تیار ہے۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف بھارت میں اس فوجی ڈاکٹرائن پر کام ہو رہا ہے تو دوسری جانب دونوں ممالک کے مشہور میڈیا گروپ امن کی آشا کرتے ہوئے”عوام“ سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کتنے فیصد پاکستانی اور بھارتی دونوں ملکوں کے مابین امن و سکون چاہتے ہیں،یہاں یہ سوال اپنی جگہ الگ جواب طلب ہے کہ دونوں ملکوں کی پالیسیوں پر اس کے عوام کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ 62سال سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کشمیری باشندوں کے ساتھ جو ظلم کر رہی ہے، بھارتی عوام کا اکثریتی حلقہ اسے پسند نہیں کرتا، لیکن بھارت کے پالیسی سازوں نے آج تک اپنے عوام کی اس رائے کو کتنا وزن دیا ہے؟اسی طرح پاکستانی عوام کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ بھارت کے ظلم استبداد سے مظلوم کشمیری مسلمانوں کو نجات دلائی جائے، چاہے وہ بزور شمشیر ہی کیوں نہ ہو، لیکن پاکستان حکومت نے عوام کی اس خواہش کا کس حد تک احترام کیا؟ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں، آج حال یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر اسٹیٹ ہونے کے دعویدار بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ نہ صرف امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق بھی پامال کئے جاتے ہیں۔

ایک ایسا ملک جہاں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سرپرستی میں تاریخی بابری مسجد شہید کر کے وہاں شری رام کی پوجا پاٹ کی اجازت دی جاتی ہو، جہاں گجرات سمیت ملک بھر میں مسلم کش فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہو، جہاں سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی قائد اعظم کی معمولی سی تعریف پر وہاں کا نام نہاد روشن خیال، ترقی یافتہ معاشرہ بھڑک اٹھے، جہاں ایڈیٹر انڈین ڈیفنس ریویو بھارت بما Stable Pakistan is not in Indian Interest مستحکم پاکستان انڈیا کے مفاد میں نہیں جیسے مضمون لکھ رہے ہوں، جہاں مقبوضہ کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھائے اور جہاں حکومت پوری ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر اپنے جنگی جنون اور توسیع پسندانہ عزائم کا برملا اظہار کرے، وہاں چند لوگوں کی خواہش اور امن کی آشا کیا معنی رکھتی ہے، کیا بھارت کے ان اقدامات سے اس کی روشن خیالی اور بھارت میں مسلمان و دیگر اقلیتوں سے متعلق ذہنی رویہ کی عکاسی نہیں ہوتی ہے۔

اس رویئے کی موجودگی میں امن کی خواہش کس طرح نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے اور کیا صرف امن کی آشا سے پاک بھارت میں جنگ نہ کرنے، تخفیف اسلحہ، آزاد تجارت، سارک کرنسی جیسے معاہدات کی توقع کی جا سکتی ہے؟یہاں حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ امن کو بروئے کار لانا عوام کا نہیں ،دونوں ملکوں کے حکمرانوں کا کام ہے اور امن گولی سے نہیں، بندوقیں پھینک دینے سے قائم ہوتا ہے، جبکہ کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوج نے ہنوز کشمیریوں پر اپنی بندوقیں تانی ہوئی ہیں، چنانچہ ان حالات میں امن کا ہر راستہ کشمیر سے ہوکر جاتا ہے اسی لئے پاکستانی سب سے پہلے یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ کتنے فیصد بھارتی مسئلہ کشمیر کا کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق فوری اور آبرومندانہ حل چاہتے ہیں؟ جبکہ مسئلہ کشمیر کا جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو ماننے کے باوجود حل نہ ہونا، سیاچن اور سرکریک کے تنازعات کا طے نہ ہونا نیز سندھ طاس کے معاہدے کی خلاف ورزی سے نئے آبی مسائل کا پیدا ہونا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ صرف خواہشوں سے یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے ہوتے ہوئے امن کے لئے کی جانے والی ہر کوشش کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی، امن کی آشا کے نام سے جو پروگرام بنایا گیا ہے وہ دراصل اسی ایجنڈے کی ایک تبدیل شدہ شکل ہے جو پاکستان اور بھارت کی بعض این جی اوز نے مرتب کیا تھا اور ماضی قریب میں ہمیں متحرک بھی نظر آیا تھا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر اس ایجنڈے کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی، آج اسی ایجنڈے کے مطابق بعض پاکستانی این جی اوز کے نمائندوں شہیدوں کی سرزمین کشمیر میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کررہے ہیں، پاکستانی پاپ گلوکار سرینگر میں شہیدوں کے لواحقین کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک چھڑک رہے ہیں کہ وہ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو میوزیکل جہاد کی دعوت دیتے ہیں اور آج اسی ایجنڈے کے تحت عاصمہ جہانگیر کی جواں سال بیٹی دورہ سرینگر کے دوران اس بات پر افسوس کا اظہار کرتی ہے وہ وہاںرقص نہ کرسکی۔

آج کوئی بھی ذی شعور اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ خطہ میں مستقل قیام امن کی خاطر پرامن بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت میں پڑوسی ممالک والے دوستانہ مراسم قائم ہونے چاہئیں مگر ان دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی بنیاد کے خاتمے اور تمام بنیادی تنازعات طے کئے بغیر نہ تو ایک دوسرے کی آزادی،خود مختاری اور احترام کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہیں اور نہ ہی ”امن کی آشا“ کو حقیقت کی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے، اگر دلوں میں کدورتیں بھری ہوں تو محض چہرے پر مسکراہٹیں سجا کر ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا نا سوائے منافقت کے اور کچھ نہیں،لہٰذاسب سے پہلے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق رائے دہی دیا جائے، کیونکہ کشمیر ہی وہ واحد تنازعہ ہے جس پر بھارت اپنے اکھنڈ بھارت کے فلسفہ توسیع کے تحت پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر چکا ہے، ہمارے وطن عزیز کے ایک بڑے حصے کو ہم سے جدا کر چکا ہے اور باقی ماندہ پاکستان کی جڑیں کاٹ کر اسے کمزور بنانے کی سازشوں میں مصروف اور ہڑپ کرنے کی خوہش رکھتا ہے۔

اس مقصد کیلئے ہی وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہماری شہ رگ پر اپنا خونیں پنجہ مضبوط بناکر پاکستان آنے والے دریاﺅں کا پانی روک کر ہماری زرخیز و شاداب زمینوں کو بے آب و گیاہ صحرا میں تبدیل کرسکے، ہمارا سوال ہے کہ آج جس ثقافت کی بنیاد پر یہ دونوں میڈیا گروپس امن کی آشا کی تحریک چلارہے ہیں، کیا وہ اس حقیقت کو بھول گئے کہ انہی دو ایشوز کی وجہ سے دو قومی نظریے کے تحت تقسیم ہند کی بنیاد رکھی گئی تھی اور پاکستان کاقیام عمل میں آیا تھا،کیونکہ مذہبی تعصب کی بڑائی میں مبتلا ہندو بنیاء ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود کسی طور بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا، لہٰذا امن کی خواہش کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ متعصب ہندو بنیئے کی وہ سوچ اور ذہنیت آج بھی قائم ہے، یاد رہے کہ خوبصورت الفاظوں کے استعمال سے حقائق اور تاریخ نہیں بدلتی، یہ درست ہے کہ اس خطے کے عوام کئی دہائیوں سے امن و سکون چاہتے ہیں، لیکن ایسا تب تک ناممکن ہے جب تک بھارتی حکومت اپنا ذہنی رویہ تبدیل نہیں کرتی، چناچہ ان عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ضروری نہیں کہ پہلے حقیقتوں کو تسلیم کرکے بنیادی تنازعات کو حل کیا جائے اور بنیادی مسائل کے حل بغیر صرف سرحدیں مٹانے کی خواہش کو امن کی آشا کی تحریک کی بنیاد نہ بنایاجائے، کیونکہ نفرتوں کی فصل برقرار رکھ کر امن کے بیج بونا اور ان سے میٹھے پھل کی توقع رکھنا کسی ناسمجھ دیوانے کا ہی خواب ہوسکتا ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357982 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More